اعتراض نمبر 11
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : 11
صلوۃ استقاء باجماعت ادا کی جاسکتی ہے؟
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن عبد الله بن زيد قال خرج رسول اللہ ﷺ بالناس الى المصلى ليستقى فصلى بهم ركعتن جهر فيهما بالقراة واستقبل القبلة يدعو و رفع یدیه و حول رداءها حين استقبل القبلة
ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استقاء کے لئے لوگوں کے ساتھ عید گاہ کی طرف نکلے جہاں آپ نے دور کعت نماز پڑھائی جس میں جہری قرات فرمائی پھر قبلے کی طرف رخ کیا اپنے ہاتھوں کواٹھایا اور چادر کو پلٹا۔
(صحيح بخاري ج ا ص 139 ـ كتاب الاستقاء باب كيف حول النبي ظهره الي الناس رقم الحديث 980 باختلاف يسير)
( مسند احمد ج 6 ص 39 رقم 16484)
(سنن الدارقطني 2 كتاب الاستسقاء رقم الحديث 1776ج 4صفحه 212)(جامع ترمذي رقم الحديث 556. ابواب السفر باب ما جاء في صلاة الاستسقاءج 1ص 82)
فقه حنفی
قال ابو حنيفة رضى الله عنه ليس فى الاستسقاء صلاة مسنونة في جماعة فان صلی الناس و حدان جاز هدایه اولین کتاب الصلاة باب الاستقاء صفحه 176
ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ استقاء میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مسنون نہیں ہے، ہاں اگر لوگ اکیلے نماز پڑھ لیں تو جائز ہے۔ (فقہ وحدیث میں 50)
جواب:
راشدی صاحب نے نماز استقاء کے حنفی مسئلہ کو حدیث کے خلاف قرار دیا ہے پہلے آپ ہدایہ کی عبارت کا مکمل ترجمہ دیکھیں امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا استسقاء میں نماز با جماعت سنت نہیں ہے اگر لوگ اکیلے اکیلے نماز پڑھیں تو جائز ہے استسقاء تو صرف دعا اور استسقاء ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا استسقاء کرو اپنے رب سے بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ( اور اس استسقاء کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خوب برسنے والے بادل بھیجیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اکثر دفعہ) بارش کی دعا مانگی اور (ان اکثر واقعات میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھنا مروی نہیں اور صاحبین کہتے ہیں کہ نماز پڑھائے امام دور کعت جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے پڑھیں دو رکعت مثل عید کے اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت فرمایا ہم کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدھ مرتبہ نماز پڑھی پھر چھوڑ دی پس سنت نہ ہوئی
( ہدایہ ج 1ص 176)
یہ پوری عبارت ہے جو راشدی صاحب نے نقل نہیں کی راشدی صاحب کو مخالفت کے مفہوم کا معنی بھی نہیں آتا۔ امام صاحب اس نماز با جماعت کے سنت ہونے کی نفی کرتے ہیں حدیث کے خلاف جب ہوگا کہ آپ حدیث شریف میں لفظ سنت دکھا دیں جو آپ قیامت تک نہیں دکھا سکتے اگر آپ کے نزدیک نماز با جماعت استقاء کی مستقل سنت ہے تو فرمائیے۔
امام ابوحنیفہ رحمت اللہ علیہ کا صحیح مسلک :
اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح مسلک یہ ہے کہ بارش کی دعا مانگنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ نماز بھی پڑھی جائے۔ بلکہ صرف دعا بھی کی جاسکتی ہے۔ یعنی امام صاحب نے نماز استقساء کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کے لئے ضروری ہونے سے انکار کیا ہے اور صرف دعا پر اکتفاء کرنا متعدداحادیث سے ثابت ہے۔
1۔ قرآن پاک نے بارش مانگنے کا جو طریقہ ذکر فرمایا اس میں استسقاء ہے نماز با جماعت کا ذکر نہیں کیا اس قرآنی طریقہ کو آپ خلاف سنت کہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
استغفروا ربكم انه كان غفارا يرسل السماء عليكم مدارا
یعنی طلب کرد مغفرت اپنے پروردگار سے وہ بخشنے والا ہے بھیجتا ہے ابر (بادل) تم پر برسنے والا۔
2۔ عبد اللہ بن بن ابی نمر روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیٹی کو سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن اس دروازہ سے مسجد میں داخل ہوا جو منبر کے ساتھ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے اس نے کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا مال تباہ ہو گیا راستے بند ہو گئے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے دعا کریں که بارش برسائے۔ انسرضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے میرے اللہ تعالی میں سیراب کر ، اے میرے اللہ ہمیں سیراب کر ، اے میرے اللہ ہمیں سیراب کر، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا بخدا اس وقت آسمان پر نہ تو کوئی بادل اور نہ بادل کا کوئی ٹکڑا اور نہ کوئی چیز نظر آتی تھی اور نہ ہمارے اور سلع ( پہاڑ) کے درمیان کوئی گھر یا مکان تھا سلع کے پیچھے سے ڈھال کے برابر ایک ابر کا ٹکڑا نمودار ہوا جب وہ آسمان کے بیچ میں آیا تو وہ بدلی پھیل گئی پھر بارش ہونے لگی بخدا پھر ہم لوگوں نے ایک ہفتہ تک آفتاب نہیں دیکھا پھر ایک شخص اسی دروازے سے دوسرے جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا۔ اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا مال تباہ ہو گیا راستے بند ہو گئے اس لئے اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے اردگرد بر سا ہم پر نہ برسہا اے میرے اللہ پہاڑوں ٹیلوں اور پہاڑوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر برسا راوی کا بیان ہے کہ بارش تھم گئی اور ہم دھوپ میں چلتے ہوئے باہر نکلے شریک کا بیان ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ پہلا ہی آدمی تھا ؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔
(بخاری ج 1ص 138 )
3۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک اعرابی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی خدمت میں ایک ایسی قوم کی جانب سے آیا ہوں کہ ان کے چرواہوں کو کھانے کے لئے نہیں ملتا حتی کہ ان کے دلوں میں اونٹوں کا خیال تک بھی باقی نہ رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اللہ تعالی کی حمد وثنا کی اور کہا :
اللهم استقنا غيثا مغيثا فرينا طبقا مريعا غرقا عاجلا غير رائث. پھر منبر سے اتر آئے پھر جو قوم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے یہی کہا کہ ہم پر خوب بارش ہوئی۔
(ابن ماجه ص 90)
4۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قحط سالی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھٹنوں کے بل جھک جاؤ اور دعا کرو۔ اے رب اے۔۔۔۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا اور بارش برسنا شروع ہو گئی۔
(صحیح ابو عواد التلخيص الحبير ج 1 ص 148)
ان تمام واقعات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف بارش کی دعا مانگی ہے اس کے ساتھ نماز
نہیں پڑھی جس کا مطلب یہی ہے کہ صرف دعا مانگ لینا بھی درست ہے۔
5۔ امام شبعی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لئے نکلے اور صرف استغفار کر کے پلٹ آئے۔ (مصنف عبدالرزاق ج 3 ص 87
سنن سعید بن منصور بحوالہ عمدة القاری ج 3 ص 144)
ابومروان الاسلمی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ استسقاء کے لئے نکلے تو آپ نے استغفار کے علاوہ اور کچھ نہ کیا
(ابن ابی شیبه سعید بن منصور زجاجه ج 1 ص 422)
اگر یہ طریقہ خلاف سنت ہوتا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کیوں ایسا کرتے اور مہاجرین و انصار اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ساتھ تھے وہ اس ترک سنت پر کیوں خاموش رہتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اعضاء وضو کا ایک ایک دو دو مرتبہ دھونا آپ کے فعل سے ثابت ہے مگر سنت نہیں سنت تین تین مرتبہ دھونا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں