اعتراض نمبر 1: حضرت امام ابو حنیفہؒ نے صرف حضرت انسؓ کو دیکھا ہے، کسی اور صحابی کو نہیں دیکھا۔ خطیب نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے صرف حضرت انس بن مالکؓ کو دیکھا ہے اور عطاء بن ابی رباح سے سماعت کی ہے۔
الجواب :خطیب نے یہاں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے اور حضرت عطاء رحمہ اللہ سے ان کی سماعت کو تسلیم کیا ہے۔ پس ان کا حضرت انس رض کو دیکھنے کا اقرار حمزہ سہمی کی روایت میں دار قطنی نے بھی کیا ہے جیسا کہ اس کو علامہ سیوطی نے اپنی کتاب تبييض الصحيفة في مناقب ابی حنیفہ کی ابتدا میں نقل کیا ہے۔ اور ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم ج 1 ص 45 میں اپنی سند کے ساتھ ایک خبر نقل کرنے کے بعد کہا کہ اس کو امام ابو حنیفہ نے رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزء ہی سے سنا ہے۔ اور واقدی کے کاتب ابن سعد نے ذکر کیا ہے کہ بے شک ابو حنیفہ نے حضرت انس بن مالک اور حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزء رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے تو اس سے پتہ چلا کہ حضرت ابن جزء رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جن کی وفات آخر میں ہوئی اور اس سے بدرجہ اولی یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہو اس لیے کہ وہ کوفہ میں ہی رہائش پذیر تھے اور وہاں ہی ان کی وفات ہوئی۔ اور ابو نعیم الاصفہانی رحمہ اللہ نے صحابہ کی جماعت میں جن کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دیکھا ہے، ان میں حضرت انس ، حضرت عبد الله بن الحارث اور حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنھم کا ذکر کیا ہے جیسا کہ سبط ابن الجوزی نے عن ذاكر بن كامل عن ابی علی الحداد کی سند سے اپنی کتاب الانتصار والترجيح : میں روایت کی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ فرض کیا جائے کہ امام ابو حنیفہ کی ولادت 80ھ میں ہے اور بہر حال جب یہ فرض کیا جائے کہ ان کی ولادت 71ھ یا 70ھ میں ہے جیسا کہ یہ دونوں روایتیں ابن زواد اور ابن حبان سے ہیں تو اس صورت میں ان کے صحابہ کو دیکھنے کا دائرہ اور بھی وسیع ہو جاتا ۔ ہے۔ اور ابو القاسم بن ابی العوام نے اپنی کتاب فضائل ابی حنیفہ واصحابہ میں پہلی روایت کو لے کر ان کے زمانہ میں پائے جانے والے صحابہ کی لمبی تفصیل بیان کی ہے پس جو اصل کتاب دیکھنا چاہئے، وہ دمشق کے ظاہریہ کتب خانہ میں اندراج 63 کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ اور یہاں خطیب کا امام ابو حنیفہؒ کے حضرت انسؓ کو دیکھنے کا اقرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خطیب کی جانب ج 2 ص 208 میں جو یہ بات منسوب کی گئی ہے، وہ کسی خطا کار ہاتھ نے تبدیلی کی ہے کہ اس نے حمزہ السہمیؒ سے نقل کیا کہ بیشک اس نے کہا کہ اس نے دار قطنی سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہؒ کا حضرت انسؓ سے سماع صحیح ہے یا نہیں ؟ تو اس نے کہا کہ نہ سماع صحیح ہے اور نہ ان کو دیکھنا صحیح ہے۔ اور طباعت کی پروف ریڈنگ کرنے والے کی غلطیاں کتاب میں بہت ہیں۔ اور یہ اصل کلام یوں تھا کہ اس نے دار قطنی سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہؒ کا سماع حضرت انسؓ سے صحیح ہے ؟ تو اس نے کہا 《 لا الا رٶیتہ 》 " نہیں مگر ، اس کا ان کو دیکھنا ثابت ہے " تو خطا کار ہاتھ نے " الا رؤیتہ " کو " ولا رؤیتہ " سے بدل ڈالا اور ان پر دلیل امام سیوطی کا قول ہے جو تبییض الصحيفة کی ابتداء میں ہے کہ حمزة السہمی نے کہا کہ میں نے دار قطنی سے سنا وہ کہتے تھے کہ ابو حنیفہؒ نے صحابہؓ میں سے کسی سے ملاقات نہیں کی مگر یہ بات ہے کہ بیشک اس نے حضرت انسؓ کو اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مگر ان سے سماعت نہیں کی الخ سیوطی کی عبارت مکمل ہوئی۔ اور امام ابو حنیفہؓ کا حضرت انسؓ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو دیکھنے کی جو دارقطنی رحمہ اللہ نے نفی کی ہے اور حضرت انسؓ کو دیکھنے کا اثبات کرنے کے بعد ان سے سماعت کی جو نفی کی ہے تو یہ صرف دعوئی ہے اور نفی پر شہادت ہے اور مقصد یہاں اس بات کی وضاحت ہے کہ بیشک امام دار قطنی "امام ابو حنیفہؒ کے حضرت انسؓ کو دیکھنے کا اعتراف کرنے والے ہیں۔ اور جن لوگوں نے اپنے فتووں میں ان کے حضرت انسؓ کو دیکھنے کا اقرار کیا ہے، ان میں ابن سعد، دار قطنی، ابو نعیم الاصفہانی، ابن عبد البر، خطیب بغدادی، ابن الجوزی ، السمعانی، عبد الغني المقدسى ، سبط ابن الجوزى، فضل الله التورپشتی ، امام نووی ؟ امام یافعی ، امام ذہبی ، الزين العراقی، ولی الدین العراقي ، ابن الوزير ، بدر الدین العینی اور ابن حجر شامل ہیں جن کو امام سیوطی نے اپنی کتاب تبييض الصحيفة میں اور الشباب القسطائی اور سیوطی اور ابن حجر مکی
وغیرہم نے نقل کیا ہے تو امام ابو حنیفہ کے تابعی ہونے کا انکار کرنا محض سینہ زوری اور ان نصوص سے ناواقفیت ہوگی۔ اور رہی یہ بات کہ امام ابو حنیفہؒ کا حضرت عطاء سے سماع ثابت ہے تو اس بارے میں تفصیل آگے آرہی ہے۔
امام شافعیؒ کا امام ابو حنیفہؒ کی قبر پر حاضری دینا اور خطیب نے ج ۱۳ ص ۳۲۴ میں کہا ہے کہ وہ یعنی امام ابو حنیفہ اہل کوفہ میں سے ہیں۔ ان کو ابو جعفر منصور نے بغداد کی طرف منتقل کر دیا تھا۔ پھر انہوں نے وفات تک وہاں ہی اقامت اور مقبرہ خیزران کے مشرقی کنارہ میں ان کو دفن کیا گیا اور وہاں ان کی قبر ظاہر مشہور ہے۔
میں کہتا ہوں کہ مناسب یہ تھا کہ خطیب یہاں وہ واقعہ نقل کر دیتا جو اس نے ج ١ ص ١٢٣میں ذکر کیا ہے
أَخْبَرَنَا الْقَاضِي أَبُو عَبْد الله الحسين بْن عَلِيّ بْن مُحَمَّد الصيمري، قَالَ: أَخبرنا عُمَر بْن إِبْرَاهِيمَ المقرئ، قَالَ: حَدَّثَنَا مكرم بْن أَحْمَد، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَر بْن إسحاق بْن إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن ميمون، قَالَ: سمعت الشافعي، يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إِلَى قبره في كل يوم، يَعْنِي زائرا، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين، وجئت إِلَى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى.
یعنی امام شافعی کا امام ابو حنیفہ کے وسیلہ سے برکت حاصل کرنا جہاں اس نے قاضی ابو عبد الله الحسین بن علی الصیمری ، عمر بن ابراہیم المقری مکرم بن احمد عمر بن اسحاق بن ابراہیم ، علی بن میمون رح کی سند سے نقل کیا ہے کہ علی بن میمون نے کہا کہ میں نے امام شافعی سے سنا وہ فرماتے تھے کہ بیشک میں ابو حنیفہ کے وسیلے برکت حاصل کرتا ہوں اور میں اس کی قبر پر روزانہ حاضری دیتا ہوں پس جب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں اور ان کی قبر پر حاضری دیتا ہوں اور اس قبر کے پاس اللہ تعالی سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں تو مجھے زیادہ عرصہ نہیں لگتا یہاں تک کہ وہ حاجت پوری ہو جاتی ہے الخ (یہاں تک ج ١ایک ص ۱۳۳ کا حوالہ مکمل ہوا )اور اس سند کے سارے راوی خطیب کے ہاں ثقہ ہیں اور ابو العلاء صاعد بن احمد بن ابي بكر الرازی نے اپنی کتاب الجمع بين الفتوى والتقوى في مهمات الدين والدنيا ميں شافعی المسلک فقیہ شرف الدین الدمشقی سے روایت کی ہے اور وہ بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں مدرس تھے کہ انہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے مروی اس روایت کا تجربہ کیا (یعنی انہوں نے بھی اسی جیسا عمل کیا) ایسی مصیبت میں جس نے ان کو پریشان کر دیا تھا تو بہت جلدی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہو گیا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں