اعتراض نمبر12
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله :12 دوران خطبہ، تحیتہ المسجد کی دورکعتوں کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن جابر قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وهو يخطب اذا جاء احد كم يوم الجمعة والامام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيهما ترجمہ : سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تم میں سے کوئی ایک آئے تو اس کو چاہئے کہ ہلکی دورکعتیں پڑھ لے۔
(مسلم ج1كتاب الجمعة باب من دخل المسجد والامام يخطب او خرج للخطبة فليصل ركعتين و ليتجوز فيها صفحه 287 رقم الحدیث 2024)
فقه حنفی
اذا خرج الام يوم الجمعة ترك الناس الصلاة والكلام حتى بفرغ من خطبة
هداية اولين ج 1كتاب الصلوة باب الجمعة صفحه 171
جمعہ کے دن جب امام جمعہ نماز کے لئے نکلے تو لوگوں کو نماز اور کلام ترک کر دیناچاہئے۔
(فقہ وحدیث ص 51 )
جواب:
حضرات خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین کے نزدیک خطبہ کے دوران نماز و کلام ممنوع ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمت اللہ علیہ اور اکثر فقہائے امت اس کے قائل ہیں اور دلائل کی روشنی میں یہی مسلک رائج اور صواب ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں۔ 1۔ عن سلمان قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من اغتسل يوم الجمعة و تطهر بما استطاع من طهر ثم ادهن اومس من طيب ثم راح فلم يفرق بين اثنين فصلى ما كتب له ثم اذا خرج الامام انصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى.
(بخاری ج 1 ص 124 )
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس حد تک ہو سکے صفائی کرے۔ پھر تیل لگائے یا خوشبو ہو تو وہ لگائے پھر جمعہ کے لئے جائے تو دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھے پھر جتنی نماز اس کے لئے مقدر ہے پڑھے پھر جب امام خطبہ کے لئے نکل آئے تو خاموش رہے تو ایسے شخص کے اس جمعہ سے اس جمعہ تک کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
2۔ عن ابي هريرة عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال من اغتسل ثم اتى الجمعة فصلى ما قدر له ثم انصت حتى يفرغ من خطبته ثم يصلى معه غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى وفضل ثلاثه ايام ..
( مسلم ج 1م (283)
حضرت ابو ہریرہرضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے غسل کیا پھر وہ جمعہ کے لئے ( مسجد میں ) آیا پھر جتنی نماز اس کے لئے مقدر تھی پڑھی پھر امام کے خطبہ سے فارغ ہونے تک خاموش رہا پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور تین دن مزید کے بھی۔
3۔ عن عطاء الخراساني قال كان نبيشة الهذلي يحدث عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ان المسلم اذا اغتسل يوم الجمعة ثم اقبل إلى المسجد لا يوذى احدا فان لم يجد الامام خرج صلی ما بداله و ان وجد الامام قد خرج جلس فاستمع و انصت حتى يقضى الامام جمعته و كلامه ان لم يغفر له في جمعته تلك ذنوبه كلها ان تكون كفارة للجمعة التي قبلها .
(مسند احمد ج 5 ص 75)
حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرماتے تھے کہ جب مسلمان جمعہ کے دن غسل کر کے مسجد آئے اس طرح سے کہ کسی کو ایذا نہ دے، پھر اگر دیکھے کہ امام ابھی (خطبہ کے لئے ) نہیں نکلا تو جتنی چاہے نماز پڑھتا رہے، اور اگر دیکھے کہ امام نکل آیا ہے تو بیٹھ جائے اور خاموشی سے خطبہ سننے لگے یہاں تک کہ امام خطبہ و نماز سے فارغ ہو جائے تو اگر اس جمعہ کے اس کے سارے گناہ معاف نہ ہوئے تو دوسرے جمعہ کے لئے یہ کفارہ ہو جائے گا۔
4۔ عن ابي هريرة قال قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم اذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الاول فالاول و مثل المهجر كمثل الذي يهدى بدنة ثم كالذي يهدى بقرةثم كبشا ثم دجاجة ثم بيضة فاذا خرج طو واصحفهم ويستمعون الذكر. (بخاری ج 1 ص 127 مسلم ج 1 ص 280)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور شروع میں آنے والوں کے نام یکے بعد دیگرے لکھتے ہیں اور اول وقت دو پہر میں آنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ کے حضور میں اونٹ کی قربانی پیش کرتا ہے پھر اس کے بعد دو نمبر آنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو گائے پیش کرتا ہے پھر اس کے بعد آنے والے کی مثال مینڈھا پیش کرنے والے کی اس کے بعد مرغی پیش کرنے والے کی اس کے بعد انڈا پیش کرنے والے کی جب امام خطبہ کے لئے منبر کی طرف جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے لکھنے کے دفتر لپیٹ لیتے ہیں اور ذکر میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
5۔ عن ابي هريرة أن رسول الله ﷺ قال اذا قلت لصاحبك يوم الجمعة انصت والامام يخطب فقد لغوت.
(بخاری ج 1 ص 127)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموشی رہ اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہاتھا تو تم نے لغوو بیکار کام کیا۔
6۔عن ابن عباس قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من تكلم يوم الجمعة والامام يخطب فهو كمثل الخيار يحمل اسفارا والذي يقوله انصت ليست له جمعة.
( مسند احمد ج 1 ص 230)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام کے خطبہ دینے کی حالت میں جو بات کرے وہ ایسے ہے جیسے گدھے نے کتابیں اٹھارکھی ہو اور جو اس سے کہیے کہ چپ رو تو اس کا جمعہ ہی نہیں۔
7۔ عن ابی عمر قال سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم يقول اذا دخل احد كم المسجد والامام على المنبر فلا صلوة ولا كلام حتى يفرغ الامام ( مجمع الزوئد ج 2 ص 184)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص جب مسجد میں اس وقت داخل ہو جب که امام منبر پر ہو تو اس صورت میں نہ نماز جائز ہے نہ کلام جب تک کہ امام (خطبہ سے ) فارغ نہ ہو جائے۔
8۔ عن ابن شهاب عن ثعلبة بن ابي مالك القرقي انه اخبره انهم كانوا في زمن عمر بن الخطاب يصلون يوم الجمعة حتى يخرج عمر بن الخطاب فاذا خرج عمر وجلس على المنبر و اذن المؤذنون وقال ثعلبة جلسنا نتحدث فأذا سكت البوذنون و قام عمريخطب انصتنا فلم يتكلم منا احد قال ابن اشهاب فخروج الامام يقطع الصلوة وكلامه يقطع الكلام
(موطا امام مالک ص 88)
حضرت ابن شہاب زہری حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے خبر دی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ جمعہ کے دن نماز پڑھتے رہتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تشریف لاتے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لا کر منبر پر بیٹھ جاتے تو موذن اذان کہتے تو ( ثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) کہ ہم بیٹھے بیٹھے بات کر لیا کرتے تھے، پھر جب موذن خاموش ہو جاتے اور حضرت عمر خطبہ کے لئے کھڑے ہو جاتے تو ہم خاموش ہو جاتے اور ہم میں سے کوئی شخص کلام نہ کرتا، حضرت ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام کا نکلنا نماز کو اور اس کا کلام کرنا گفتگو کوختم کر دیتا ہے۔
9۔عن ابن شهاب قال حدثني ثعلبة بن ابي مالك ان قعودالامام يقطع السبحة و ان كلامه يقطع الكلام الحديث
( مسند امام الشافعی ص 139 ج 1) حضرت ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ بھی یہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ امام کا منبر پر بیٹھ جانا نماز کو ختم کر دیتا ہے اور اس کا کلام گفتگو کو ختم کر دیتا ہے۔
10۔ عن ثعلبة بن ابي مالك القرظی قال ادرکت عمر و عثمان رضی اللہ عنہ فكان الامام اذا خرج تركنا الصلوة
(مصنف ابن ابی شیته ج 2 ص 11)
حضرت ثعلبہ بن ابی مالک قرظی میں یہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا( اس دور میں جمعہ کے دن ایسا ہوتا تھا کہ ) جب امام جمعہ کے دن خطبہ کیلئے نکل آتا تو ہم نماز چھوڑ دیتے تھے۔
11۔ عن سائب بن يزيد قال كنا نصلي في زمن عمر يوم الجمعة فاذا خرج عمر وجلس على المنبر قطعنا الصلوة و كنا نتحدث و يحدثونا و ربما نسأل الرجل الذي يليه عن سوقه و معاشه فأذا سكت الموذن خطب ولم يتكلم احد حتى يفرغ من خطبتہ
( رواه الحق بن راہویہ حوالہ نصب الرایہ ج 2 ص 204)
حضرت سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز پڑھتے تھے پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لا کر منبر پر بیٹھے تو ہم نماز بند کر دیتے تھے ، اور لوگ آپس میں بات چیت کر لیا کرتے تھے اور کبھی ہم اپنے قریب کے شخص سے اس کے بازار میں اور معاش کا حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے پھر جب موذن خاموش ہو جاتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دیتے اور ان کے خطبے سے فارغ ہونے تک ہم میں سے کوئی شخص بات نہ کرتا ۔
12۔ عن على قال الناس في الجمعة ثلاث، رجل شهدها بسكون وقار و انصات وذالك الذي يغفر له ما بين الجمعتين قال حسبت قال و زيادة ثلاثة ايام. قال و شاهد شاهد شهدها بلغو فذالك خطه منها ورجل صلى بعد خروج الامام فليست بسنة ان شاء اعطاء وان شاء منعه.
(مصنف عبد الرازق ج 3 ص 210)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جمعہ میں تین قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں، ایک وہ شخص جو جمعہ میں سکون وقار اور خاموشی کے ساتھ حاضر ہوا یہ تو ایسا ہے کہ اس کے جمعہ سے جمعہ تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں راوی کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اور تین دن مزید کے بھی دوسراوہ شخص ہے جو جمعہ میں شریک ہو کر لغو کام کرتا ہے اس کا حصہ تو یہی لغو و بیکار کام ہے، اور تیسرا وہ شخص ہے جس نے امام کے (خطبہ کے لئے) نکلتے کے بعد نماز پڑھی اس کی یہ نماز سنت کے مطابق نہیں ، اللہ چاہے تو اس کو ( ثواب ) دے اور چاہے تو نہ دے۔
13۔ عن الحارث عن على انه كره الصلوة يوم الجمعة والامام يخطب . ( المحمدنة الكبرى ج 1 ص 148 )
حضرت حارث رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جمعہ کے دن
جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
14۔ عن عطاء عن ابن عباس و ابن عمر انهما كانا يكرهان الصلوة والكلام بعد خروج الامام .
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 111) حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ امام کے خطبہ کے لئے نکل آنے کے بعد نماز پڑھنے اور کلام کرنے کو مکروہ جانتے تھے۔
15۔ عن ابن عباس قال سألوه عن الرجل يصلى و الامام يخطب ؛ قال ارایت لو فعل ذالك كلهم كان حسنا . (مصنف عبدالرززق ج 3 ص 245)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے سوال کیا خطبہ کے دوران آدمی نماز پڑھ سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اگر سب ہی پڑھنے لگیں تو کیا یہ ٹھیک ہوگا ؟
16۔ عن نافع قال كان ابن عمر يصلى يوم الجمعة فاذا تحين خروج الامام قعد قبل خروجه.
(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 210) حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن نماز پڑھتے رہتے اور جب امام کے آنے کا وقت ہو جاتا تو اس کے آنے سے پہلے ہی نماز بس کر کے بیٹھ جاتے۔
17۔ عن عقبة بن عامر قال الصلوة والامام على المنير معصية.
(طحاوی ج 1 ص 254)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے (خطبہ کے وقت ) منبر پر ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا گناہ ہے۔
18۔عن هشام بن عروة قال رایت عبد الله بن صفوان دخل المسجد يوم الجمعة وعبد الله بن الزبير يخطب على المنبر و عليه ازار ورداء و نعلان و هو متعمم بعمامة فاستلم الركن ثم قال السلام عليك يا امير المومنين و رحمة الله وبركاته ثم جلس و لم يركع
( طحاوی ج 1 ص 254)
حضرت ہشام بن عروہرحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن صفوان رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد حرام میں اس وقت تشریف لائے جب کہ حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔۔۔۔ اور ان کے جسم پر اس وقت تہبند تھا اور چادر اور نعلین پہنے ہوئے تھے اور عمامہ باندھے ہوئے تھے، انہوں نے آکر حجر اسود کو بوسہ دیا پھر کہا السلام علیک یا امیر المومنین و رحمتہ الله و برکاتہ ، پھر بیٹھ گئے اور سنتیں نہیں پڑھیں۔
19۔ عن توبة العنبري قال قال الشعبي ارايت الحسن حين يحيى و قد خرج الامام فيصلى عمن اخذ هذا لقدرايت شريحاً اذا جاء وقد خرج الامام لم يصل.
(طحاوی ج 1 ص 254)
حضرت توبہ عنبری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے کہ جب وہ جمعہ کے لئے آتے ہیں تو باوجود یہ کہ امام خطبہ کے لئے نکل کر آچکا ہوتا ہے پھر بھی وہ نماز پڑھتے ہیں یہ طریقہ انہوں نے کس سے لیا ہے؟ میں نے تو قاضی شریح کو دیکھا ہے کہ جب وہ جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور امام خطبہ کے لئے نکل کر آچکا ہوتا تو پھر وہ نماز نہیں
پڑھتے تھے۔
20۔ عن الشعبي قال كان شريح اذا اتى الجمعة فان لم يكن خرج الامام صلى ركعتين و ان كان خرج جلس و احتبى واستقبل الامام فلم يلتفت يمينا ولا شمالا .
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 112 مصنف عبدالرزاق ج 3 ص 245)
حضرت امام شبعی ورحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت قاضی شریح ورحمۃ اللہ علیہ جب جمعہ کے لئے تشریف لاتے اور امام ابھی خطلبہ کے لئے نہ نکلا ہوتا تو آپ دو رکعتیں( تحیتہ المسجد) پڑھ لیتے تھے اور اگر امام خطبہ کے لئے آچکا ہوتا تو گوٹھ مار کر بیٹھ جاتے اور امام کی طرف توجہ فرماتے دائیں بائیں التفات نہ فرماتے۔
21۔ عن خالد الحذاء ان ابا قلابة جاء يوم الجمعة و الامام یخطب فجلس ولم یصل
(طحاوی ج 1ص 254)
حضرت خالد حزاء رحمت اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو قلابہ رحمۃ اللہ علیہ جمعہ کے دن مسجد میں تشریف لائے تو امام خطبہ دے رہا تھا آپ بیٹھ گئے اور آپ نے نماز نہیں پڑھی۔
22۔ عن معمر قال سألت قتادة عن الرجل يأتي والامام يخطب يوم الجمعة و لم يكن صلى يصلى ؟ فقال اما انا فكنت جالسا .
(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 245)
حضرت معمر رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت قتادہ رحمت اللہ علیہ سے پوچھا کہ کوئی شخص جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آتا ہے جب کہ امام خطبہ دے رہا ہوتا ہے اور اس شخص نے نماز ( تحیۃ المسجد یا سنت ) نہیں پڑھی تو کیا وہ اس حالت میں پڑھ لے ؟ آپ نے فرمایا کہ بھئی میں تو ایسی صورت میں بیٹھ جاتا ہوں( نماز نہیں پڑھتا )
23۔ عن ابن جريج عن عطاء قال قلت له جئت والامام يخطب يوم الجمعة اتركع ؛ قال امام والامام يخطب فلم اكن ارکع
(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 245)
حضرت ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمت اللہ علیہ سے سوال کیا کہ اگر آپ جمعہ کے دن اس وقت تشریف لائیں جس وقت امام خطبہ دے رہا ہو تو آپ نماز ( تحیۃ المسجد یا سنت ) پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا اگر امام خطبہ دے رہا ہو تو پھر نہیں پڑھوں گا۔
24۔ عن ابى سيرين انه كان يقول اذا خرج الامام فلا يصل احد حتى يفرغ الامام .
(مصنف ابن ابی شیبه شیته ج 2 ص 111)
حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ جب امام خطبہ کے لئے نکل کر آچکا ہو تو پھر اس کے خطبہ سے فارغ ہونے تک کوئی شخص نماز نہ پڑھے۔
25۔ عن هشام بن عروة عن ابيه قال اذا قعد الامام على المنبر فلا صلوة
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 111)
حضرت ہشام بن عروہ رحمت اللہ علیہ اپنے والد حضرت عروہ بن زبیر اور رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب امام خطبہ کےلئے منبر پر بیٹھ جائے تو پھر کوئی نماز جائز نہیں۔
26۔ عن معمر عن الزهرى فى الرجل يحيى يوم الجمعة و الأمام يخطب يجلس ولا يصلى.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 111 طحاوی ج 1 ص 254)
حضرت معمر رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ (انہوں نے فرمایا) جو شخص جمعہ کے دن اس وقت آئے جب کہ امام خطبہ
دے رہا ہو تو وہ بیٹھ جائے نماز نہ پڑھے۔
27۔ عن الزهري عن ابن المسيب قال خروج الامام يقطع الصلوة كلامه يقطع الكلام.
( مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 208 مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 111)
حضرت ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا امام کا خطبہ کے لئے نکلنا نماز کو اور اس کا کلام کرنا گفتگو کوبند کر دیتا ہے۔
28۔ عن ليث عن مجاهدانه کره ان يصلى والامام يخطب
( طحاوی ج 1 ص 255)
حضرت لیث رحمۃ اللہ علیہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ خطبہ کے وقت نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے
29۔ عن ابراهيم قال قيل لعلقمة انتكلم والامام يخطب او قد خرج الامام قال لا
( شرح معانی الاثار ج 1 ص 217)
ابراہیم ورحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ علقمہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ جس وقت امام خطبہ کے لئے نکلے یا خطہ دے رہا ہو۔ اس وقت ہم بات کر سکتے ہیں؟ کہا نہیں۔
رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے کیونکہ یہ اس زمانہ پر محمول ہے جب نماز میں بات کرنا مباح تھا اور جب نماز کے دوران بات کرنا مباح تھا تو دوران خطبہ بات کرنا بھی مباح ہوا اور دوران خطبہ نماز پڑھنا بھی مباح ہوا اس لئے آپ نے اس وقت کے اعتبار سے خطبہ کے دوران تحیتہ المسجد پڑھنے کا حکم دیا تھا لیکن جب آپ نے نماز کی طرح خطبہ کے دوران کلام سے منع فرمادیا تو پچھلا حکم منسوخ ہو گیا اور اب دوران خطبہ تحیۃ المسجد پڑھنا جائز نہ رہا یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ نے دوران خطبہ نماز پڑھنے سے منع کیا ہے اگر یہ حکم منسوخ نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ کس طرح متصور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کام سے منع کریں جس کا جناب رسالت مآب نے حکم دیا ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں