اعتراض نمبر 4
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله: 4
مرنے والے کے ذمہ روزوں کی قضا کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن عائشةرضی اللہ عنہا قالت قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من مات و عليه صيام صام عنه وليه ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے پر اگر روزوں کی قضا ہو تو وہ قضا اس کے وارث اس کی طرف سے
پوری کریں گے۔
(صحيح بخاري :ج1كتاب الصوم باب من مات عليه صوم صفحه 63-262 رقم الحديث 1147)
صحيح المسلم ج1كتاب الصوم باب قضاء الصوم عن الميت صفحه 362 رقم الحدیث 1952)
فقه حنفی
من مات وعلیه قضاء رمضان فاوصی به اطعم عن وليه لكل یوم نصف صاع من بر او من تمر او شعير ولا يصوم عنه الولى
هدایه اولین ج1كتاب الصوم باب ما يوجب القضاء والكفارة صفحه 23-222
یعنی مرنے والے پر اگر رمضان کے روزوں کی قضا ہو اور وہ ان کے بارے میں وصیت کر جائے تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے تو نہیں رکھ سکتے۔ البتہ ہر دن گندم یا کھجور یا جو کا آدھا صاع میت کی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا سکتے ہیں۔ (فقہ وحدیث ص 43)
جواب: امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کا مسلک اس مسئلہ میں یہ ہے کہ ایسی عبادت جو محض بدنی ہیں جیسے نماز اور یہ مسئلہ یہ کہ جو روزہ ان میں کسی دوسرے آدمی کی نیابت کرنے سے یہ عبادتیں ادا نہیں ہوتیں۔ البتہ جو عبادات محض بدنی نہیں بلکہ مالی بھی ہیں۔ جیسے حج ان میں اگر اصل شخص عاجز ہو جائے تو دوسرا شخص اس کا نائب بن کر اس کی طرف سے عبادت کر سکتا ہے۔ رہیں وہ عبادات جو محض مالی ہیں جیسے زکوۃ اور صدقہ فطر تو ان میں مطلقاً نیابت درست ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ امام صاحب کے نزدیک نماز یا روزہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نائب بن کر ادا نہیں کر سکتا روزے کا فدیہ دوسرے شخص کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہی مسلک امام شافعی نور اللہ مرقدہ امام مالک نور اللہ مرقدہ اور جمہور اہل علم کا ہے اور اس پر صریح اور واضح دلائل موجود ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
حديث:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مر جائے اور اس کے ذمے رمضان کے مہینے کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھلانا کھلایا جائے۔
(ترمذی ج1 ص 142 )
حديث:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہ فرماتے ہیں کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف سے ہرگز نماز نہ پڑھے اور نہ دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کردو یا ہدیہ دے دو۔
مصنف عبدالرزاق ج 9 ص 61 سنن الکبری بیہقی ج 4 ص 254 - 425 ص 44 موطا امام مالک ص 245)
حديث:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کھانا کھلا دے۔
مشکل الآثارللطحاوی ج 3 ص 141 تلخيص الحبير ج 2 می 209)
حديث حضرت عائشہ صدیقہ کی لکھا ہے رضی اللہ عنہا سے عمرہ بنت عبد الرحمن نے پوچھا کہ میری والدہ وفات پاگئی ہیں اور بہن کے ذمہ رمضان کے روزے باقی تھے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے قضا کرلوں؟ حضرت عائشہ رضی صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین پر صدقہ کرو۔ یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔ (مشکل الآثارثار للطحاوی ج 3 ص 142 المحلی ابن حرم ج 7 ص4 علامہ ماردینی نے اسکی سند کو صحیح قراردیا ہے الجواہر النقی ج 4 ص 25)
حديث:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ذمے رمضان کے روزے باقی ہو ں اور وہ مر جائے تو اس کی طرف سے ساتھ مسکینوں کو کھلانا کھلایا جائے۔
(مصنف عبد الرزاق ج 4 ص 237)
اہل مدینہ کا عمل:
علاوہ ازیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز یا روزہ کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ چنانچہ امام مالک نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں۔ میں نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تابعین نور اللہ مرقدہ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ وہ سب اپنا عمل اپنے ہی لئے کرتے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کی طرف سے عمل نہیں کرتا۔
( نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ ج 2 ص 463)
رہی وہ روایت جو پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا مندرجہ بالاقوی اور صحیح
دلائل کی روشنی میں ایسا مفہوم مرادلینا ضروری ہے جو مذکورہ احادیث کے خلاف نہ ہو۔ چنانچہ اس روایت کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ پہلے نیابتاً روزہ رکھنے کی اجازت تھی جو کہ بعد میں مفسوخ ہو گئی اور اس کے منسوخ ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما بیان جو کہ اجازت کی روایت کی راوی ہیں۔ ان کا فتوی اس کے خلاف موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اجازت منسوخ نہ ہو گئی ہوتی تو آپ اپنی روایت کے خلاف فتوی نہ دیتی۔ لہذا یہ روایت منسوخ ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ میت کی طرف سے نائب بن کر روزہ رکھا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی طرف سے نفلی روزہ رکھ کر اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچادے۔ تیسری توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے یعنی اس کی طرف سے روزہ رکھنا، کھانے سے اس کا تدارک کر دینا ہے پس جب مساکین کو کھانا دینے سے وہ میت رزوے سے بری ہوگی تو گویا اس شخص نے اس کی طرف سے روزے ادا کئے ۔
قارئین کرام فقہ حنفی کا یہ مسئلہ احادیث کے مطابق ہے نہ کہ مخالف
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں