نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 20 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ جو آدمی کعبہ کو حق مانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مدینہ میں مدفون ہیں یا نہیں تو وہ مومن ہے اور امام حمیدی نے کہا کہ ایسا قول کرنے والا کافر ہے

 


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 20 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ جو آدمی کعبہ کو حق مانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مدینہ میں مدفون ہیں یا نہیں تو وہ مومن ہے اور امام حمیدی نے کہا کہ ایسا قول کرنے والا کافر ہے


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ  ثنا حَمْزَةُ بْنُ الْحَارِثِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْأَلُ أَبَا حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ عَنْ رَجُلٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ الْكَعْبَةَ حَقٌّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِي هِيَ هَذِهِ أَمْ لَا، فَقَالَ: مُؤْمِنٌ حَقًّا. وَسَأَلَهُ عَنْ رَجُلٍ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا بْنَ عَبْدِ اللَّهِ نَبِيٌّ وَلَكِنْ لَا أَدْرِيهُوَ الَّذِي قَبْرُهُ بِالْمَدِينَةِ أَمْ لَا. قَالَ: مُؤْمِنٌ حَقًّا- قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْحُمَيْدِيُّ: وَمَنْ قَالَ هَذَا فَقَدْ كَفَرَ-. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ سُفْيَانُ يُحَدِّثُ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ الْحَارِثِ حدثنا مؤمل ابن إِسْمَاعِيلَ عَنِ الثَّوْرِيِّ بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ حَمْزَةَ.

 "الحارث بن عمیر" کہتے ہیں: "میں نے ایک شخص کو سنا جو مسجد الحرام میں امام ابو حنیفہ سے سوال کر رہا تھا: 'ایک آدمی کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ کعبہ حق ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ آیا یہی (موجودہ کعبہ) ہے یا نہیں؟' امام ابو حنیفہ نے جواب دیا: وہ حقیقی مؤمن ہے۔ پھر اس نے دوسرا سوال کیا: 'ایک شخص کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن عبداللہ نبی ہیں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ جس کا مدینہ میں مزار ہے وہ وہی ہیں یا نہیں؟' امام ابو حنیفہ نے فرمایا: وہ بھی مؤمنِ حق ہے۔" ابو بکر الحمیدی کہتے ہیں: "جس نے یہ بات کہی (یعنی نبی ﷺ کے بارے میں شک کیا) تو وہ کافر ہو گیا۔" ابو بکر مزید کہتے ہیں: "سفیان (ثوری) حمزہ بن حارث سے حدیث روایت کرتے تھے۔ ہمیں مؤمل بن اسماعیل نے سفیان ثوری سے وہی بات (حمزہ کی حدیث کے مفہوم کے مطابق) بیان کی۔"

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/788 )


جواب :  یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ سند میں راوی حارث بن عمیر پر محدثین نے واضح جرح کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ سند ویسے بھی مشکوک ہے، جیسا کہ کتاب کے محقق لکھتے ہیں کہ

في الأصل يوجد قبل «حدثنا ابو بكر الحميدي» هذا الإسناد «حدثنا العباس بن بشر حدثنا ابو يوسف ويحي بن رمضان قالا» ولم أتبين ذلك ولعله خطأ من الناسخ ولم أعثر للاثنين على ترجمة.

اصل (نسخے) میں «حدثنا ابو بكر الحميدي» سے پہلے یہ سند موجود ہے: «حدثنا العباس بن بشر حدثنا ابو يوسف ويحيى بن رمضان قالا»۔لیکن میں اس (سند) کو واضح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ ممکن ہے کہ یہ نقل نویس (کاتب) کی طرف سے کوئی غلطی ہو۔اور میں ان دونوں (یعنی ابو یوسف اور یحییٰ بن رمضان) کے لیے کوئی سوانح (ترجمہ) بھی نہیں پا سکا (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/787 )

 حارث بن عمیر پر محدثین نے واضح جرح کی ہے۔

الحارث بن عمير

لكن قال ابن خزيمة أيضًا: الحارث بن عمير كذاب. وقال الحاكم: روي عن حميد الطويل وجعفر بن محمد أحاديث موضوعة. وقال ابن حبان: «كان ممن يروي عن الأثبات الأشياء الموضوعات»، وساق له جُملة منها. وقال الذهبي في «الميزان»: وثقه ابن معين من طريق إسحاق الكَوْسج عنه، وأبو زُرعة وأبو حاتم والنسائي، وما أراه إلا بيِّن الضعف. وقال في «المغني»: أتعجب كيف خرَّج له النسائي.

قلت: فلعله تبين لكل هؤلاء ما لم يتبين لمن وثَّقه؟ والله أعلم.

شیخ بشار عواد معروف لکھتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ نے اسے کذاب (جھوٹا) قرار دیا، جب کہ امام حاکم نے کہا کہ اس نے حمید الطویل اور جعفر بن محمد سے من گھڑت (موضوع) روایات نقل کی ہیں۔ اسی طرح محدث ابن حبان نے اس پر یہ جرح کی ہیکہ وہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا ہے، اور انہوں نے اس کی کئی من گھڑت روایات بھی نقل کیں۔

ادھر امام ذہبی نے "الميزان" میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ابن معین نے (اسحاق الکوسج کے واسطے سے) اسے ثقہ کہا، اور ابو زرعہ، ابو حاتم، اور نسائی نے بھی اس کی توثیق کی، مگر امام ذہبی فرماتے ہیں: "وما أراه إلا بيِّن الضعف" یعنی مجھے تو یہی لگتا ہے کہ وہ واضح طور پر ضعیف ہے۔

پھر "المغني" میں امام ذہبی مزید فرماتے ہیں: "مجھے تعجب ہوتا ہے کہ نسائی نے کیسے اس سے روایت بیان کی!"

دکتور بشار عواد معروف مزید لکھتے ہیں کہ 

ممکن ہے کہ جن محدثین نے اس راوی کی توثیق کی، ان کے سامنے اس کی وہ منکرات یا موضوع روایات نہ تھیں جو بعد میں دیگر محدثین پر منکشف ہوئیں۔ لہٰذا جنہوں نے جرح کی، وہ شاید زیادہ مضبوط بنیاد پر تھی۔ واللہ اعلم۔

( تحرير تقريب التهذيب ١/‏٢٣٨ — بشار عواد معروف )



مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر26 : امام حمیدی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب


مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں ، مومل بن اسماعیل کے ضعف پر 100 سلفیوں کے حوالے  " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ میں الاجماع شمارہ نمبر 5 یونیکوڈ میں موجود ہیں 


اعتراض نمبر 12: کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ جو آدمی کعبہ کو حق مانتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی گواہی دیتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ وہ مدینہ میں مدفون ہیں یا نہیں تو وہ مومن ہے اور امام حمیدی نے کہا کہ ایسا قول کرنے والا کافر ہے


مؤمل بن اسماعیل جرح و تعدیل کے آئینہ میں

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...