نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 13:ایک رکعت وتر کا حکم


 اعتراض نمبر 13

پیر یدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله : 13

ایک رکعت وتر کا حکم

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن ابی عمر قال قال رسول الله رضی اللہ عنہ صلوة الليل مثنى مثنى فاذا خشی احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توترله ما قد صلى ترجمہ : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دورکعتیں ہیں جب صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت نماز پڑھ لے۔ ( یہ ایک رکعت) اس کی پوری نماز کے لئے وتر ہو جائے گی۔

 (بخاري ج1كتاب الوتر باب ماجاء في الوتر صفحه 135 رقم الحديث 990)

فقه حنفی

الوتر ثلاث ركعات

هداية اولين ج1كتاب الصلوة باب الصلوة الوترص 144 

وتر تین رکعت ہی ہے۔

(فقہ وحدیث ص 52)

جواب

ہر مسلمان جانتا ہے کہ فرائض اور سنت موکدہ کی رکعتیں مقرر ہوتی ہیں ان میں کسی کو اپنی مرضی سے کمی بیشی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا البتہ نوافل کا حساب ایسا ہے کہ جتنا گڑڈالو گے اتنا میٹھا ہوگا جتنے پڑھ لو اتنا ہی ثواب مل جائے گا۔ نماز وتر کے بارہ میں احادیث میں کئی اختلافات ہیں جن میں بعض احکام نفل والے ہیں مثلاً جتنی چاہے رکعتیں پڑھ لینا۔ سواری پر بیٹھ کر وتر پڑھ لینا وغیرہ بعض احکام وجوب کے ہیں کہ تین ہی رکعت پڑھنا سواری پر بیٹھ کر تر جائز نہ ہونا وتروں کی قضا کا ضروری ہونا۔ اب شریعت میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ایک ہی نماز کو کبھی نقل کی نیت سے ادا کر لیا جائے اور کبھی واجب کی نیت سے پڑھ لیا جائے اور نہ صراحتہ کسی حدیث میں یہ ہے کہ پہلے یہ احکام تھے اب یہ ہیں جب یہ صراحت نہ ملی تو بنص حدیث معاذ رضی اللہ عنہ ہی لیا یہاں اجتہاد کی گنجائش نکل آئی مجتہدین نے اجتہاد سے کسی ایک پہلو کو ترجیح دے لی۔ اس بارہ میں احناف یہ کہتے ہیں کہ پہلے وتر افضل تھے اور تہجد میں شامل تھے اس لئے تہجد اور وتر کو ملا کر بیان کر دیا جاتا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ تیرہ وتر ( مع تہجد) پڑھے۔ پھر وتر واجب ہو گئے۔

وتر کے واجب ہونے کا ثبوت

حدیث نمبر :1

عن خارجة بن حذافة قال ابو اليد العدوى قال خرج علينا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان الله قد امدكم بالصلوة هی خير لكم من حمر النعم وهى الوتر فجعلها لكم فيما بين العشاء إلى طلوع الفجر

(ابو داؤد ج 1 ص 201 ، ترمذی ج 1 ص 103 مستدرک حاکم ج 1 ص 306)

حضرت خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی ہے یا تمہارے لئے ایک نماز زائد کی ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے وہ نماز وتر ہے اسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عشاء سے لے کر صبح صادق تک مقرر کیا ہے۔ 

( حاکم و ذہبی نے شرط شیخین پر اس روایت کو صحیح کہا ہے )یہ حدیث حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ(حاکم) ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ( طبرانی)، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ و حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ( دار قطنی ) ، حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ( دار قطنی)، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ( طبرانی) حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ( خلافیات بیہقی ) ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ(دار قطنی فی غرائب مالک) سے مروی ہے اس لئے قاضی ابوزید رحمة الله عليه فرماتے ہیں و ھو حدیث مشہور 

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 3 ص 432)

حدیث نمبر :2

عن ابی ایوب الانصاری قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق واجب على كل مسلم .

(مسند احمد ج ص، صحیح ابن حبان بحواله الدرايه منحة المعبود فی ترتيب مسند الطيالسي ابي داود ج1 ص119، دار قطني ج 2 ص 22) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وتر حق ہیں واجب ہیں ہر مسلمان پر ۔

حدیث نمبر :3

عن عبد الله بن بريدة قال سمعت رسول الله ﷺ يقول الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا الوتر حق فمن لم يوتر فليس منا .

