اعتراض نمبر 31 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ وتر فرض ہیں، اور فرض نمازیں پانچ ہی ہیں۔
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 31 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ وتر فرض ہیں، اور فرض نمازیں پانچ ہی ہیں۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ وَسُئِلَ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ: فَرِيضَةٌ. قُلْتُ: كَمِ الصَّلَوَاتُ؟ قَالَ: خَمْسٌ. قُلْتُ: فَالْوِتْرُ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ
. «وَقَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَذَكَرَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَانْتَحَلَهُ لِلْأَرْجَاءِ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ مَنْ مُحَدِّثُكَ؟ قَالَ: سَالِمٌ الْأَفْطَسُ. فَقُلْتُ: إِنَّ سَالِمًا كَانَ مُرْجِئًا، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ: رَآنِي سَعِيدٌ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقٍ فَقَالَ: ألَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقٍ! لَا تُجَالِسْهُ. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ فَمَا كَانَ رأي طلق؟ قال: فسكت، ثم سأله فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ: وَيْحَكَ كَانَ يَرَى الْعَدْلَ». ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَيُّوبَ لَقَدْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا بِهَا، فَقُلْتُ لَأَجْلِسَنَّ إِلَيْهِ لَعَلِّي أَتَعَلَّقُ عَلَيْهِ بِسَقْطَةٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَقَامَ مِنَ الْقَبْرِ مَقَامًا لَا أَذْكُرُ ذَلِكَ الْمَقَامَ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي.
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/794 )
جواب : سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک "فرض" اور "واجب" کا فرق اعتقادی ہے، عملی نہیں۔
اعتقاد کے لحاظ سے: فرض کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، جبکہ واجب کا انکار کرنے والا کافر نہیں بلکہ فاسق ہوتا ہے۔
عمل کے لحاظ سے: فرض اور واجب دونوں کا کرنا لازمی ہے، دونوں کا ترک گناہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں وتر کو "واجب" کہا جاتا ہے، یعنی اس کا ادا کرنا فرض کی طرح لازم ہے۔ جن لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے "وتر فریضہ ہے" والے قول کو یہ سمجھ لیا کہ آپ پانچ فرضوں کے علاوہ ایک اور فرض بتا رہے ہیں، وہ محض اصطلاحی فرق نہ سمجھ پانے کی وجہ سے غلط فہمی میں پڑ گئے۔ عملی پہلو سے واجب کو بھی فرض کی طرح ہی لازم سمجھا جاتا ہے۔
یہی اصول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وتر کے بارے میں اپنایا۔ آپ کے نزدیک وتر کی ادائیگی فرض کی طرح لازمی ہے، مگر چونکہ اس کی دلیل قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے، اس لیے اعتقادی طور پر اسے فرض نہیں بلکہ واجب کہا۔ جب آپ نے "وتر فریضہ ہے" فرمایا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وتر عملی طور پر فرض کی طرح لازم ہے، نہ کہ اعتقادی درجے میں پانچ فرض نمازوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ احناف کے نزدیک وتر کوئی الگ چھٹی نماز نہیں بلکہ عشاء کے تابع واجب ہے۔
اسی نکتے کو علامہ علاء الدین کاسانی رحمہ اللہ (م 587ھ) نے بدائع الصنائع (1/271) میں ایک حکایت کے ذریعے واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
وَفِي هَذَا حِكَايَةٌ وَهُوَ مَا رُوِيَ أَنَّ يُوسُفَ بْنَ خَالِدٍ السَّمْتِيَّ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَنْ الْوِتْرِ فَقَالَ: هِيَ وَاجِبَةٌ، فَقَالَ يُوسُفُ: كَفَرْتَ يَا أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانَ ذَلِكَ قَبْل أَنْ يَتَّلْمَذَ عَلَيْهِ كَأَنَّهُ فَهِمَ مِنْ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَقُولُ إنَّهَا فَرِيضَةٌ فَزَعَمَ أَنَّهُ زَادَ عَلَى الْفَرَائِضِ الْخَمْسِ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِيُوسُفَ أَيَهُولُنِي إكْفَارُكَ إيَّايَ وَأَنَا أَعْرِفُ الْفَرْقَ بَيْنَ الْوَاجِبِ وَالْفَرْضِ كَفَرْقِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ بَيَّنَ لَهُ الْفَرْقَ بَيْنَهُمَا فَاعْتَذَرَ إلَيْهِ وَجَلَسَ عِنْدَهُ لِلتَّعَلُّمِ بَعْدَ أَنْ كَانَ مِنْ أَعْيَانِ فُقَهَاءِ الْبَصْرَةِ،
یوسف بن خالد السمتی نے امام ابو حنیفہ سے وتر کے بارے میں سوال کیا، آپ نے فرمایا یہ واجب ہے۔ یوسف نے کہا: "آپ نے کفر کیا، اے ابو حنیفہ!" ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ وتر کو فرض کہہ رہے ہیں اور گویا پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک اور فرض بڑھا دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ نے جواب میں فرمایا: "کیا تمہارا مجھے کافر قرار دینا مجھے ہلا دے گا جبکہ میں فرض اور واجب کے فرق کو زمین و آسمان کے فرق کی طرح جانتا ہوں؟" پھر آپ نے ان دونوں میں فرق واضح کیا، تو یوسف نے معذرت کی. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢٧١)
یہ واقعہ خود بتاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کبھی پانچ فرض نمازوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ صرف فقہی اصطلاح کے مطابق وتر کی اہمیت اور اس کے لازم ہونے کو بیان فرمایا۔ مزید یہ کہ جو فقہاء وتر کو واجب نہیں کہتے بلکہ سنت قرار دیتے ہیں، وہ بھی اس کو عام سنت کے درجے کا نہیں سمجھتے، بلکہ اس کا مرتبہ باقی سنتوں سے بلند قرار دیتے ہیں۔ گویا امت میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ وتر عام سنت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس کا ترک بلاعذر درست نہیں.
مثال کے لئے جیسے جمعہ کی نماز ہے — ہم سب جانتے ہیں کہ دن میں پانچ فرض نمازیں ہیں، لیکن جمعہ کے دن ظہر کی جگہ جمعہ پڑھا جاتا ہے۔ اب کیا اس سے نمازوں کی تعداد پانچ سے بڑھ کر چھ ہو جاتی ہے؟ نہیں، کیونکہ جمعہ ظہر کا قائم مقام ہے، اس کا تابع ہے، ایک الگ اور آزاد نماز نہیں۔
اسی طرح وتر ہے — یہ عشاء کی فرض نماز کے بعد اس کا لازمی حصہ ہے، اس کا قائم مقام نہیں بلکہ اس کا تابع اور تکمیل کرنے والا ہے۔ اس لیے اس کو الگ شمار کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے جمعہ کو پانچ کے علاوہ چھٹی نماز کہنا — جو کوئی نہیں کہتا۔
یہی منطق امام ابو حنیفہؒ کے فہم میں کارفرما تھی کہ وتر واجب ہیں، فرض کی طرح لازم ہیں، اس لئے جب ان سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسکی اہمیت بتانے کے لئے اسے فرض سے تعبیر کیا لیکن جب فرائض کی تعداد پوچھی گئی تو پانچ ہی بتائی. گویا آپ یہ کہہ رہے تھے کہ "وتر چھوڑنا ایسا ہی گناہ ہے جیسے فرض چھوڑنا" — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض کی تعریف بدل گئی یا فرضوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے وتر کو "فرض" کہا ہی کیوں ؟
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چونکہ محدثین کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں اس لئے سوال پوچھنے والے کے لحاظ سے جواب دیتے ہوئے انہوں نے اسے فریضہ کہا تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو. جیسا کہ امام فخر الدين الرازي (المتوفى: 606 ) نے کہا:وأما الاسم فاعلم أنه لا فرق عندنا بين الواجب والفرض المحصول للرازي : 1/ 97]. یعنی ہمارے نزدیک واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں۔
شوکانی نے (المتوفی: 1250) کہا:
فَالْوَاجِبُ فِي الاصْطِلَاحِ مَا يُمْدَحُ فَاعِلُهُ، وَيُذَمُّ تَارِكُهُ، عَلَى بَعْضِ الْوُجُوهِ فَلَا يَرِدُ النَّقْضُ بِالْوَاجِبِ الْمُخَيَّرِ، وَبِالْوَاجِبِ عَلَى الْكِفَايَةِ، فَإِنَّهُ لَا يُذَمُّ فِي الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَهُ مَعَ الْآخَرِ، وَلَا يُذَمُّ فِي الثَّانِي إِلَّا إِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ غَيْرُهُ. وَيَنْقَسِمُ إِلَى مُعَيَّنٍ وَمُخَيَّرٍ، وَمُضَيَّقٍ، وَمُوَسَّعٍ، وَعَلَى الْأَعْيَانِ، وَعَلَى الْكِفَايَةِ. وَيُرَادِفُهُ الْفَرْضُ عِنْدَ الْجُمْهُورِ
