نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 14: صلاۃ کسوف ( سورج اور چاند گرہن کی نماز )میں ایک سے زائد رکوع ہونے کا بیان۔


 اعتراض نمبر14

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله :14

 صلاۃ کسوف ( سورج اور چاند گرہن کی نماز )میں ایک سے زائد رکوع ہونے کا بیان۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عائشة قالت ان الشمس خسفت على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فبعث مناديا الصلاة جامعة فتقدم و صلى اربع ركعات في رکعتین و اربع سجدات

 ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب سورج گرہن ہوا تھا تو آپ نے منادی کرا کے دو رکعتیں نماز پڑھائی۔ ہر ایک رکعت میں دو دورکوع کئے۔

(بخاري ج 1ابواب الكسوف باب الجھر بالفرائة في الكسوف صفحه 145، رقم الحديث 1066)

(مسلم ج 1 كتاب الكسوف فصل صلوة الكسوف ركعتان بار رکعت . رقم الحديث 2089)

(واللفظ للبخاري)

فقه حنفی

اذا انكسفت الشمس صلى الامام بالناس ركعتين كهيئة النافلة في كل ركعة ركوع واحد 

هداية اولين ج1كتاب الصلوة باب صلاة الكسوف ص 175 

جب سورج گرہن ہو جائے تو امام لوگوں کو عام نفلی نماز کی طرح دورکعتیں پڑھاء ہر رکعت میں ایک رکوع کرے۔ 

(فقہ وحدیث ص 53)

جواب:

آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے صلوۃ کسوف میں کئے گئے رکوعوں کی تعداد کے متعلق مختلف روایات کتب حدیث میں منقول ہیں۔ مثلاً

1۔ پانچ رکوع کرنے کی روایت

عن ابي بن كعب قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وان النبي صلی اللہ عليہ وسلم صلى بهم فقرا سورة من الطول وركع خمس رکعات و سجد سجدتين ثم قام الثانية فقراء سورة من الطول وركع خمس ركعات و سجد سجدتين ثم جلس كم هو مستقبل القبلة يدعو حتى انحلى كسوفها.

(ابو داؤد ج 1 ص 167)

 حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو نماز پڑھائی اور لمبی سورتوں میں سے ایک سورت پڑھی اور پانچ رکوع کئے اور دو سجدے کئے۔ پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہوئے تو لمبی سورتوں میں سے ایک پڑھی اور پانچ رکوع کئے اور دو سجدے کئے پھر اسی طرح قبلہ رخ بیٹھ گئے اور دعا کرتے رہے حتی کہ سورج گرہن جاتا رہا۔ اس حدیث میں ہر رکعت کے اندر پانچ رکوع کا ذکر ہے۔

2۔ چار رکوع کرنے کی روایت

عن ابن عباس : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حين كسفت الشمس ثمان ركعات في اربع سجدات وعن على مثل ذلك.

( مسلم ج 1 ص 299 نسائی ج 1 ص 215) 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس کی مثل مروی ہے۔

3۔ تین رکوع کرنے کی روایت

عن عائشة ان النبي صلى ست ركعات في اربع سجدات قلت لمعاذ عن النبي صلى الله علیه وسلم قال لا شك ولا مرية. 

( نسائی ج 1 ص 215)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ رکوع کئے چار سجدے کئے پھر میں نے معاذ رضی اللہ عنہ کو کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے (یعنی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ) ارشاد فرمایا کہ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں۔

4۔دو رکوع کرنے کی روایت

عن عائشه رضی اللہ عنہا قالت ان الشمس خسفت على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فبعث مناديا الصلوة جامعة فاجتمعوا و تقدم فكبر وصلى اربع ركعات في ركعتين واربع سجدات 

(مسلم ج 1 ص 297-296)

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عہد رسالت میں سورج گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک منادی کو بھیجا کہ نماز تیار ہے۔ سب مسلمان جمع ہو گئے آپ نے آگے بڑھ کر تکبیر کہی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدوں کےساتھ نماز پڑھائی۔ 

نوٹ :یه روایت راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔

ایک رکعت میں ایک رکوع کرنے کی روایات 

یعنی امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ کے نظریہ کی تائید کرنی والی عبارت

1۔ عن عبد الله بن عمر و قال انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقام رسول الله صلى الله علیه وسلم يم يكد يركع ثم ركع فلم يكد يرفع ثم رفع فلم يكد يسجد ثم سجد فلم يكا يرفع ثم رفع يلم يكد يسجد ثم سجد فلم يكد يرفع ثم رفع وفعل في الركعة الأخرى مثل ذلك.

 (الحديث)

 حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے (صلوۃ کسوف) کا قیام اس قدر طویل کیا کہ لگتا تھا کہ آپ رکوع نہیں کریں گے پھر آپ نے رکوع کیا تو لگتا تھا کہ رکوع سے سر نہیں اٹھائیں گے پھر قومہ کیا تو لگتا تھا کہ سجدے میں نہیں جائیں گے پھر سجدہ کیا تو لگتا تھا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھا ئیں گے پھر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھی۔

(ابو داؤ د ج 1 ص 169 شمائل ترمذی ص 23 موارد الظمان ص 157)

 اس حدیث میں امام ابو حنیفہ نوراللہ مرقدہ کے موقف کی واضح تصریح موجود ہے کہ صلوۃ کسوف میں ایک قیام ایک قراۃ اور ایک رکوع ہے۔

2۔ حدثني ثعلبة بن عباد العبدى من اهل البصرة انه شهد خطبة يوم لسمرة بن جندب قال قال سمرة بينما انا و غلام من الانصار نرمى غرضين لينا حتى اذا كانت الشمس قيدر فحين او ثلثة في عين الناظر من الافق اسودت حتى اضيت كأنها تنومة فقال احدنا لصاحبه انطلق بنا الى المسجد فوا الله ليحدثن شان هذه الشمس لرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فى امنه حدثاً قال فدفعنا فاذا هو بارز فاستقدم فصلی فقام بنا کا طول ما قام بنا في صلوة قط لا نسمع له صوتا قال ثم ركع بنا كا طول ماركع بنا في صلوة قط لا نسمع له صوتاً قال ثم سجد بنا كا طول ما سجد بنا في صلوة قط لا نسمع له صوتأ ثم فعل في الركعة الأخرى مثل ذلك الحديث

 (سنن ابودار دوج 1ص 168 نسائی ج 1 ص 153 مسند احمد جلد 2 ص 198 جلد 5 ص 16 مستدرک حاکم جلد 1ص 033) 

حضرت ثعلبہ بن عباد عبدی رضی اللہ عنہ جو بصرہ کے رہنے والے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ایک دن خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ ایک دن میں اور انصار کا ایک لڑکا اپنے دو نشانوں پر تیر پھینک رہے تھے یہاں تک کہ جب دیکھنے والے کے لئے سورج افق سے دو یا تین نیزے پر بلند ہوا تو وہ سیاہ ہو گیا یہاں تک کہ گویا وہ تنومہ کی بوٹی بن گی ہم میں سے ایک نے دوسرے کو کہا که چلو مسجد میں چلیں کیونکہ واللہ اس سورج کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے کوئی نیا معاملہ ہو گا۔ سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھاگے تو دیکھا کہ رسول اللہ سلیم گھر سے باہر تھے پس آپ آگے بڑھے اور نماز پڑھائی اور اتنا لمبا قیام فرمایا کہ اس کے علاوہ کسی اور نماز کے لئے مشکل ہی ایسا قیام فرمایا ہو گا۔ ہم آپ کی آواز نہ سنتے تھے۔ پھر رکوع فرمایا تو اتنا لمبا کہ کسی نماز میں بمشکل ہی اتنا طویل رکوع کیا ہوگا ہم آپ کی آواز نہ سنتے تھے۔ سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا پھر آپ نے بہت لمبا سجدہ کیا جو کسی نماز کے طویل ترین سجدہ میں کیا گیا ہو گا۔ ہم آپ کی آواز نہ سنتے تھے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا۔ اس حدیث میں ایک رکعت میں ایک رکوع کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ 

3۔ عن النعمان بن بشير ان النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال اذا خسفت الشمس والقمر فصلوا كأحدث صلوة صليتموها من الكمتوبة

 (امام احمد بن حنبل متوفی 241) (مسند احمد ج 4 ص 271 مطبوعه كتب الاسلامی، بیروت، الطبقه الاولى 1326)

 حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج اور چاند کو گہن لگ جائے تو قریب کی پڑھی ہوئی فرض نماز کی مثل نماز پڑھو۔ 

4۔ عن ابي بكرة قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فانكسفت الشمس فقام الى المسجد يجر ردائه من العجلة فقام اليه الناس فصلى ركعتين كما تصلون. الحديث

(سنن نسائی ج 1 ص 54 مطبوعہ نور محمد کارخانه تجارت کتب کراچی)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے

 اچانک سورج کو گہن لگا آپ جلدی سے چادر گھسیٹتے ہوئے اٹھے لوگ بھی کھڑے ہو گئے پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی جس طرح تمام ( عام ) نماز پڑھتے ہو۔

5۔ عن عبد الرحمن بن سمرة قال كنت ارمى بأسهم لي بالمدينة في حياة رسول الله ﷺ اذا كسفت الشمس فنبذتها . و قلت والله لا نظرت الى ما حدث رسول الله علي في كسوف الشمس قال فأتيته وهو قائم في الصلوة رافع يديه فجعل يسبح و محمد و يهلل و بكير ويدعو حتى حسر عنها فلما حسر عنها قراء سورتین و صلى ركعتين .

(صحیح مسلم ج اص 299)

حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ میں مدینہ منورہ میں تیراندازی کر رہا تھا۔ اچانک سورج کو گہن لگ گیا میں نے سوچا کہ دیکھتا ہوں کہ سورج کو گہن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نیا کام کرتے ہیں۔ میں تیر پھینک کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جس وقت میں آیا تو آپ نماز میں کھڑے ہوئے تھے آپ نے رفع یدین کیا تسبیح اور حمد پڑھی لا الہ الا اللہ پڑھا، تکبیری پڑھی اور دعا مانگی حتی کہ سورج صاف ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ نے سورج صاف ہونے پر دو رکعت میں دو سورتیں پڑھی تھیں۔ اس حدیث میں بھی امام ابوحنیفہ نوراللہ مرقدہ کے موقف پر واضح دلالت ہے کیونکہ کسوف کی نماز میں حضر عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے دورکعت نماز کا ذکر کیا ہے جو ان دورکعات پر محمول ہوں گی جو نماز کی متعارف دو رکعات میں علامہ نووی کا اس حدیث کے اندر ایک رکعت میں دورکوع کی قید لگانا بے سود اور باطل ہے۔ 

6۔ عن قبيصة الهلالي قال كسفت الشمس على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فخرج فزعا ثوبه و انا معه يومئذ بالمدينة فصلى ركعتين فأطال فيهما القيام ثم انصرف و انجلت فقال انما هذا الايات يخوف الله عز وجل بها فاذا رایتموها فصلوا كاحدث صلوة صليتموها من المكتوبة.

(سنن ابو داؤدج اس 168)

حضرت قبیصہ ہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج کوگہن لگ گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر کپڑا گھسیٹتے ہوئے نکلے میں اس وقت مدینہ میں تھا آپ نے دورکعت نماز پڑھی جن میں لمبا قیام کیا پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے اور سورج صاف ہو گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان نشانیوں کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو قریب کی پڑھی ہوئی فرض نماز کی طرح نماز پڑھو۔

 حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرح اس روایت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ کسوف کو فرائض کی طرح پڑھنے کا حکم دیا ہے اور فرائض میں ہر رکعت کے اندر ایک قیام ایک قرات ور ایک رکوع ہوتا ہے۔ اور یہ تمام احادیث امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے موقف پر واضح دلیل ہیں کہ صلوۃ کسوف میں یک رکعت کے اندر دور کوع نہیں ہوتے۔

8۔ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی عقلی دلیل 

 امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صلوۃ کسوف نفل ہے اور جس طرح اور نوافل ایک قیام ایک قراۃ اور ایک رکوع کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں اسی طرح صلوۃ کسوف بھی ایک قیام، ایک قراۃ اور ایک رکوع کے ساتھ اصل کے مطابق پڑھی جائے گی۔

احناف نے ان تمام روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ در حقیقت نماز کا اصلی طریقہ یہ ہے صرف ایک رکوع کیا جائے(جیسا کہ ایک رکوع کرنے کی روایت اوپر نقل کی گئی ہیں ) اور ایک سے زائد جورکوع روایات میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے منقول ہیں تو وہ صلوة كسوف کے جز کی حیثیت سے نہیں بلکہ محض اظہار عاجزی کے لئے کئے گئے تھے اور ان کا طریقہ بھی عام نمازوں کے رکوع سے کچھ مختلف تھا 

طمانچہ علامہ کاسانی بدائع الصنائع ج1 ص 281 میں لکھتے ہیں 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ کسوف میں دورکوع اس لئے نہیں کئے کہ اس میں دورکوع ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک خاص کیفیت طاری تھی یہی وجہ ہے کہ کبھی آگے بڑھتے اور کوئی چیز پکڑنا چاہتے کبھی پیچھے ہٹتے یہ

ساری کاروائی اسی کیفیت کا نتیجہ تھی۔ 

چنانچہ جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نماز کسوف کے اصل طریقہ کو بیان کرنا چاہا انہوں نے ایک رکوع کی روایت کر دی اور جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی نماز کی تفصیلی ہیئت بیان کرنا چاہی انہوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق دو۔ تین، چار، پانچ رکوعوں کی روایت کردی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نماز کسوف پڑھنے کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ:

 جب تم سورج گرہن یا چاند گرہن کو دیکھو تو نماز پڑھو جیسی قریب ترین فرض نماز ( فجر ) ہم نے پڑھی ہے۔

 ( نسائی ج 1 ص 219 ، ابوداودج 1 ص 168)

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور حضرت قبصیہ ہلالی رضی اللہ عنہ کی دو روایات میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا تو ان دونوں نے صلوۃ کسوف ایک ہی رکوع کے ساتھ ادا کی( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی روایت مسند احمد ابو یعلی موصلی، مسند بزار طبرانی کبیر کے حوالہ سے علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد جلد 2 ص 206 میں نقل کی ہے۔

اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی روایت امام طحاوی نے جلد 1 ص 163 میں نقل کی ہے۔ 

ان دونوں روایتوں سے بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے مذہب کی تائید ہوتی ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے جواب کی اب الگ سے ضرورت تو نہیں تھی کیونکہ ہم نے جو اوپر تطبیق ذکر کی ہے اس سے اس کا جواب ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہاں پر اس کا جواب نقل کرتے ہیں۔ علمائے احناف کی طرف سے اس کے کئی جواب دیئے گئے ہیں ہم صرف یہاں پر دو نقل کرتے ہیں۔

جواب نمبر 1

حافظ ابن الہمام نے فتح القدیر ج 1 ص 435 میں اور مولانا سہارنپوری نے بذل المجہود ج 2 ص 221 میں اور اسی طرح دیگر فقہاء نے فرمایا ہے کہ صلوۃ کسوف میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے دیر تک قیام کیا پھر دیر تک رکوع کیا۔ کچھ لوگوں نے رکوع سے سر اٹھا کر دیکھا کہ کہیں آپ سجدہ میں نہ چلے گئے ہوں حالانکہ آپ سجدہ میں نہ گئے تھے وہ دوبارہ رکوع میں چلے گئے۔ پچھلی صفوں والوں نے خیال کیا کہ شاید دور کوع ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ دور کوع والی روایات یا تو عورتوں سے ہیں یا صغار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو عموماً پچھلی صفوں میں ہوتے تھے۔ 

جواب نمبر 2

اگر دور کوع والی روایات اس لئے قابل اخذ ہیں کہ ان میں زیادت ہے تو صحیح روایات سے دورکوع سے زیادہ رکوع بھی ثابت ہیں مسلم ج1 ص 297 و ابو داؤد ج 2 ص 167 میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں تین تین رکوع ثابت ہیں۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں تین تین رکوع ثابت ہیں۔ فی کل رکعتہ ثلاث رکعات رواہ النسائی ص 164 و مسلم ج 1 ص 296 بخاری مع الفتح ج 2 ص 258 واحمد اسنادہ صحیح۔

 ( آثار السنن ص 262)

اسی مضمون کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی ہے۔ رواہ الترمذی ج 1 ص 73 صحہ اور حضرت علی ملالہ رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جینے کی روایت میں چار چار رکوع ثابت ہیں مسلم ج 1 ص 297 اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت مسند احمد ج 1 ص 225 میں یوں ہے۔ صلی عند كسوف الشمس ثمانی رکعات و ربع سجدات اور نسائی ج 1 ص 164 و ابو داؤد ج 1 ص 168 میں بھی موجود ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت رواه احمد و اسنادہ صحیح ( آثار السنن ص 262) اور مجمع الزوائد ج 2 ص 207 میں بھی ہے۔ وقال رواہ احمد رواستہ ثقات اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں پانچ پانچ رکوع ثابت ہیں اور ابو داؤد ج 1 ص 167 مگر اس کی سند میں ابو جعفر الرازی ہے جو کمزور ہے اور مجمع الزوائد ج 2 ص 207 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی پانچ پانچ رکوع ثابت ہیں۔ رواہ البزار ورجاله رجال الصحیح ابن دقیق العید احکام الاحکام میں لکھتے ہیں وغیر ذلک ایضاء وھو ثلاث رکعات واربع رکعات فی رکعتہ ان روایات میں دو سے زیادہ رکوع ثابت ہیں اور روایات صحیح ہیں تو اس زیادت پر عمل کیوں نہ کیا جائے ؟ اگر ہم ایک سے زیادہ رکوع ترک کر کے عامل بالحدیث نہیں رہتے اور معاذ اللہ تعالیٰ ترک سنت کے مرتکب ہیں تو غیر مقلدین و غیرہم بھی دو سے زیادہ رکوع ترک کر کے اس جرم کے مرتکب کیوں نہیں قرار دیئے جاتے ؟ این گناهیست که در شهر شما نیز کند

( خزائن السنن ص 447,446 )

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...