نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 7 : امام أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جس میں ہر پہلو سے امام جعفر صادق غالب آئے

 


کتاب  حلية الأولياء وطبقات الأصفياء  از  محدث أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ) 

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر  7 :

امام  أبو نعيم الأصبهاني (٤٣٠هـ)  اپنی کتاب حلية الأولياء میں نقل کرتے ہیں  کہ امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جس میں ہر پہلو سے امام جعفر صادق غالب آئے


حدثنا عبد الله بن محمد ثنا الحسن بن محمد ثنا سعيد بن عنبسة ثنا عمرو ابن جميعقال: دخلت على جعفر بن محمد أنا وابن أبي ليلى وأبو حنيفة.

وحدثنا محمد بن علي بن حبيش حدثنا أحمد بن زنجويه حدثنا هشام بن عمار حدثنا محمد بن عبد الله القرشي بمصر ثنا عبد الله بن شبرمة. 

قال: دخلت أنا وأبو حنيفة على جعفر بن محمد. فقال لابن أبي ليلى: من هذا معك؟ قال: هذا رجل له بصر ونفاذ في أمر الدين. قال: لعله يقيس أمر الدين برأيه. قال:

نعم! قال فقال جعفر لأبي حنيفة: ما اسمك؟ قال: نعمان. قال يا نعمان هل قست رأسك بعد؟ قال: كيف أقيس رأسي؟! قال: ما أراك تحسن شيئا، هل علمت ما الملوحة في العينين، والمرارة في الأذنين، والحرارة في المنخرين والعذوبة في الشفتين. قال: لا! قال: ما أراك تحسن شيئا، قال: فهل علمت كلمة أولها كفر وآخرها إيمان. فقال: ابن أبي ليلى: يا ابن رسول الله أخبرنا بهذه الأشياء التي سألته عنها. فقال: أخبرني أبي عن جدي أن رسول الله ﷺ. قال: «إن الله تعالى بمنه وفضله جعل لابن آدم الملوحة في العينين لأنهما شحمتان ولولا ذلك لذابتا، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل المرارة في الأذنين حجابا من الدواب فإن دخلت الرأس دابة والتمست إلى الدماغ فاذا ذاقت المررة التمست الخروج، وإن الله تعالى بمنه وفضله ورحمته على ابن آدم جعل الحرارة في المنخرين يستنشق بهما الريح ولولا ذلك لأنتن الدماغ، وإن الله تعالى بمنه وكرمه ورحمته لابن آدم جعل العذوبة في الشفتين يجد بهما استطعام كل شيء ويسمع الناس بها حلاوة منطقه». قال: فأخبرني عن الكلمة التي أولها كفر وآخرها إيمان.

فقال: إذا قال العبد لا إله فقد كفر فإذا قال إلا الله فهو إيمان. ثم أقبل على أبي حنيفة فقال: يا نعمان حدثني أبي عن جدي أن رسول الله ﷺ قال: «أول من قاس أمر الدين برأيه إبليس. قال الله تعالى له اسجد لآدم فقال: ﴿(أنا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين)﴾ فمن قاس الدين برأيه قرنه الله تعالى يوم القيامة بإبليس لأنه اتبعه بالقياس». زاد ابن شبرمة في حديثه.

ثم قال جعفر: أيهما أعظم قتل النفس أو الزنا؟ قال: قتل النفس. قال: فإن الله ﷿ قبل في قتل النفس شاهدين ولم يقبل في الزنا إلا أربعة. ثم قال:

أيهما أعظم الصلاة أم الصوم؟ قال: الصلاة. قال: فما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة. فكيف ويحك يقوم لك قياسك! اتق الله ولا تقس الدين برأيك.


عبداللہ بن محمد نے ہمیں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن عنبسہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن جُمیع نے بیان کیا: انہوں نے کہا: میں جعفر بن محمد (امام جعفر صادقؒ) کی خدمت میں داخل ہوا، میں اور ابنِ ابی لیلیٰ اور ابو حنیفہ (امام اعظمؒ)۔

اور محمد بن علی بن حُبیش نے ہمیں بیان کیا، کہا: ہم سے احمد بن زنجویہ نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہشام بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا کہ مصر میں محمد بن عبداللہ قرشی نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے عبداللہ بن شُبرَمہ نے روایت کیا: انہوں نے کہا: میں اور ابو حنیفہ جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو امام جعفر نے ابنِ ابی لیلیٰ سے پوچھا: یہ تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ایک ایسے شخص ہیں جو دین کے معاملات میں بصیرت اور گہری سمجھ رکھتے ہیں۔ امام جعفرؒ نے فرمایا: کہیں یہ دین کے معاملات کو اپنی رائے سے قیاس تو نہیں کرتے؟ ابنِ ابی لیلیٰ نے کہا: جی! کرتے ہیں۔ تو امام جعفرؒ نے ابو حنیفہ سے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نعمان۔ امام جعفر نے فرمایا: اے نعمان! کیا تم نے کبھی اپنے سر کا قیاس کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں اپنے سر کا قیاس کیسے کروں؟ یہ سن کر امام جعفرؒ نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا کہ تم کسی چیز کی حقیقت جانتے ہو۔ پھر پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ آنکھوں میں نمکیات کیوں ہیں؟ کانوں میں کڑواہٹ کیوں ہے؟ نتھنوں میں حرارت کیوں ہے؟ اور ہونٹوں میں مٹھاس کیوں ہے؟ ابو حنیفہؒ نے کہا: نہیں۔ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: میں تو تمہیں کسی چیز کا جاننے والا نہیں پاتا! ابنِ ابی لیلیٰ نے عرض کیا: اے رسول اللہ ﷺ کے فرزند! ہمیں ان چیزوں کے بارے میں بتا دیجیے جن کے متعلق آپ نے ان سے سوال کیا۔ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے انسان کی آنکھوں میں نمکینی رکھی ہے، کیونکہ آنکھیں گوشت کے ڈھیر (شحم) ہیں۔ اگر نمکینی نہ ہوتی تو یہ پگھل جاتیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے انسان کے کانوں میں کڑواہٹ رکھی، تاکہ وہ کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہیں۔ اگر کوئی جاندار سر کے اندر داخل ہونے لگے اور دماغ تک پہنچنے کا ارادہ کرے تو جب اسے وہ کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے تو فوراً نکل بھاگتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسان کے نتھنوں میں حرارت رکھی ہے، جس کے ذریعے وہ ہوا سونگھتا ہے۔ اگر یہ حرارت نہ ہوتی تو دماغ سڑ جاتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انسان کے ہونٹوں میں مٹھاس رکھی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعہ چیزوں کا ذائقہ محسوس کرے اور گفتگو کی مٹھاس بھی انہی سے ملتی ہے۔" پھر ابنِ ابی لیلیٰ نے پوچھا: اس کلمے کے بارے میں بھی بتائیں جس کا پہلا حصہ کفر اور آخری حصہ ایمان ہے؟ تو امام جعفرؒ نے فرمایا: جب بندہ صرف "لا إله" کہے تو اس نے کفر کی بات کی، اور جب "إلا الله" کہہ دے تو یہ ایمان ہے۔ پھر امام جعفرؒ ابو حنیفہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "سب سے پہلا جس نے دین کے معاملے میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا۔ اللہ نے اسے حکم دیا: آدم کو سجدہ کرو۔ تو اس نے کہا: ﴿میں اس سے بہتر ہوں؛ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے﴾ پس جس نے دین کو اپنی رائے سے قیاس کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ابلیس کے ساتھ کھڑا کرے گا، کیونکہ اس نے بھی قیاس ہی کی پیروی کی تھی۔" عبداللہ بن شبرمہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا: پھر امام جعفرؒ نے پوچھا: قتلِ نفس بڑا گناہ ہے یا زنا؟ ابو حنیفہؒ نے کہا: قتلِ نفس۔ امام جعفر نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قتلِ نفس میں دو گواہوں کو کافی قرار دیا اور زنا میں چار گواہوں کا مطالبہ کیا۔ پھر پوچھا: نماز عظیم ہے یا روزہ؟ انہوں نے کہا: نماز۔ امام جعفرؒ نے فرمایا: تو پھر حیض والی عورت روزہ قضا کرتی ہے، نماز قضا کیوں نہیں کرتی؟ آخر میں فرمایا: "تیرے قیاس کا یہی انجام ہے! خدا سے ڈر اور دین کو اپنی رائے پر قیاس نہ کر!"

 (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/259)

جواب : یہ واقعہ مختلف کتب میں مختلف اسانید سے مذکور ہے ، اور ہر سند میں ضعیف یا مجہول راوی ہیں۔ سب سے پہلے  حلیة الأولیاء کی پہلی سند میں عمرو بن جُمیع موجود ہے، جو کہ کذّاب ہے۔

قَالَ يحيى: عَمْرو ابْن جَمِيع كَذَّاب خَبِيث. قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يَرْوِي الْمَوْضُوعَاتِ عَنِ الأَثْبَاتِ. وَقَالَ النَّسَائِيُّ وَالدَّارَقُطْنِيّ: هُوَ وجويبر مَتْرُوكَانِ. (الموضوعات لابن الجوزي ١/‏٢٥٥)

 جبکہ اس کی دوسری سند میں محمد بن عبد الله القرشي ہے، جو مجہول راوی ہے۔ محمد بن عبد الله القرشي  لم أجد له ترجمة. (زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس ٧/‏٢٦٨ ) لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


اب ہم دیگر سندوں کے حالات بھی آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔


2. أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بِشْرَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُمَحِيُّ، بِمَكَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ فَقَالَ لَهُ جَعْفَرٌ:  (شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ١/‏٧٦ )

اس سند میں درج ذیل رواۃ مجہول ہیں:

  • مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ — مجہول

  • مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ — مجہول

  • سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ — مجہول

 لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


3. ١١٩ - حدثنا أبو القاسم بن أبي العقب إملاءً: نا يوسف بن موسى المَرْوَرُّوذي: نا محمد بن المهلب: نا مغيث بن بديل ناقلة خارجة [قال:] (٣) نا خارجة، قال: دخلت أنا ومحمد بن أبي ليلى وأبو حنيفة على جعفر بن محمد (فوائد تمام ١/‏١١٠ — تمام بن محمد الدمشقي ت ٤١٤)


اس سند میں محمد بن المهلب  پر وضعِ حدیث کا الزام ہے، جیسا کہ ابن عدی نے الكامل في ضعفاء الرجال ٧/‏٥٥٧ میں ذکر کیا ہے، اور خارجة متروک راوی ہے۔ لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


4. حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فَهْدٍ الْمَالِكِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثَنَا ابْنُ شُبْرُمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، فَقَالَ لِأَبِي حَنِيفَةَ: «اتَّقِ اللَّهَ، وَلَا تَقِيسَنَّ لِلدِّينِ بِرَأْيِكَ، فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ، إِذْ أَمَرَهُ بِالسُّجُودِ لِآدَمَ، فَقَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ؛ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ، وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ، وَذَكَرَ كَلَامًا» (مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/‏٦٦ — أبو نعيم الأصبهاني ت ٤٣٠)


اس سند میں محمد بن عبدالعزیز الرملي  راوی موجود ہے، جس کے بارے میں ائمہ نے  مختلف نوعیت کی آراء بیان کی ہیں۔  امام ابو حاتم کے نزدیک وہ ضعیف ہے، فرماتے ہیں: “اس کے پاس غرائب روایات تھیں، ہمارے نزدیک محمود نہ تھا، اور کمزوری کی طرف مائل تھا۔” امام ابو زرعہ کے نزدیک بھی وہ قوی نہیں تھا، یعنی “لیس بالقوی”۔ امام ابن حبان اور امام ذہبی کے نزدیک وہ ایسا راوی ہے جو کبھی کبھار غریب روایات بیان کرتا ہے اور ثقہ روات کے مخالف روایت بھی نقل کر دیتا ہے، اس لیے اسے مکمل اعتبار کے درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔

  • ٣٨٥١ - محمد بن عبد العزيز الرملي: قال أبو زرعة: ليس بالقوي. ديوان الضعفاء ١/‏٣٦٣

  •   حافظ ابن حجر نے مجموعی طور پر اس کا خلاصہ یہ کیا ہے: “صدوق ہے، مگر وہم کر جاتا ہے۔” لہٰذا مجموعی طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے، خصوصاً ابو حاتم اور ابو زرعہ کے اقوال اس کی تضعیف پر دلالت کرتے ہیں  لہٰذا سند  ضعیف ہے۔

  • ٦٠٩٣ - محمد بن عبد العزيز العُمَري، الرمْلِي، ابن الواسطي: صدوقٌ يَهِم، وكانت له معرفة، من العاشرة. خ تم س.

    • بل: ضعيف يُعتبر به، قال أبو زرعة: ليس بقوي، وقال أبو حاتم: كان عنده غرائب، ولم يكن عندهم بالمحمود، هو إلى الضعف ما هو، وقال البزار: لم يكن بالحافظ. ووصفه يعقوب بن سفيان بالحفظ، ووثقه العجلي

    تحرير تقريب التهذيب ٣/‏٢٨٢ — بشار عواد معروف (معاصر)


5. حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحُسَيْنِ، ثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، ثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْطٍ، قَالَ: قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ لِأَبِي حَنِيفَةَ: (مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/‏٦٦ — أبو نعيم الأصبهاني ت ٤٣٠)


اس سند کے دو راویوں عبدالعزیز بن یحییٰ المدنی اور محمد بن سلیمان بن سلیط پر جرح موجود ہے: عبد الْعَزِيز بن يحيى بن عبد الْعَزِيز الْمَدِينِيّ 

عبد العزيز بن يحيى المدني: تالفٌ. * قال البخاريُ: «ليس من أهل الحديث، يضعُ الحديث». *وقال عبد الرحمن بن أبي حاتم، عن أبيه: ضعيفٌ، وقال: «سألتُ أبا زرعة عنه فقال: ليس بصدوق، وذكرته لإبراهيم بن المنذر فكذَّبه، وذكرتُهُ لأبي مصعب، فقال: يحدث عن سليمان بن بلال؟ فقال: كذبٌ، أنا أكبر منه، ما أدركتُهُ». *وقال العقيليُّ: يحدثُ عن الثقات بالبواطيل، ويدعي من الحديث ما لا يعرف به غيرُهُ من المتقدمين عن مالكٍ وغيره. التسلية/ رقم ٧٣ * عبد العزيز بن يحيى المدينيّ: قال الذهبيُّ: «ليس بثقةٍ». تنبيه ٥ / رقم ١٤٥٩


٦٨٧٥ - محمد بن سليمان بن سليط الأنصاري السالميقال العقيلي: مجهول بالنقل، روى، عَن أبيه، عن جَدِّه فذكر قصة أم معبد. وعنه عبد العزيز بن يحيى. واه، انتهى. ⦗١٨٠⦘ وقال: ليس هذا الطريق محفوظا في حديث أم معبد. وفي كتاب ابن أبي حاتم: محمد بن سليمان الأنصاري، عَن أبيه، قال أبي: مجهول. ووقع في الصحابة لابن منده: محمد بن سليط، عَن أبيه، عن جَدِّه فأسقط سليمان بن محمد وسليط، فوهم، نبه عليه العلائي في الوشى المعلم. (لسان الميزان ت أبي غدة ٧/‏١٧٩)

 لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


6. ٣٥٤ - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَامِدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّد بْنِ مَنْصُورٍ 

7. ح وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَحْمُودٍ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُعَيْمٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شُبْرُمَةَ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ لِأَبِي حَنِيفَةَ 

8. ح وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ زُهَيْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا الْمُظَفَّْرُ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ الْكُوفِيِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّارِفِيُّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَهُوَ يتغدا فَجَاءَ أَبُو حَنِيفَةَ وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرٍ فَقَالَ لِأَبِي حَنِيفَةَ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَقِسِ الدِّينَ بِرَأْيِكَ فَإِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَاسَ إِبْلِيسُ

(ذم الكلام وأهله ٢/‏١٩٩)


اس سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ  مجہول ہے۔ 

٦٩٩٢ - محمد بن عبد الله العامري الدمشقيعن ثور وجعفر بن محمد. وعنه هشام بن عمار. لا يعرف. (لسان الميزان ت أبي غدة ٧/‏٢٤٠ )


اسی طرح المظفّر کا بھی تعیّن درکار ہے، کہ یہاں کون سا مظفّر مراد ہے۔ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّارِفِيُّ : اگر محمد بن الحسن الہمدانی ہوں تو یہ راوی متروک اور ضعیف ہے، اور اگر اس سے مراد کوئی دوسرا محمد بن الحسن ہو تو وہ مجہول ہے.

 لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


9. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْمَالِكِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الْعَامِرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شُبْرُمَةَ قَالَ: «دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، 

(العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني ٥/‏١٦٢٦)

اس سند میں مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ  مجہول ہے۔ 

٦٩٩٢ - محمد بن عبد الله العامري الدمشقيعن ثور وجعفر بن محمد. وعنه هشام بن عمار. لا يعرف. (لسان الميزان ت أبي غدة ٧/‏٢٤٠ )

 لہٰذا سند  ضعیف ہے۔


 یہاں سے آخر تک وہی روایتیں بیان کی گئی ہیں جن کے بارے میں اوپر پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اُن کے راوی ضعیف ہیں، اور ہم نے انہیں سرخ رنگ میں ظاہر کیا ہے۔


10. وقال علي بن عبد العزيز البغوي: ثنا أبو الوليد القرشي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن بكار القرشي، ثنا سليمان بن جعفر، ثنا محمد بن يحيى الرَّبَعي، عن ابن شُبْرُمَة أن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين قال لأبي حنيفة: اتقِ الله ولا تقِسْ، فإنا نقف غدًا نحن ومن خالفنا بين يدي الله، (أعلام الموقعين عن رب العالمين - ط عطاءات العلم ٢/‏١٣)

11. حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ أُمُّ جَعْفَرٍ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأُمُّهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ يَحْيَى الرَّبَعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرَمَةَ» دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ (الأخبار الموفقيات للزبير بن بكار ١/‏١٩)


12. أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ زِرْقَوَيْهِ، أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ الْخُتَّلِيُّ، نا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، نا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ،  عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيِّ،  عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو حَنِيفَةَ؛

13.  وَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاعِظُ، - وَاللَّفْظُ لَهُ - أنا أَبُو حَفْصٍ، عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ بِمَكَّةَ، نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، نا أَبُو الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكَّارٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ جَعْفَرٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الرِّبْعِيُّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ:  دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو، حَنِيفَةَ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، (الفقيه والمتفقه - الخطيب البغدادي ١/‏٤٦٤)

14. حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْن سعيد الزهري، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الوليد الدمشقي، قال: حَدَّثَنِي عمي مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ بْن بكار، قال: حَدَّثَنِي سليمان بْن جعفر ابن إبراهيم بْن علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر بْن أبي طالب، وأمر علي بْن عَبْد اللهِ بْن جعفر، زينب بنت علي بْن أبي طالب، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ الزهري فقال: حَدَّثَنَا ابن شُبْرُمَةَ، قال: دخلت أنا وأَبُوْحَنِيْفَةَ على جعفر بْن مُحَمَّد فسلمت عليه

(أخبار القضاة ٣/‏٧٨)

محمد بن عبد الله ابن أخي الزهري

صدوق له أوهام [تقريب التهذيب (1/ 866)]

قلت: تتمة كلام ابن حبان: وكان رديء الحفظ، وكثير الوهم [تهذيب التهذيب (3/ 616)]


خلاصہ

امام جعفر صادق اور امام ابو حنیفہ کے درمیان مناظرہ والی روایت مختلف کتب میں مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے، مگر ان تمام سندوں میں متعدد راوی کذاب، متروک، مجہول الحال یا وضعِ حدیث کے الزام والے ہیں۔ پہلی سند میں عمرو بن جمیع کذاب اور وضّاع ہے، جبکہ دیگر سندوں میں محمد بن عبداللہ القرشی مجہول، محمد بن المهلب متہم بالوضع، اور عبدالعزیز بن یحییٰ المدنی وضّاع  قرار پائے ہیں۔ اکثر سندیں ابن شبرمہ سے منقطع یا غیر محفوظ ہیں۔ اس طرح تمام طرق کی مشترکہ کمزوری یہ ہے کہ کوئی بھی سند قابل اعتماد نہیں۔ لہٰذا یہ واقعہ تاریخی طور پر ثابت نہیں اور حدیثی معیار کے مطابق موضوع یا شدید ضعیف ہے، اور اس بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کرنا درست نہیں کیونکہ روایت ہی ناقابلِ اعتبار ہے۔




تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...