یعنی جمہور کے نزدیک واجب اور فرض کے ایک دوسرے کے مترادف ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ۔ [إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول : 26/1]
دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ فقہی انداز میں لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ وتر پڑھنے کی اہمیت فرض جیسی ہے، اسے معمولی سنت نہ سمجھو۔ کیونکہ اہلِ کوفہ کے ہاں وتر کا وجوب تواترِ عملی اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت تھا، اور آپ کے نزدیک عمل کے اعتبار سے واجب بھی فرض ہی کی طرح لازم الادا ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ نے "فرض" کا لفظ بطور شدتِ تاکید استعمال کیا تاکہ سننے والے پر یہ بات نقش ہو جائے کہ وتر چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے فرض چھوڑنا، اگرچہ عقیدہ کے لحاظ سے وہ واجب ہے۔ یہ ایک تعلیمی اسلوب تھا، نہ کہ فرضوں کی تعداد میں اضافہ۔
لہٰذا یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وتر کو فرض کہہ کر چھ نمازیں بنا دیں، علمی اور فقہی لحاظ سے باطل ہے۔ یہ اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فرض اور واجب کے اعتقادی و عملی فرق کو نہ سمجھا جائے۔ امام ابو حنیفہ نے تو اصولی طور پر یہ بیان کیا کہ عمل کے لحاظ سے واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں، دونوں کو ادا کرنا لازم ہے، اور وتر بھی انہی واجبات میں سے ہے۔
١٠٦٩ - ثَنَا أَيُّوبُ بْنُ إِسْحَاقَ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ:سَأَلْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، أَوْ سُئِلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ -أَوْ فَقِيلَ لَهُ-: فَكَمِ الْفَرْضُ؟ قَالَ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ. فَقِيلَ لَهُ: فَمَا تَقُولُ فِي الْوِتْرِ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ -أَوْ فَقِيلَ لَهُ-: أَنْتَ لَا تُحْسِنُ الْحِسَابَ. (صحيح ابن خزيمة ط ٣ ١/٥٣١ )
بعض روایات میں یہ سوال و جواب منقول ہے کہ کتنی فرض نمازیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: پانچ۔ پوچھا گیا: وتر؟ فرمایا: فریضہ۔ کہا گیا: آپ کو حساب نہیں آتا۔ یہ جملہ ایک طویل سند کے ساتھ آیا ہے جس میں دو راوی (أَبُو مَعْمَرٍ، عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ) ایسے ہیں جو قدری فرقے سے تعلق رکھتے تھے، ممکن ہے کہ ان قدری راویوں نے روایت میں کچھ اضافہ کر دیا ہو، کیونکہ امام ابن ندیمؒ اپنی کتاب الفہرست میں لکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے رد علی القدریہ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی، جیسا کہ إيضاح الدليل في قطع حجج أهل التعطيل (جلد 1، صفحہ 22) میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ اور جب سند لمبی ہو تو متن میں کمی بیشی یا الفاظ کی تقدیم و تاخیر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مختصر اور معتبر سند میں یہ جملہ موجود نہیں۔ اور اگر بالفرض کسی نے یہ کلمہ کہہ بھی دیا ہو تو اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علمی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ آپ کی اصل بات اصولی تھی کہ وتر عملی درجے میں فرض کی طرح لازم ہے۔
اب آتے ہیں دوسری روایت کی طرف، تو اس میں صحیح روایت جو تمام تفصیل واضح کرتی ہے، وہ امام ابن ابی العوام نے نقل کی ہے۔
ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَيُّوبَ لَقَدْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا بِهَا، فَقُلْتُ لَأَجْلِسَنَّ إِلَيْهِ لَعَلِّي أَتَعَلَّقُ عَلَيْهِ بِسَقْطَةٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَقَامَ مِنَ الْقَبْرِ مَقَامًا لَا أَذْكُرُ ذَلِكَ الْمَقَامَ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں