نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 31 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ وتر فرض ہیں، اور فرض نمازیں پانچ ہی ہیں۔

 


 کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 31 :

امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں  کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ وتر فرض ہیں، اور فرض نمازیں پانچ ہی ہیں۔


حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا حَنِيفَةَ وَسُئِلَ عَنِ الْوِتْرِ فَقَالَ: فَرِيضَةٌ. قُلْتُ: كَمِ الصَّلَوَاتُ؟ قَالَ: خَمْسٌ. قُلْتُ: فَالْوِتْرُ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ 

. «وَقَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَذَكَرَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَانْتَحَلَهُ لِلْأَرْجَاءِ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ مَنْ مُحَدِّثُكَ؟ قَالَ: سَالِمٌ الْأَفْطَسُ. فَقُلْتُ: إِنَّ سَالِمًا كَانَ مُرْجِئًا، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ قَالَ: رَآنِي سَعِيدٌ جَلَسْتُ إِلَى طَلْقٍ فَقَالَ: ألَمْ أَرَكَ جَلَسْتَ إِلَى طَلْقٍ! لَا تُجَالِسْهُ. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ فَمَا كَانَ رأي طلق؟ قال: فسكت، ثم سأله فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَسَكَتَ، فَقَالَ: وَيْحَكَ كَانَ يَرَى الْعَدْلَ». ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَيُّوبَ لَقَدْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا بِهَا، فَقُلْتُ لَأَجْلِسَنَّ إِلَيْهِ لَعَلِّي أَتَعَلَّقُ عَلَيْهِ بِسَقْطَةٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَقَامَ مِنَ الْقَبْرِ مَقَامًا لَا أَذْكُرُ ذَلِكَ الْمَقَامَ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي.


حماد بن زید بیان کرتے ہیں: میں موجود تھا جب امام ابو حنیفہؒ سے وتر کے بارے میں سوال کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا: "یہ فرض ہے۔"
میں نے عرض کیا: "کتنی نمازیں فرض ہیں؟" انہوں نے کہا: "پانچ۔" میں نے کہا: "تو پھر وتر؟" انہوں نے فرمایا: "یہ بھی فرض ہے۔"

حماد بن زید کہتے ہیں: میں مسجدِ حرام میں امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ انہوں نے سعید بن جبیر کا ذکر کیا اور کہا کہ انہیں مرجئہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: "اے ابو حنیفہ! آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟" انہوں نے فرمایا: "سالم اَفطَس نے۔" میں نے کہا: "سالم تو خود مرجئی تھا، لیکن ہمیں ایوب نے یہ بتایا کہ سعید بن جبیر نے مجھے طلق کے پاس بیٹھتے دیکھا تو کہا: 'کیا میں نے تجھے طلق کے پاس بیٹھے نہیں دیکھا؟ اس کے پاس نہ بیٹھنا۔'" پھر ایک شخص نے ابو حنیفہ سے پوچھا: "اے ابو حنیفہ! طلق کی رائے کیا تھی؟" امام ابو حنیفہؒ خاموش رہے۔ اس نے بار بار پوچھا مگر آپ نے جواب نہ دیا۔ آخر میں اس نے پھر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: "افسوس! وہ عدل کے قائل تھے۔" پھر امام ابو حنیفہؒ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "اللہ ایوب پر رحم کرے۔ جب وہ مدینہ آئے اور میں بھی وہاں تھا تو میں نے ارادہ کیا کہ ضرور ان کی مجلس میں جاؤں تاکہ شاید ان کی کسی لغزش کو پکڑ سکوں۔" پھر فرمایا: "جب وہ (ایوب) آئے تو قبر کے پاس ایک ایسا موقف اختیار کیا کہ جب بھی مجھے وہ یاد آتا ہے تو میرا بدن لرز اٹھتا ہے۔"

(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/794 )


جواب : سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک "فرض" اور "واجب"  کا فرق اعتقادی ہے، عملی نہیں۔

اعتقاد کے لحاظ سے: فرض کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، جبکہ واجب کا انکار کرنے والا کافر نہیں بلکہ فاسق ہوتا ہے۔

عمل کے لحاظ سے: فرض اور واجب دونوں کا کرنا لازمی ہے، دونوں کا ترک گناہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی میں وتر کو "واجب" کہا جاتا ہے، یعنی اس کا ادا کرنا فرض کی طرح لازم ہے۔  جن لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے "وتر فریضہ ہے" والے قول کو یہ سمجھ لیا کہ آپ پانچ فرضوں کے علاوہ ایک اور فرض بتا رہے ہیں، وہ محض اصطلاحی فرق نہ سمجھ پانے کی وجہ سے غلط فہمی میں پڑ گئے۔ عملی پہلو سے واجب کو بھی فرض کی طرح ہی لازم سمجھا جاتا ہے۔

یہی اصول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وتر کے بارے میں اپنایا۔ آپ کے نزدیک وتر کی ادائیگی فرض کی طرح لازمی ہے، مگر چونکہ اس کی دلیل قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے، اس لیے اعتقادی طور پر اسے فرض نہیں بلکہ واجب کہا۔ جب آپ نے "وتر فریضہ ہے" فرمایا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وتر عملی طور پر فرض کی طرح لازم ہے، نہ کہ اعتقادی درجے میں پانچ فرض نمازوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ احناف کے نزدیک وتر کوئی الگ چھٹی نماز نہیں بلکہ عشاء کے تابع واجب ہے۔ 

اسی نکتے کو علامہ علاء الدین کاسانی رحمہ اللہ (م 587ھ) نے بدائع الصنائع (1/271) میں ایک حکایت کے ذریعے واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

وَفِي هَذَا حِكَايَةٌ وَهُوَ مَا رُوِيَ أَنَّ يُوسُفَ بْنَ خَالِدٍ السَّمْتِيَّ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَنْ الْوِتْرِ فَقَالَ: هِيَ وَاجِبَةٌ، فَقَالَ يُوسُفُ: كَفَرْتَ يَا أَبَا حَنِيفَةَ وَكَانَ ذَلِكَ قَبْل أَنْ يَتَّلْمَذَ عَلَيْهِ كَأَنَّهُ فَهِمَ مِنْ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَقُولُ إنَّهَا فَرِيضَةٌ فَزَعَمَ أَنَّهُ زَادَ عَلَى الْفَرَائِضِ الْخَمْسِ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِيُوسُفَ أَيَهُولُنِي إكْفَارُكَ إيَّايَ وَأَنَا أَعْرِفُ الْفَرْقَ بَيْنَ الْوَاجِبِ وَالْفَرْضِ كَفَرْقِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ بَيَّنَ لَهُ الْفَرْقَ بَيْنَهُمَا فَاعْتَذَرَ إلَيْهِ وَجَلَسَ عِنْدَهُ لِلتَّعَلُّمِ بَعْدَ أَنْ كَانَ مِنْ أَعْيَانِ فُقَهَاءِ الْبَصْرَةِ،

 یوسف بن خالد السمتی نے امام ابو حنیفہ سے وتر کے بارے میں سوال کیا، آپ نے فرمایا یہ واجب ہے۔ یوسف نے کہا: "آپ نے کفر کیا، اے ابو حنیفہ!" ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ وتر کو فرض کہہ رہے ہیں اور گویا پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک اور فرض بڑھا دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ نے جواب میں فرمایا: "کیا تمہارا مجھے کافر قرار دینا مجھے ہلا دے گا جبکہ میں فرض اور واجب کے فرق کو زمین و آسمان کے فرق کی طرح جانتا ہوں؟" پھر آپ نے ان دونوں میں فرق واضح کیا، تو یوسف نے معذرت کی. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/‏٢٧١)

یہ واقعہ خود بتاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کبھی پانچ فرض نمازوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ صرف فقہی اصطلاح کے مطابق وتر کی اہمیت اور اس کے لازم ہونے کو بیان فرمایا۔ مزید یہ کہ جو فقہاء وتر کو واجب نہیں کہتے بلکہ سنت قرار دیتے ہیں، وہ بھی اس کو عام سنت کے درجے کا نہیں سمجھتے، بلکہ اس کا مرتبہ باقی سنتوں سے بلند قرار دیتے ہیں۔ گویا امت میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ وتر عام سنت سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس کا ترک بلاعذر درست نہیں. 

مثال کے لئے جیسے جمعہ کی نماز ہے — ہم سب جانتے ہیں کہ دن میں پانچ فرض نمازیں ہیں، لیکن جمعہ کے دن ظہر کی جگہ جمعہ پڑھا جاتا ہے۔ اب کیا اس سے نمازوں کی تعداد پانچ سے بڑھ کر چھ ہو جاتی ہے؟ نہیں، کیونکہ جمعہ ظہر کا قائم مقام ہے، اس کا تابع ہے، ایک الگ اور آزاد نماز نہیں۔

اسی طرح وتر ہے — یہ عشاء کی فرض نماز کے بعد اس کا لازمی حصہ ہے، اس کا قائم مقام نہیں بلکہ اس کا تابع اور تکمیل کرنے والا ہے۔  اس لیے اس کو الگ شمار کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے جمعہ کو پانچ کے علاوہ چھٹی نماز کہنا — جو کوئی نہیں کہتا۔

یہی منطق امام ابو حنیفہؒ کے فہم میں کارفرما تھی کہ وتر واجب ہیں، فرض کی طرح لازم ہیں، اس لئے جب ان سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسکی اہمیت بتانے کے لئے اسے فرض سے تعبیر کیا لیکن جب فرائض کی تعداد پوچھی گئی تو پانچ ہی بتائی.  گویا آپ یہ کہہ رہے تھے کہ "وتر چھوڑنا ایسا ہی گناہ ہے جیسے فرض چھوڑنا" — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرض کی تعریف بدل گئی یا فرضوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے وتر کو "فرض" کہا ہی کیوں ؟ 

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ چونکہ محدثین کے نزدیک فرض اور واجب میں کوئی فرق نہیں اس لئے سوال پوچھنے والے کے لحاظ سے جواب دیتے ہوئے انہوں نے اسے فریضہ کہا تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو. جیسا کہ امام فخر الدين الرازي (المتوفى: 606 ) نے کہا:وأما الاسم فاعلم أنه لا فرق عندنا بين الواجب والفرض المحصول للرازي : 1/ 97]. یعنی ہمارے نزدیک واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں۔ 

 شوکانی نے (المتوفی: 1250) کہا:

فَالْوَاجِبُ فِي الاصْطِلَاحِ مَا يُمْدَحُ فَاعِلُهُ، وَيُذَمُّ تَارِكُهُ، عَلَى بَعْضِ الْوُجُوهِ فَلَا يَرِدُ النَّقْضُ بِالْوَاجِبِ الْمُخَيَّرِ، وَبِالْوَاجِبِ عَلَى الْكِفَايَةِ، فَإِنَّهُ لَا يُذَمُّ فِي الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَهُ مَعَ الْآخَرِ، وَلَا يُذَمُّ فِي الثَّانِي إِلَّا إِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ غَيْرُهُ. وَيَنْقَسِمُ إِلَى مُعَيَّنٍ وَمُخَيَّرٍ، وَمُضَيَّقٍ، وَمُوَسَّعٍ، وَعَلَى الْأَعْيَانِ، وَعَلَى الْكِفَايَةِ. وَيُرَادِفُهُ الْفَرْضُ عِنْدَ الْجُمْهُورِ  

یعنی جمہور کے نزدیک واجب اور فرض کے ایک دوسرے کے مترادف ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ۔ [إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول : 26/1]

دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ فقہی انداز میں لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ وتر پڑھنے کی اہمیت فرض جیسی ہے، اسے معمولی سنت نہ سمجھو۔ کیونکہ اہلِ کوفہ کے ہاں وتر کا وجوب تواترِ عملی اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت تھا، اور آپ کے نزدیک عمل کے اعتبار سے واجب بھی فرض ہی کی طرح لازم الادا ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ نے "فرض" کا لفظ بطور شدتِ تاکید استعمال کیا تاکہ سننے والے پر یہ بات نقش ہو جائے کہ وتر چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے فرض چھوڑنا، اگرچہ عقیدہ کے لحاظ سے وہ واجب ہے۔ یہ ایک تعلیمی اسلوب تھا، نہ کہ فرضوں کی تعداد میں اضافہ۔

لہٰذا یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے وتر کو فرض کہہ کر چھ نمازیں بنا دیں، علمی اور فقہی لحاظ سے باطل ہے۔ یہ اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب فرض اور واجب کے اعتقادی و عملی فرق کو نہ سمجھا جائے۔ امام ابو حنیفہ نے تو اصولی طور پر یہ بیان کیا کہ عمل کے لحاظ سے واجب اور فرض میں کوئی فرق نہیں، دونوں کو ادا کرنا لازم ہے، اور وتر بھی انہی واجبات میں سے ہے۔

١٠٦٩ - ثَنَا أَيُّوبُ بْنُ إِسْحَاقَ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ:سَأَلْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، أَوْ سُئِلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ -أَوْ فَقِيلَ لَهُ-: فَكَمِ الْفَرْضُ؟ قَالَ: خَمْسُ صَلَوَاتٍ. فَقِيلَ لَهُ: فَمَا تَقُولُ فِي الْوِتْرِ؟ قَالَ: فَرِيضَةٌ، فَقُلْتُ -أَوْ فَقِيلَ لَهُ-: أَنْتَ لَا تُحْسِنُ الْحِسَابَ. (صحيح ابن خزيمة ط ٣ ١/‏٥٣١ )

بعض روایات میں یہ سوال و جواب منقول ہے کہ کتنی فرض نمازیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: پانچ۔ پوچھا گیا: وتر؟ فرمایا: فریضہ۔ کہا گیا: آپ کو حساب نہیں آتا۔ یہ جملہ ایک طویل سند کے ساتھ آیا ہے جس میں دو راوی (أَبُو مَعْمَرٍ، عَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ سَعِيدٍ) ایسے ہیں جو قدری فرقے سے تعلق رکھتے تھے، ممکن ہے کہ ان قدری راویوں نے روایت میں کچھ اضافہ کر دیا ہو، کیونکہ امام ابن ندیمؒ اپنی کتاب الفہرست میں لکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے رد علی القدریہ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی، جیسا کہ إيضاح الدليل في قطع حجج أهل التعطيل (جلد 1، صفحہ 22) میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ اور جب سند لمبی ہو تو متن میں کمی بیشی یا الفاظ کی تقدیم و تاخیر کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مختصر اور معتبر سند میں یہ جملہ موجود نہیں۔ اور اگر بالفرض کسی نے یہ کلمہ کہہ بھی دیا ہو تو اس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علمی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ آپ کی اصل بات اصولی تھی کہ وتر عملی درجے میں فرض کی طرح لازم ہے۔

اب آتے ہیں دوسری روایت کی طرف، تو اس میں صحیح روایت جو تمام تفصیل واضح کرتی ہے، وہ امام ابن ابی العوام نے نقل کی ہے۔

حدثني أبو بكر محمد بن جعفر الإمام قال: حدثنا هارون بن عبد الله بن مروان الحمال قال: حدثنا سليمان بن حرب بن حماد بن زيد قال: جلست إلى أبي حنيفة بمكة فقلت له: حدثنا أيوب قال: رآني سعيد بن جبير قد جلست إلى طلق بن حبيب فقال لي: ألم أرك جلست إلى طلق؟ لا تجالسه. قال أبو حنيفة: كان طلق يرى القدر
حماد بن زید نے کہا کہ میں مکہ میں ابو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ ہمیں ایوب نے بیان کیا ہے اس نے کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے طلق بن جیب کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا تو اس نے مجھے کہا کہ میں نے تجھے طلق کے پاس بیٹھے ہوئے کیوں دیکھا ہے ؟ اس کے پاس مت بیٹھ۔ تو ابوحنیفہ نے کہا کہ طلق قدری نظریہ رکھتا تھا۔

فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه ، ابن ابی العوام رحمہ اللہ ت بہرائچی صفحہ 124

اب یہاں دو چیزیں ہیں: پہلی یہ کہ سعید بن جبیرؒ کا عقیدہ اِرجاء تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! بالکل وہ اِرجاء کے قائل تھے، مگر وہ اہلِ سنت کے مرجیہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل قارئین اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں۔


 جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ تابعین کی طرف جو نسبت کی جاتی ہے کہ وہ قدری تھے یا مرجئہ تھے وغیرہ وغیرہ ، تو وہ ان کے اقوال سے استخراجا کہا جاتا ہے ۔ مثلا انہوں نے کوئی بات ایسی کہہ دی جس سے (غلط،خلاف اہل سنت،مرجوح) مفہوم نکلتا ہو تو اس وجہ سے ان کو قدری/مرجئہ/شیعہ کہا جاتا تھا۔  ورنہ متاخرین (قدریہ ،مرجئہ) والی بدعات متقدمین  میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ 
 متقدمین مرجئہ/قدریہ اور متاخرین مرجئہ/ قدریہ وغیرہ میں فرق ہے بالکل ایسے ہی جیسے متقدمین کے ہاں شیعہ (جو خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی رضی اللہ کے ساتھ رہتے تھے اور امیر شام سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے تھے ) ان کو بھی شیعان علی کہا جاتا تھا جبکہ متاخرین شیعہ صحابہ پر تبرا کرتے ہیں ۔
 لہذا  وہ احادیث و فتاوی جن میں قدریہ کی تردید ہے اس سے مراد متاخرین قدریہ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں نہ کہ متقدمین تابعین
قدریہ کی تعریف ابن حجر نے ھدی الساری میں یہ لکھی ہیکہ " جو یہ کہے کہ شر محض فعل انسانی ہے " ، یہ تعریف ان مقبول تابعین  پر صادق آتی ہےجن پر قدریہ ہونے کاقول اختیارکیاگیاہے، اس نظریہ۔ میں ان کے پیش نظر اللہ تعالی کی عظمت اور مقام و مرتبہ تھا،کہ ادبا شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کرنی چاہیے،ظواھر ادلہ میں اس کے نظائر موجودہیں۔
لیکن چونکہ شریعت میں اس پراصراردرست نہیں،اس لیے کبار اہل علم نے اس کی تحسین نہیں کی،اورلوگوں کو اس غلوسے بچانےکے لئے مجالست سے منع کیا۔آسان لفظوں میں کہ سکتےہیں،کہ امام صاحب کے اس قول کے مطابق طلق میں قدریہ خفیفہ تھی،جو بیان نظریہ  ہے،نہ کہ بیان جرح۔۔اسی وجہ سے طلق کےمرجئی/قدری ہونےکےباوجودمحدثین  کےہاں ثقہ ہیں ۔جبکہ
متاخرین قدریہ کئی بدعات کے مرتکب ہوئے،اورضروریات تک کاانکاران کی کلام میں نکل آتاہے،اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کو قدریہ مشرکیہ،قدریہ ابلیسیہ وغیرہ اقسام میں منقسم کیاہے،
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو  طلق بن حبیب کو قدریہ کہا ہے (جسے امام ابن ابی العوام نے روایت کیا ہے ) ، ممکن ہے انہیں کوئی ایک روایت ایسی پہنچی ہو جس میں طلق بن حبیب رحمہ اللہ نے اللہ تعالی کی طرف  " شر "  کی نسبت کرنے سے منع کیا ہو  ، اس وجہ سے امام صاحب نے  ان کو قدریہ کہا ہے ۔واللہ اعلم
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جو شخص کسی دوسرے کے بارے میں زیادہ جانتا ہو، اس کی بات ان لوگوں پر مقدم ہوتی ہے جو بعد کے زمانے کے ہوں اور اصل حقیقت سے ناواقف ہوں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی راوی صَدُوق ہو لیکن کوئی امام کہے کہ اس کا حافظہ کمزور تھا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امام کو اس راوی کی ایسی روایات کا علم تھا جو دوسروں کو معلوم نہیں تھا۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح اگر طَلق بن حبیب کو امامِ اصحاب نے قدری کہا ہے تو ممکن ہے کہ ان کو وہ بات معلوم ہو جو اس وقت تک دوسروں کو معلوم نہ تھی۔ جیسے جابر جُعفی سے بڑے بڑے محدثین روایت کرتے تھے، لیکن سب سے پہلے امام ابو حنیفہؒ نے اسے کذاب کہا اور بعد کے محدثین نے بھی اسے کذاب کہا، مگر امام ابو حنیفہؒ کے بعد۔ اور اس بات کو امام بیہقیؒ نے بھی تسلیم کیا ہے۔

 ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَيُّوبَ لَقَدْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَنَا بِهَا، فَقُلْتُ لَأَجْلِسَنَّ إِلَيْهِ لَعَلِّي أَتَعَلَّقُ عَلَيْهِ بِسَقْطَةٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَقَامَ مِنَ الْقَبْرِ مَقَامًا لَا أَذْكُرُ ذَلِكَ الْمَقَامَ إِلَّا اقْشَعَرَّ جِلْدِي.


اس کے علاوہ اس روایت کا جو تیسرا حصہ ہے، اس پر پہلے ہی بحث ہو چکی ہے، قارئین اس کی تفصیل اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...