(ابوداو ج 1 ص 201 مستدرک حاکم ج 1 ص 305) 

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فرمار ہے تھے وتر حق (واجب) ہیں۔ جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں، وتر حق (واجب) ہیں جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، وتر حق (واجب) ہیں جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔

حدیث نمبر :4

عن عبد الله عن النبي ﷺ قال الوتر واجب على كل مسلم . (کشف الاستار عن زوائد البوار ج 1 ص 352)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وتر واجب ہیں ہر مسلمان پر۔ 

حدیث نمبر :5

عن عبد الله بن عمر عن النبي ﷺ قال اجعلوا آخر صلوتكم بالليل وتر. ( بخاری ج 1 ص 136 مسلم ج 1 ص 257) 

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی رات کو آخری نماز وتر بناؤ۔

 حدیث نمبر: 6

عن ابن عمر ان النبي ﷺ قال بادروا الصبح بالوتر 

(مسلم ج 1 ص 257) 

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا صبح ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ حدیث نمبر :7

عن ابي سعيد ان النبى صلی اللہ علیہ وسلم وتروا قبل ان تصبحوا . 

( مسلم ج انس (257)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا وتر صبح ہونے سے پہلے پڑھ لیا کرو۔

حدیث نمبر :8

عن جابر قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من خاف ان لا يقوم من آخر الليل فليوتر اوله و من طمع ان يقوم آخره فليوتر آخر الليل فان صلوة آخر الليل مشهودة وذالك افضل.

( مسلم ج 1 ص 258) 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو اسے چاہئے کہ وہ شروع رات ہی میں وتر پڑھ لے اور جسے یہ امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں اٹھ جائے گا تو اسے چاہئے کہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے۔ کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے اور یہ افضل ہے۔

حدیث نمبر 9

عن ابي سعيد قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من نام عن وتره اونسيه فليصله اذا اصبح او ذكره.

(مستدرک حاکم ج 1ص 302 دار قطنی ج 2 ص 22)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص وتر پڑھے بغیر سو جائے یا پڑھنا بھول جائے اسے چاہئے کہ وہ صبح اٹھ کر یا جب یاد آئے وتر پڑھ لے۔

حدیث نمبر :10

عن الاشعت بن قيس قال تضيفت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فقام في بعض الليل فتناول امراته فضربها ثم ناداني يا اشعت قلت لبيك قال احفظ عنى ثلثا حفظتهن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تسئل الرجل فيم يضرب امراته ولا تسأله عمن يعتمد من اخوانه ولا يعتمد هم ولا تنم الاعلى وتر.

(مستدرک حاکم ج 4 ص 175)

حضرت اشعت بن قیس رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےگھر ایک دفعہ مہمان بنا ۔ آپ رات کے کسی حصہ میں اٹھے بیوی کو بلا کر سرزنش کی ، پھر مجھے آواز دی کہ اے اشعت ، میں نے عرض کیا حاضر ہوں فرمایا میری جانب سے تین باتیں یا درکھو، یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سن کر ) یاد کی تھیں۔

1۔ کسی سے یہ نہ پوچھو کہ وہ اپنی بیوی کو کیوں مار رہا ہے۔

2۔ اور کسی سے یہ نہ پوچھو کہ اسے اپنے دوستوں میں سے کس پر اعتماد ہے اور کس پر نہیں۔ 

3۔وتر پڑھے بغیر نہ ہو۔

حدیث نمبر :11

عن ابى تميم الجيشانى ان عمرو بـن العاص خطب الناس يوم جمعة فقال ان ابا بصرة حدثني ان النبي ﷺ قال ان الله زاد كم صلوة و هى الوتر فصلوها فيما بين صلوة العشاء الى صلوة الفجر قال ابو تميم فأخذ بیدی ابوذر فسار فى المسجد الى ابى بصرة فقال له انت سمعت رسول

الله صلی اللہ علیہ وسلم يقول ما قال عمر و قال ابو بصرہ سمعت رسول الله الله صلی اللہ علیہ وسلم

(مسند احمد ج 6 ص 7 مستدرک حاکم ج 3 ص 593)

 حضرت ابو تمیم جیشانی رحمة الله عليه سے روایت ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ لوگوں کو خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک نماز زائد کی ہے جو وتر ہے لہذا تم عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر فجر کی نماز تک کے درمیان درمیان اسے پڑھا کرو، ابو تمیم رحمة الله عليه کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد میں جا کر ابو بصرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ فرماتے سنا ہے جو عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے، حضرت ابو بصرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے۔ 

حدیث نمبر :12

عن عاصم بن ضمرة قال قال على ان الوترليس بحتم كصلوتكم المكتوبة ولكن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم او تر ثم قال يا اهل القرآن اوتروا فان الله وتريحب الوتر .

(مستدرک حاکم ج 1ص 300)

حضرت عاصم بن عمرہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا وتر فرض نماز کی طرح تو ضروری نہیں ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھے پھر فرمایا کہ اے قرآن والو وتر پڑھو بے شک اللہ تعالیٰ وتر ( طاق ) ہیں اور وتر ( طاق عدد) کو پسند فرماتے ہیں۔ 

حدیث نمبر :13

عن مالك انه بلغه ان رجلا سال عبد الله بن عمر عن الوتر اواجب هو فقال عبد الله بن عمر قد او تر رسول الله ﷺ اوتر المسلمون قال جعل الرجل يردد عليه و عبد الله بن عمر يقول قدا و تر رسول الله ﷺ و او ترال مسلمون

 (موطا امام الک ص 109)

حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وتر واجب ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھے اور مسلمان بھی پڑھتے رہے، امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص آپ سے بار بار یہی پوچھتارہا اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وتر پڑھے اور مسلمان بھی پڑھتے رہے۔

حدیث نمبر :14

عن ابي ايوب قال الوتر حق او واجب ۔ 

(مصنت ابن ابی شیبہ ج 2 ص 297) حضرت ابوایوب فرماتے ہیں کہ وتر حق میں یا واجب ہیں۔

حدیث نمبر :15

عن مجاهد قال هو واجب ولم يكتب.

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 297)

حضرت مجاہد فرماتے ہیں وتر واجب ہیں فرض نہیں۔

 حدیث نمبر :16

عن طاؤس الوتر واجب يعاد اليه اذا نسی.

(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 8) حضرت طاؤس رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ وتر واجب ہیں اگر بھولے سے رہ جائیں تو قضاء پڑھے جائیں گے۔

حدیث نمبر :17

عن حماد قال او تر و ان طلعت الشمس

(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 10) حضرت حماد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وتر پڑھو اگر چہ سورج طلوع ہو جائے (یعنی اگر قضاء پڑھنی پڑھے تو پڑھو)

حدیث نمبر :18

عن وبرة قال سالت ابن عمر عن رجل اصبح ولم يوتر قال ارایت لو نمت عن الفجر حتى تطلع الشمس اليس كنت تصلى كانه یقول یوتر

 (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 290 )

حضرت وبرہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص وتر پڑھے بغیر صبح کر دے تو کیا کرے؟ آپ نے فرما یا بتلاؤ اگر تم صبح کی نماز پڑھے بغیر سوتے رہو حتی کہ سورج طلوع ہو جائے تو کیا تم صبح کی نماز نہیں پڑھوں گے گویا آپ یہ فرمارہے تھے کہ وہ شخص وتر پڑھے۔

حدیث نمبر :19

عن الشعبي و عطاء الحسن وطائوس و مجاهد قالوا لا تدع الوتر وان طلعت الشمس.

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 290)

حضرت امام شعبی ، حضرت عطاء ، حضرت حسن بصری، حضرت طاؤس ، حضرت مجاہد رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ وتر کو نہ چھوڑ و اگر چہ سورج طلوع ہو جائے۔

حدیث نمبر :20

عن الشعبي قال لا تدع الوتر ولو تنصف النهار .

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 290) حضرت امام شعبی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وتر کو نہ چھوڑ و اگر چه نصف النہار ہی کیوں

نہ ہو جائے۔

مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ وتر کی نماز واجب ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود فرما رہے ہیں کہ وتر واجب ہیں جیسا کہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کیاحادیث سے واضح ہے، دوسرے متعدد احادیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وتر پڑھنے کا حکم دیا ہے اور یہ قانون ہے کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے جب تک کہ دوسرے معنی مراد لینے کا کوئی قرینہ نہ ہو، تیسرے آپ نے وتر نہ پڑھنے پر وعید فرمائی ہے " جس نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں یہ بھی وجوب کی علامت ہے، چوتھے آپ نے وتر رہ جانے کی صورت میں قضاء کرنے کا حکم دیا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وتر واجب ہیں کیونکہ قضاء فرض واجب ہی کی جاتی ہے، پانچویں آپ نے وتر کی نماز پر مواظبت و مداومت بلا ترک فرمائی ہے۔ اس سے بھی وتر کا وجوب ثابت ہوتا ہے، نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے فرامین سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وتر واجب ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ واجب ہو جانے کے بعد نوافل والے تمام احکام ختم ہو گئے نہ اس کی رکعتوں کی تعداد اپنی مرضی پر رہی اس کا بیٹھ کر پڑھنا خواہ سواری پر ہی ہو جائز رہا۔

وتر تین رکعات واجب ہیں اور وہ مغرب کی نماز کی طرح ہیں

اب رہا یہ سوال کہ کتنی رکعتیں واجب ہوئیں تو ظاہر ہے کہ یہ زیادتی پانچ نمازوں پر ہوئی اور پانچ نمازوں میں سے چار نمازیں جفت ہیں یعنی دو یا چار رکعت ہیں اور صرف ایک ہی نماز طاق (وتر) ہے اور حضور اکرم مثل ہم نے وتر کو مغرب کی نماز کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جب مغرب کی نماز تین رکعات ہے۔ اس لئے وتر بھی تین رکعات ہی ہوں گے۔

حدیث نمبر :1

عن ابي عمر ان النبي ﷺ قال صلوة المغرب وتر النهار فأوتروا صلوة الليل. (مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 28) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا

مغرب کی نمازدن کے وتر ہیں تم رات کی نماز کو وتر بناؤ۔

علامہ عراقی فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے۔

(زرقانی شرح موط ج 1 ص 233)

حدیث نمبر :2

عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، و تر الليل ثلث كوتر النهار صلوة المغرب. (دارقطنی ج 2 ص 28) 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے وتر تین ہیں دن کے وتر یعنی نماز مغرب کی طرح۔

حدیث نمبر :3

عن عائشة قالت قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الوتر ثلث كثلاث المغرب.

(مجمع الزوائد ج 2 ص 242)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وتر کی تین رکعتیں،

مغرب کی تین رکعتوں کی طرح۔

نوٹ: یہ تینوں روایتیں مرفوع ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں جن میں صاف تصریح ہے کہ وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح ہے۔

حدیث نمبر :4

عن عبدالله بن مسعود قال الوتر ثلث كوتر النهار صلوة المغرب.

( طحاوی ج 1 ص 202)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر کی تین رکعات ہیں دن کے وترمغرب کی نماز کی طرح ۔

حدیث نمبر :5

عن عبد الله بن مسعود قال الوتر ثلث كصلوة المغرب۔

(موطا امام محمد ص 142) 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں مغرب کی نماز کی طرح۔

حدیث نمبر :6

عن عبد الرحمن بن يزيد قال قال بن مسعود وتر الليل كوتر النهار صلوة المغرب ثلثا ۔ 

(معجم طبرانی کبیر ج 9 ص 272) حضرت عبدالرحمن بن یزید رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رات کے وتروں کے وتر نماز مغرب کی طرح تین ہیں۔

حدیث نمبر :7

عن عقبة بن مسلم قال سألت ابن عمر عن الوتر فقال اتعرف وتر النهار قلت نعم صلوة المغرب قال صدقت و احسنت

(طحاوی ج 1 ص 192)

حضرت عقبہ بن مسلم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وتروں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تم دن کے وتر جانتے ہو میں نے کہا جی ہاں نماز مغرب آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا اور خوب کہا۔

حدیث نمبر :8

عن عطاء قال ابن عباس د الوتر كصلوة المغرب.

(موطا امام محمد ص 142)

حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا وتر مغرب کی طرح ہیں۔

حدیث نمبر : 9

عن الحس قال كان ابي بن كعب يوتر بثلاث لا يسلم الا في الثالثة

مثل المغرب.

(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 26) حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فر ماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وتر تین رکعات پڑھا کرتے تھے اور سلام فقط تیسری رکعت میں پھیرتے تھے مغرب کی طرح۔

حدیث نمبر :10

عن ابى خالدة قال سألت ابا العالية عن الوتر فقال علمنا اصحاب محمد او علمونا ان الوتر مثل صلوة المغرب غير انأنقرا في الثالثة فهذا وتر الليل وهذا وتر النهار

(طحاوی ج 1 ص 202)

حضرت ابو خالدہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو العالیہ رحمۃاللہ علیہ سے وتر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں حضرت محمد ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تعلیم دی یا فرمایا کہ انہوں نے تعلیم دی ہے کہ وتر مغرب کی نماز کی طرح ہیں سوائے اس کے ہم وتر کی تیسری رکعت میں بھی قرات کرتے ہیں یہ رات کے وتر ہیں اور وہ (مغرب) دن کے وتر ہیں۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب وتر واجب ہوئے تو اس کی تین رکعت مقرر ہو گئیں جیسے نماز مغرب کی تین ہی رکعتیں ہیں اور وہ دو التحیات اور ایک سلام سے پڑھی جاتی ہیں اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خود عمل کرتے رہے اور یہی طریقہ اپنے کو بتاتے رہے اور اس پر بلاتردد انکار خیر القرون میں عمل جاری رہا۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ جن احادیث میں مضمون مختلف آئی ہے وہ اس دور کی ہیں جب وتر نفل تھے۔

تین رکعات وتر کی مزید روایات

1۔ عن ابي سلمة بن عبد الرحمن انه اخبره انه سال عائشة درن كيف كانت صلوة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في رمضان فقالت ما كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیره على احدى عشرة ركعة يصلى اربعاً فلا تسئل عن حسنهن وطولهن ثم يصلى اربعا فلا تسئل عن حسنهن وطولهن ثم يصلى ثلثا الحديث. 

( بخاری ج 1 ص 154 مسلم ج ا س 254 زبانی ج اس 191)

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی سعید رحمۃاللہ علیہ مقبری رحمۃاللہ علیہ کو خبر دی کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعتیں پڑھتے کچھ نہ پوچھو کہ وہ کتنی حسین و طویل ہوتی تھیں، پھر چار رکعتیں پڑھتے کچھ نہ پوچھو کتنی حسین اور طویل ہوتی تھیں پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔

 2۔ عن عبدالله بن عباس انه رقد عند رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فاستقيظ فتسوك و توضأ وهو يقول ان في خلق السموت والارض و اختلاف الليل والنهار لایت لاولى الباب فقرا هولاء الايات حتى ختم السورة يم قام فصلى ركعتين فاطال فيهما . القيام والركوع والسجود ثم انصرف فنام حتى نفخ ثم فعل ذالك ثلث مرات ست ركعات كل ذالك يستاك ويتوضأ ويقراھولاء الایات ثم اوتربثلث الحدیث۔

(مسلم ج1 ص 261)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس( اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہاکے گھر میں) سوئے ، آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم رات کو بیدار ہوئے مسواک کی وضو کیا اور یہ آیات تلاوت فرمائیں ان فی خلق السموات والارض واختلاف الليل والنهار لايات لاولی الباب سورۃ کے ختم تک پھر آپ کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ دونوں رکعتوں میں قیام، رکوع اور سجود کو خوب لمبا کیا پھر آپ فارغ ہو کر سو گئے یہاں تک کہ خراٹے بھرنے لگے، آپ نے یہ عمل تین بار کیا، سو کر اٹھتے مسواک اور وضو کر کے دو رکعت ادا فرماتے اور ہر دفعہ سورہ آل عمران کی آخری آیات تلاوت فرماتے اس طرح چھ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائیں پھر تین رکعات وتر پڑھے۔

3۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی من اللیل ثمان ویوتر بثلث وصلی رکعتین قبل صلوة الفجر۔

(نسائی ج1 ص 192)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو پہلے آٹھ رکعات پڑھتے پھر تین رکعات وتر پڑھتے۔ پھر دورکعت (سنت) فجر کی نماز سے پہلے پڑھتے۔ 

4۔ عن عامر الشعبي قال سألت ابن عباس و ابن عمر کیف كان صلوة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بالليل فقالا ثلث عشرة ركعة ثمان ویوتر بثلث و ركعتين بعد الفجر .

( طحاوی ج 1 ص 192)

 حضرت امام شبعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کو نماز کیسی ہوتی تھی۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے پہلے آٹھ رکعات (تہجد) پھر تین رکعات وتر پھر دو رکعت (سنت) صبح

صادق کے بعد ۔

5۔ اخبرنا ابو حنيفة حدثنا ابو جعفر قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ما بين صلوة العشاء الى الصلوة الصبح ثلث عشرة ركعة ثمان ركعات تطوعا ثلث ركعات الوتر و ركعتي الفجر 

(موطا امام محمد ص 145)

 حضرت امام محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے خبر دی اور وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت ابو جعفر رحمۃاللہ علیہ نے حدیث بیان کی ، فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر صبح کی نماز تک کے درمیان تیرہ رکعات پڑھا کرتے تھے آٹھ رکعات نفل ( تہجد ) تین رکعات وتر اور دورکعت فجر کی سنت۔

6۔ عن عمرة عن عائشة ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كان يوتر بثلث يقرا في الركعة الأولى يسبح اسم ربك الاعلى وفي الثانية قل يا ايها الكفرون و في الثالثة قل هو الله احد و قل اعوذ برب الفلق و قل اعوذ برب الناس.

(دارقطنی ج 2 ص 35 طحاوی ج 1 ص 196 مستدرک حاکم ج 1 ص 305) 

حضرت عمرة رحمۃاللہ علیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے ، پہلی رکعت میں سبح اسم ربك الاعلى دوسری میں قل یا ایها الكفرون اور تیسری میں قل هو الله احده قل اعوذبرب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے تھے۔ 

7۔ عن على قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوتر بثلث يقرا فيهن بتسع سور من المفصل يقرا في كل ركعة بثلث سود آخر ھن قل الله احد (ترمذی ج 1 ص 106)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر تین رکعات پڑھا کرتے تھے۔ تینوں رکعتوں میں ( قصار) مفصل کی نوسورتیں پڑھتے تھے۔ 

ہررکعت میں تین سورتیں پڑھتے سب سے آخر سورۃ قل ھو اللہ احد ہوتی تھی۔ 

8۔ عن ابن عباس قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يقرا في الوتر بسبح اسم ربك الاعلى و قل يا ايها الكفرون و قل هو الله احد فی ركعة ركعة. 

( ترمذی ج 1 ص 106)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں سبح اسم ربك الا على، قل یا ایها الكفرون اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرتےتھے ہر سورت ایک رکعت میں۔

9۔ عن عبد الرحمن بن ابزى انه صلى مع النبي صلی اللہ عليہ وسلم الوتر فقرا في الاولى بسبح اسم ربك الاعلى و فى الثاية قل يا ايها الكفرون وفى الثالثة قل هو الله احد فلما فرغ قال سبحان الملك القدوس ثلثا بعد صوته بالثاثة.

طحاوی ج 1 ص 201 مسند احمد ج 3 ص 406 نسائی ج 1ص 196 ) حضرت عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وتر کی نماز پڑھی تو آپ نے پہلی رکعت میں سبح اسم ربك الاعلى دوسری میں قل یا ایھا الکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھی، جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے تین بار یہ کلمات کہے سبحان الملك القدوس اور تیسری مرتب آواز بلند کی۔

10۔ عن ابي بن كعب قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يوتر بسبح اسم ربك الاعلى و قل يا ايها الكفرون و قل هو الله احد .

(نسائی ج ج1 ص 194 ابو داؤدج 1 ص 201 ابن ماجہ ص 83 مسند احمد ج 5 ص 123)

 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سبح اسم ربك الاعلى قل يا ايها الكفرون اور قل ھو اللہ احد کے ساتھ وتر کی نماز ادافرماتے تھے۔

11۔ عن عبد العزیز بن جریج قال سالت عائشة ام المومنين بای شی کان يوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت كان يقرا فی الاولى بسبح اسم ربك الاعلى وفى الثانية بقل يا ايها الكفرون وفى

الثالثة بقل هو الله احد والمعوذنين. (مسند احمد ج 1 ص 227 ترمذی ج 1 ص 106 . ابو داؤدج 1 ص 201. ابن ماجہ ص 83)

حضرت عبد العزیز بن جریح رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے آپ نے فرمایا پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری میں قل یا ایها الكفرون اور تیسری میں قل هو الله احد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وتر تین رکعات پڑھتے تھے

12۔ عن عمر بن الخطاب انه قال ما احب انى تركت الوتربثلث و ان لى حمر النعم.

(موطا امام محمد 145)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے پسند نہیں کہ میں تین رکعات وتر چھوڑ دوں چاہے مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ کیوں نہ ملیں۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ وتر تین رکعات پڑھتے تھے۔

13۔ عن زاذان ان عليا كان يوتر بثلث من آخر الليل قاعدا 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 295 )

حضرت زاذان سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ وتر تین رکعات پڑھا کرتے تھے رات کے آخری حصہ میں بیٹھ کر۔

14۔ عن زاذان عن على انه كان يوتر بانا انزلناه في ليلة القدر واذا زلزلت الارض وقل هو الله احد 

(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 34) حضرت زادان رحمۃاللہ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ وتروں میں ان انزلناه فى ليلة القدر ، اذا زلزلت الارض اور قل هو الله احد پڑھا کرتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تین رکعات وتر کے قائل تھے

15۔عن علقمة قال اخبرنا عبداللہ بن مسعود اهون مایکون الوتر بثلث رکعات 

(موطا امام محمد ص 146)

حضرت علقمہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں خبر دی ہے کہ وتر کی کم سے کم تین رکعات ہیں 

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی تین رکعات وتر پڑھتے تھے: 16۔ عن ابى يحيى قال سمر المسور بن مخرمة و ابن عباس حتى طلعت الحمراء ثم نام ابن عباس فلم يستقيظ الا بأصوات اهل الزوراء فقال لا صحابه اترونى ادرك اصلى ثلثا يريد الوتر و ركعتي الفجر وصلوة الصبح قبل ان تطلع الشمس فقالوا نعم فصلى و هذا في آخر وقت الفجر

( طحاوی ج 1س 199)

 حضرت ابو یحی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت مسور بن مخرمہ رحمۃاللہ علیہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ رات کو باتیں کرنے لگے ، یہاں تک سرخ ستارہ ( جو صبح صادق سے پہلے نکلا کرتا ہے ) نکل آیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سو گئے اور پھر اہل زوراء کی آوازوں کی وجہ سے بیدار ہوئے آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کیا خیال ہے کی مجھے اتنا وقت مل جائے گا۔ کہ میں سورج نکلنے سے پہلے پہلے تین رکعات وتر ، دو رکعت سنت اور فجر کی نماز پڑھ سکوں ، انہوں نے کہا جی ہاں ، چنانچہ آپ نے ( یہ تمام ) نماز پڑھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کایہ سوال فجر کے اخیر وقت میں تھا۔

17۔ عن ابی منصور قال سألت عبداللہ بن عباس عن الوتر فقال ثلث 

(طحاوی ج 1 ص 199 ) 

حضرت ابو منصور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے وتروں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا تین رکعات) 

حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی تین رکعات پڑھتے تھے

18۔ عن انس قال الوتر ثلث ركعات و كان يوتر بثلث ركعات.

(طحاوی ج1 ص 202)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعات ہیں اور آپ وتر تین رکعات ہی پڑھتے تھے۔ 

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی وتر تین رکعات پڑھتے تھے 19۔ عن السائب بن يزيد ان ابي بن كعب كان يوتر بثلث. 

(مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 36) 

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ وترتین رکعات پڑھتے تھے۔

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی و تر تین رکعات پڑھتے تھے

20۔ عن ابي غالب ان ابا امامة كان يوتر بثلث. 

(طحاوی ج 1 ص 200

 مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 293) حضرت ابو غالب رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ وتر تین رکعات پڑھتے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃاللہ علیہ بھی وتر تین رکعات پڑھتے تھے

21۔ عن سعيد بن جبير انه كان يوتر بثلث ويقنت في الوتر قبل الزكوع مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 294 ) حضرت سعید بن جبیر رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ وہ وتر تین رکعات پڑھتے تھے اوردعاء قنوت وتر میں رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔

حضرت علقمہ رحمۃاللہ علیہ بھی تین رکعات وتر کے قائل تھے 

22۔ عن علقمه قال الوتر ثلث.

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 294 )

حضرت علقمہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وتر تین رکعات ہیں۔ 

آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تین رکعت وتر میں تین سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ (جیسا کہ بعض روایات اوپر ذکر کی گئی ہیں ) یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت نعمان بن بشر رضی اللہ عنہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ،حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے ادھر عہد فاروقی رضی اللہ عنہ سے بیسں تراویح اور تین وتر پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہو گیا یہی اجماع حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے اور بعد میں بھی قائم رہا۔

لہذا تین رکعت کے علاوہ جتنی رکعات کا ذکر احادیث میں آتا ہے وہ اجماعا متروک العمل ہیں۔ 

رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے جونماز پڑھی ہے اس کے ساتھ ایک اور رکعت پڑھ لے جس سے ساری نماز وتر ( یعنی طاق) بن جائے گی۔

مولانا منظور احمد سیالکوٹی لکھتے ہیں۔

توتر له ما قد صلی وہ اس کی پہلے پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی یعنی دو رکعت کے ساتھ تیسری ملائیں تو تین وتر ہو جائیں گے۔ پس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ اس ایک رکعت کو دوسری نماز سے جدا کر کے صرف ایک ہی کے طور پر پڑھا جائے گا۔ جب کہ صحاح میں موجود ہے کہ صلاۃ اللیل دو دو رکعت ہے اور جب طلوع فجر کا خوف پیدا ہو جائے تو دو کے ساتھ ایک ملائی جائے۔

(فضل المعبود شرح ابی داؤد ج 2 ص 473)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں۔ 

و استدل بقوله صلی اللہ علیہ وسلم صلى ركعة واحدة على ان فصل الوتر افضل من وصله و تعجب بأنه ليس صريحا فى الفصل فيحتمل ان يريد بقوله صلى ركـ ركعة واحدة اے مضافة الى الركعتين مما مضى.

(فتح الباری ج 2 ص 181)

 پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ جس دور میں نماز میں سلام کلام جائز تھا اس وقت وتروں میں بھی کلام ہوتا تھا دور کعت الگ اور ایک وتر الگ پڑھتے تھے اس طرح بعض راوی اس کو تین رکعت روایت کرتے بعض ایک رکعت ورنہ شفع کے بغیر صرف ایک رکعت پڑھنا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے ہرگز ثابت نہیں۔

 چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں وتر کی روایات کی کثرت کے باوجود ہمیں معلوم نہیں کہ کسی روایت میں یہ آتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے کبھی صرف ایک رکعت وتر پڑھا ہو)

(تلخيص الحبير ج 2 ص 115)

2۔ حالانکہ حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

عن ابي سعيد الخدري ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن البتيرا ان يصلى الرجل واحدة يوتربها

( رواه ابن عبد البرقي التحميد بحوالہ اعلاء السنن ج 2 ص 40)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بتیر ا سے منع

فرمایا ہے یعنی اس سے کہ آدمی ایک رکعت وتر پڑھے۔

عن محمد بن كعب القرظي ان النبي صلی اللہ عليہ وسلم مرة نهى عن البتير

(زیلعی ج 1 ص 303 و هو مرسل معتضد )

محمد بن کعب بھی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بتیراسے منع فرمایا۔

 دور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ میں ان ہی احادیث ( جن میں تین رکعات کا ذکر ہے ) کے موافق عمل جاری تھا ایک وتر کا کوئی رواج نہ تھا اگر شاذ و نادر کوئی ایک رکعت پڑھتا تو اس پر انکار ہوتا اور لوگ تعجب سے اس کو دیکھتے وہ ان کے انکار کے جواب میں کوئی حدیث پیش نہ کر سکتا۔ ہمارا غیر مقلدین سے یہی مطالبہ ہے کہ ہم ایسے واقعات احادیث صحیحہ سے پیش کریں گے کہ ایک وتر پڑھنے والے پر شدید انکار ہوا۔ اور غیر مقلدین یہ ثابت کریں گے کہ جن پر انکار ہوا انہوں نے فلاں صحیح حدیث سے ان کے سامنے ایک وتر پڑھنا ثابت کیا ہے۔

1۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرما یا اهون ما يكون الوتر ثلاث ركعات

(موطا امام مریض 150) 

کم از کم وتر کی رکعتیں تین ہیں۔ یہ ایک رکعت وتر کا صریح انکار ہے۔ اب غیر مقلدین ثابت کریں کہ کسی نے ان کے سامنے حدیث سے ایک وتر کا ثبوت پیش کیا ہو۔

2۔ پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صراحہ کھل کر فرمایا ما اجزات ركعة واحدة قط (موطا امام محمد ص 150)

 کہ (وتر) کی ایک رکعت کبھی کافی نہیں ہوسکتی اس وقت کوفہ میں سینکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہزاروں تابعین رحمہم اللہ تعالٰی موجود تھے کسی نے ایک حدیث بھی ان کے رد میں پیش نہ کی۔ 

3۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک رکعت ہر گز جائز نہیں و عاب ذلك على سعد اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو معیوب قرار دیا۔ ( طحاوی ج 1 ص 203)

مگر حضرت سعد رضی اللہ عنہ ایک بھی حدیث ان کے مقابلہ میں پیش نہ کر سکے ( حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ پہلے زمانے کا ہے)

4۔ حضرت عبد اللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کوفے میں ایک وتر پڑھا میں ان کے پیچھے چلا اور ان کا بازو پکڑ لیا اور پوچھا یا ابا اسحاق ماهذه الركعة یہ رکعت کیا ہے۔

(طحاوی ج 1 ص 203)

اس سے معلوم ہوا کہ شاذ قراتوں کی طرح ایک وتر کولوگ برے اجنبی کی طرح بڑے دیکھتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ عبد اللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی کوئی حدیث پیش نہیں کر سکے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...