اعتراض نمبر 10
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : 10
غسل دیتے وقت، مرنے والی عورت کے بالوں کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کو غسل دینے کے ذکر میں ہے کہ:
فضفر نا شعرها ثلاثة قرون فالقينا خلفها
ترجمہ: یعنی ہم نے ان کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا کر پیچھے کی طرف ڈال دیا۔
(بخاري ج1كتاب الجنائز باب يلقي شعر المراةخلفها ثلاثة قرون صفحه 69-168 ، رقم الحديث 1263 واللفظله)
(مـسلم ج1کتاب الجنائز شعر النساء ثلاثة قرون صفحه 304)
فقه حنفی
يجعل شعرها صفر تين على صدرها . هداية اولين كتاب الصلوة الجنائز فصل التكفين صفحه 179
عورت (میت) کے بالوں کی دو چوٹیاں بنا کر سینے کی طرف ڈال دیا جائے گا۔ (فقہ وحدیث ص 49)
جواب:
امام ابوحنیفہ نور اللہ مرقدہ یہاں پر ایک اصولی بات فرماتے ہیں کہ یہ کام زینت سے تعلق رکھتا ہے اور میت کو زینت کی ضرورت نہیں ہوتی جب کہ مینڈیاں بنا کر پیچھے ڈالنا زینت میں شمار ہوتا ہے۔ کسی بھی صحیح روایت میں یہ حکم موجود نہیں ہے۔ بخاری میں صرف ام عطیہ کا قول موجود ہے۔ غیر مقلدین تو کسی کا قول نہیں مانتے مگر یہاں پر اس قول پر بنیادرکھی ہے۔ اس قول کے مقابلہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول ملاحظہ فرمائیں۔
حديث عن ابراهيم ان عائشة رات امراة يكدون راسها فقالت غلام تصنون ميتكم
(مصنف ج 3 ص 437 رقم 6232 باب شعر الميت و الفارها
ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ایک میت عورت کی مینڈیاں بنارہی تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا خبر دار کیا تم مردہ عورتوں کی مینڈیاں بناتی ہو۔
اس روایت سے مینڈیاں بنانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ناظرین دونوں قول آپ کے سامنے ہیں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے قول کو ترجیح دی ہے اور عقلی طور پر بھی امام اعظم نور اللہ مرقدہ کی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ میت کو زینت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ایک ایسی روایت جس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا ذکر ہے۔ اس میں ہے کہ پھر انہوں نے (یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ) اپنے کپڑے کی طرف دیکھا جس میں وہ بیمار ہوئے تھے اس میں زعفران کا ایک نشان تھا فر مایا میرا یہ کپڑا دھوڈالو اور اس پر دو کپڑوں کا اضافہ کر دو اور ان میں مجھے کفن دو میں نے کہا ( اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے ) یہ پرانا کپڑا ہے فرمایا زندہ نئے کپڑوں کامردے سے زیادہ مستحق ہے
(تفہیم البخاری ترجمه و شرح صحیح بخاری ج 2 ص 443
اس واقعہ سے بھی اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ مردہ کو زینت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ام عطیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی رائے سے یہ کام کیا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ تھا۔
علامہ قسطلانی نور اللہ مرقدہ نے کہا کہ سرور کائنات ﷺ نے سر کے بالوں کے تین حصے کرنے کی تصریح نہیں فرمائی اور نہ ہی آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا حدیث میں صرف یہ مذکور ہے کہ ام عطیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تین چوٹیاں بنائیں یہ ان کا اپنا فعل ہے اس کو سید عالم ﷺ کی تقریر حاصل نہیں اور یہ کہنا کہ ام عطیہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے حکم سے کیا ہو گا محض ایک احتمال ہے جس سے حکم ثابت نہیں ہو سکتا۔ (بحوالہ تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری جلد 2 ص 331)
غیر مقلد کہتے ہیں کہ ابن حبان کی روایت میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی موجود ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ امرکا لفظ شاز ہے اور ابن حبان کی سند بھی صحیح نہیں۔ نیز ایک روایت حضرت ام سلیم رحمۃ اللہ علیہ کی مجمع الزوائد سے نقل کی جاتی ہے جس میں دو، تین مینڈیاں بنا کر پیچھے کرنے کا ذکر ہے۔ مگر اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم موجود نہیں۔ بلکہ اس کی سند میں لیث بن سعد مدلس موجود ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں