نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 49 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ ایک راوی نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم کو تو جانتے تھے لیکن اللہ کو نہیں جانتے تھے، اور امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کا نام بگاڑ کر کہتے تھے کہ ابو جیفہ نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

  

کتاب  الكامل في ضعفاء الرجال  از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 49 :

امام  ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)  اپنی کتاب  الكامل میں  نقل کرتے ہیں   کہ  ایک راوی نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم کو تو جانتے تھے لیکن اللہ کو نہیں جانتے تھے، اور امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کا نام بگاڑ کر کہتے تھے کہ ابو جیفہ نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبد اللَّهِ بن صالح شيخ بن عميرة، حَدَّثَنا إسحاق بن بهلول، قَال: قَال لي إسحاق بن الطباع قَال لي سفيان بن عُيَينة عالم بالله عالم بالعلم عالم بالله ليس بعالم بالعلم عالم بالعلم ليس بعالم بالله،

 قالَ: قُلتُ لإسحاق فهمنيه واشرحه لي قال عالم بالله عالم بالعلم حماد بن سلمة عالم بالله ليس بعالم بالعلم مثل أبي الحجاج العابد عالم بالعلم ليس بعالم بالله أبو يوسف وأستاذه

 وسمعت حماد بن سلمة يقول ما ولد في الإسلام مولود أضر على الإسلام من أبي جيفة يعني أبا حنيفة.


ہم سے احمد بن عبداللہ بن صالح شیخ بن عمیرہ نے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم سے اسحاق بن بہلول نے روایت کی، انہوں نے کہا: اسحاق بن الطباع نے مجھ سے کہا، انہوں نے کہا: سفیان بن عُیَینہ نے فرمایا: "جو شخص اللہ کو بھی جانتا ہے اور علم کو بھی جانتا ہے، وہ کامل عالم ہے۔ اور جو اللہ کو جانتا ہے مگر علم کو نہیں جانتا، وہ صرف عابد (عبادت گزار) ہے، اور جو علم کو جانتا ہے مگر اللہ کو نہیں جانتا، وہ صرف فقیہ (ظاہری عالم) ہے۔"

  راوی نے اسحاق سے کہا: "مجھے اس کا مطلب سمجھاؤ۔"  انہوں نے کہا: "جو اللہ کو بھی جانتا ہے اور علم کو بھی — وہ حماد بن سلمہ ہے۔ جو اللہ کو جانتا ہے مگر علم کو نہیں جانتا — وہ ابوالحجاج  کی طرح ہے۔ اور جو علم کو جانتا ہے مگر اللہ کو نہیں جانتا — وہ ابویوسف اور اس کے استاد (امام ابو حنیفہ) کی طرح ہے۔"

 اور میں(اسحاق الطباع) نے حماد بن سلمہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: "اسلام میں ابوحنیفہ سے زیادہ اسلام کے لیے نقصان دہ کوئی پیدا نہیں ہوا۔" (یعنی "ابوجیفہ" کہہ کر ابوحنیفہ کی طرف اشارہ کیا۔)

(الكامل في ضعفاء الرجال ٣/‏٤٠ )


جواب :  اس روایت میں غیر مقلدین دو اعتراضات کرتے ہیں:

پہلا اعتراض یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم کو تو جانتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں جانتے، یعنی انہیں صرف ظاہری علم حاصل تھا اور روحانیت یا اللہ کی معرفت میں کمی تھی۔ 

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام بگاڑتے تھے، اور انہیں توہین آمیز لقب دیتے تھے۔ 

پہلا اعتراض

یہ تشریح راوی اسحاق الطباع کی ہے جو کہ خود صدوق درجہ کے راوی ہیں جیسا کہ امام ابو حاتم ، امام صالح جزرہ ، ابن حجر نے ان کو صرف صدوق کہا ہے ،  لہذا ان کا اپنے سے اعلی درجہ کے راوی امام ابو حنیفہ کا درجہ کم کرنا ، یہ خود ہی باطل ہے  کیونکہ امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں۔  اسحاق الطباع  راوی نے امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اقوال کی تشریح کی اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس تشریح میں کم درجہ دینے کی کوشش کی، اس کی تشریح غلط ہے، کیونکہ یہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اپنے اقوال کے ساتھ متصادم ہے۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی اپنی تصریحات اور شہادتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ صرف ایک عظیم فقیہ بلکہ ایک روحانی مقام کے حامل بھی تھے۔ اس راوی نے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقام کو کم کیا ہے، وہ خود امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اقوال سے متصادم ہے۔

اب ہم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ اور اجتہاد کے بارے میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اقوال سے کس طرح ایک مکمل اور مثبت تصویر سامنے آتی ہے، اور کس طرح راوی کی تشریح غلط ثابت ہو جاتی ہے:

1. امام ابو حنیفہ کی فقہ کی مقبولیت

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کی عالمی سطح پر مقبولیت کا اعتراف کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا: "شیئان ماظننت انہما یجاوزان قنطرۃ الکوفۃ وقد بلغا الآفاق، قراء ۃ حمزۃ ورأی ابی حنیفۃ"  یعنی "دو چیزوں کے بارے میں میرا گمان تھا کہ یہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں کریں گی، لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں: ایک حمزہ کی قراء ت اور دوسرے ابو حنیفہ کے اجتہادات"  (تاریخ بغداد ج:۱۵ ص:۴۷۵،شیخ بشار عواد معروف  اسکی سند کو بھی صحیح کہتے ہیں )
یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کو اللہ کی طرف سے اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف کوفہ بلکہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔اس بات سے اُس راوی کا اعتراض باطل ہو جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو صرف علم تھا مگر اللہ کی معرفت نہیں تھی، کیونکہ اصل فضیلت اور کمال صرف علم کے رکھنے سے نہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ مقبولیت سے ثابت ہوتا ہے۔مقبولیت وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ جسے چاہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ایسی غیر معمولی مقبولیت عطا فرمائی کہ ان کی فقہ ان کی زندگی سے لے کر آج تک پوری امتِ مسلمہ میں سب سے زیادہ رائج اور مقبول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علم محض فقہی علم نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے مقبول علم تھا، جو دلوں تک پہنچا اور زمانوں پر غالب آیا۔ پس، وہ راوی جس نے امام ابو حنیفہ کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ کو نہیں جانتے تھے، اس کا اعتراض خود امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے ان اقوال سے باطل اور مردود ہو جاتا ہے۔

2. امام ابو حنیفہ کی عبادت کا اعتراف

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ کی عبادت کا بھی خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: "رحم اللہ ابا حنیفۃ، کان من المصلینیعنی "اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر رحم کرے، وہ بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے"۔ (تاریخ بغداد ج:۱۵ص:۴۸۲،شیخ بشار عواد معروف اس کی سند کو صحیح کہتے ہیں )
یہ بیان امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عبادت اور روحانیت کا غماز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علم اور عبادت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے، اور ان کی فقہ کا استنباط بھی روحانیت اور عبادی زندگی کے اصولوں کے مطابق تھا۔ اس لئے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو صرف ایک "فقیہ" کے طور پر محدود کرنا اور ان کے روحانی مقام کو نظر انداز کرنا غلط ہے۔

3. امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ایک عظیم عالم اور اجتہاد کی حامل شخصیت کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ امام سفیان بن عیینہ نے فرمایا: "ما مقلت عینی مثل ابی حنیفۃ" یعنی "میری آنکھوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جیسا نہیں دیکھا"۔ یہ بیان امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی عظمت کو تسلیم کرنے کا ایک زبردست ثبوت ہے۔ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی کمی ہوتی، تو امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کبھی انہیں اتنی عظمت کے ساتھ نہ یاد کرتے۔

4. راوی کی تشریح کا باطل ہونا

جو راوی امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اقوال کی تشریح میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کم درجہ دینے کی کوشش کرتا ہے، اس کی تشریح خود امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اپنے اقوال سے متصادم ہے۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نہ صرف فقہ کے عظیم عالم تھے بلکہ ان کی عبادت، روحانیت اور علمی اجتہاد نے انہیں ایک بلند مقام دیا تھا۔ اگر راوی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علم و مقام کو کم کیا، تو اس کی تشریح خود باطل ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی اصل باتوں کے خلاف ہے۔

نتیجہ:

اس تمام تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ اور علم کا درجہ بہت بلند تھا اور امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے ان کی عظمت کو تسلیم کیا تھا۔ لہٰذا، جس راوی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کم درجہ دینے کی کوشش کی، اس کی تشریح غلط اور باطل ہے۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو اللہ کی طرف سے اتنی مقبولیت اور کامیابی ملی کہ ان کا درجہ کبھی بھی کم نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرا اعتراض

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام ابو حنیفہ (جس کا معنی ہے: دینِ خالص کو مرتب کرنے والا) کے بجائے ابو جیفہ (مرداروں کا باپ) کہنا، جناب محدث حماد بن سلمہ کی تعصب کی ایک تلخ مثال ہے۔ ان کی جانب سے اس غیر مناسب زبان کا استعمال اس بات کا غماز ہے کہ ان کو شرم و حیا کا بالکل احساس نہ تھا اور انہوں نے قرآن کے واضح حکم وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات، آیت 11) کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو"۔

اگر محدث حماد بن سلمہ کو امام ابو حنیفہ سے فروعی مسائل میں اختلاف تھا تو ان کا فریضہ تھا کہ وہ اس پر دلائل کے ساتھ گفتگو کرتے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے بدکلامی اور فحش گوئی کو اپنا ہتھیار بنایا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ان کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کیا گیا، تاہم ہم اللہ کے فضل سے حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ یہ ان کی بدبینی یا تعصب کا نتیجہ تھا، اور شاید بعد میں اللہ نے انہیں ہدایت دے کر توبہ کی توفیق عطا فرمائی ہو۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّنْ نِسَاءٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۚ بِئْسَ الْإِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ"
(الحجرات، آیت 11)
ترجمہ: "اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے کو بُرے نام نہ دو، بُرا ہے گناہ کرنا ایمان کے بعد، اور جو توبہ نہ کرے، وہی ظالم ہے۔"

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محدث حماد بن سلمہ کی لغزشوں کو معاف فرمائے۔ قارئینِ کرام! یہ وہ رویہ ہے جو تعصب کی وجہ سے بعض محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ روا رکھا۔ امام ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضله میں فرمایا ہے:
"أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك"
یعنی بعض محدثین نے امام ابو حنیفہ پر تنقید میں حد سے بڑھ کر بے انصافی اور افراط سے کام لیا۔ (جامع بیان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1080)

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی علمی خدمات اور ان کے فقہی اثرات پر بحث کرتے وقت ہمیں ہمیشہ ان کی عظمت و جلالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بارے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔




   تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 19: امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں ایک علمی و تاریخی جائزہ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 3 :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام سفیان بن عیینہ ؒ (م ۱۹۸؁ھ) کی نظر میں

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...