نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 17: دوہری اذان کا حکم


 اعتراض نمبر 17

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

 مسئله:17

 دوہری اذان کا حکم

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن ابي محذورة قال القى على رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم التأذين هو بنفسه (وفیہ) ثم تعوذ فتقول۔الخ

 ترجمہ: سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ترجیع

والی ( دوہری )اذان سکھلائی۔

(سنن ابي داود كتاب الصلوة باب كيف الاذان ج 1 ص 80 رقم الحديث 503) (وسنن نسائي كتاب الاذان باب كيف الاذان ج 1 ص 103 . رقم الحديث 633 (وسنن ابي ماجه باب الترجيع في الاذان ج1ص 101 رقم الحدیث (708)

نوٹ: اذان میں شہادتیں کے کلمات کو پہلے دو دو مرتبہ دھیمی ( آہستہ) آواز سے کہنا پھر دوبارہ دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہنا ترجیع کہلاتا ہے

فقه حنفی

الاذان سنة للصلوة الخمس والجمعة لا سواها ولا ترجيع فيه

(هداية اولين ج1كتاب الصلاة باب الاذان ص 87)

اذ ان پانچ نمازوں اور جمعہ کے لئے سنت ہے اور اس میں ترجیع ( دوہری) نہیں ہے۔ 

( فقه و حدیث ص 56)

جواب:

 امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اذان میں ترجیح نہیں ہے۔ امام صاحب کا یہ نظریہ مندرجہ ذیل احادیث پر مبنی ہے:

1۔عن عبد الله بن زید الانصاري قال كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم

 قدهمه الاذان حتى هم ان يأمر رجالا فيقومون على الطام فيدفعون ايديهم و يشيرون الى الناس بالصلوة حتى رايت فيما يرى النائم كان رجلا عليه ثوبان اخضران على سور المسجد يقول الله اكبر اربعاً اشهد ان لا اله الا الله مرتين - اشهد ان محمدا رسول الله مرتين - حی علی الصلوة مرتين. حي على الفلاح مرتين. الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله ثم اقام فقال مثلها و قال في اخرها قد قامت الصلوة قد قامت الصلوة فأخبرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال اذهب فقصها على بلال رضی اللہ عنہ ففعلت فاقبل الناس سراعاً ولا يدرون الا انه فرغ فاقبل عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ و قال لو لا ما سبقنى به لا خبرتك انه قد طاف بي الذي طاف به.

( نصب الرایہ ج 1 ص 275 )

حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اطلاع نے فکر مند کر رکھا تھا یہاں تک کہ آپ نے ارادہ فرمالیا کہ لوگوں کو حکم دیں وہ ٹیلوں پر چڑھ کر ہاتھ کھڑے کر کے اشاروں سے لوگوں کو نماز کی اطلاع دیں حتی کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا ایک آدمی ہے جس کے اوپر دوسبز کپڑے ہیں مسجد کی دیوار پر کھڑا ہو کر کہہ رہا ہے۔ اللہ اکبر چار دفعہ اشهد ان لا اله الا الله دو دفعه اشهد ان محمدا رسول الله دو دفعہ حی علی الصلوة دودفعه حي علی الفلاح دو دفعہ اللہ اکبر لا اله الا اللہ پھر اس نے اقامت پڑھی وہ بھی اسی طرح اور اس کے آخر میں قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ کہا یعنی تحقیق نماز کھڑی ہو گئی پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا جا بلال کے سامنے اسے بیان کر میں نے بیان کر دیا تو لوگ دوڑتے ہوئے آئے مگر کچھ سمجھے نہ سکے اتنے میں وہ فارغ بھی ہو چکا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے اگر وہ مجھ سے سبقت نہ لے گیا ہوتا تو میں آپ کو بتلاتا کہ میرے ساتھ بھی وہی گزری ہے جو اس کے ساتھ گزری۔یہ اذان اگر چہ خواب میں سکھائی گئی ہے لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا ان شاء اللہ یہ سچا خواب ہے جاؤ بلال رضی اللہ عنہ کو سکھا دو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ اذان بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو سکھائی گئی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہ ساری عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسجد نبوی میں یہی اذان پڑھتے رہے جسمیں ترجیح نہیں ہے یعنی شہادتین کو لوٹا کر نہیں پڑھا جاتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل مسنون اذان یہی ہے جس پر آج تک اہل مدینہ کا عمل ہے۔ 2۔ عبد الرحمن بن ابی لیلی قال حدثنا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان عبدالله بن زيد الانصارى جاء الى النبي ﷺ فقال يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رايت فى المنام كان رجلا قام و علیه بردان اخضر ان علی جدمة حائط فاذن مثنی و اقام مثنی

(مصنف ابن ابي شيبه ج 1 ص 203. بيهقي ج 1 ص 240 وقال ابن حزم رحمۃاللہ علیہ وهذا في غاية الصحة، محلي ابن حزم ج 3 ص 114) حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی نے کہا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے اصحاب نے ہمیں بتایا کہ عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اذان کا واقعہ بتایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے ایک شخص پر دو سبز رنگ کی چادریں ہیں اور وہ دیوار پر کھڑا اذان دوہری دو ہری مرتبہ پکار رہا ہے۔ اور اقامت بھی دوہری مرتبہ۔

3۔ عن السائب بن يزيد قال كان الاذان على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و عمر مرتين مرتين.

(صحیح ابن حبان ج 3 ص 136) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اذان آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دوہری دوہری ہوتی تھی۔


4۔ عن ابی محذور قال کنت اوذن لرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في صلاة الفجر فأقول اذا قلت في على الفلاح الصلوة خيبر من النوم الصلوة خير من النوم .

(مصنف عبد الرزاق ج 1 ص 472)

حضرت ابو محذورہ میں رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے حکم سے صبح کی نماز کے لئے اذان پڑھتا تھا۔ اور حی علی الفلاح کے بعد میں الصلوۃ خیر من النوم دوبار پکارتا تھا

5۔ عن ابی محذوره قال علمنی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم الاذان (الى ان قال) الله اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر - اشهد ان لا اله الا اله الله اشهد ان الا اله الا الله - اشهد ان محمدا رسول الله اشهدان محمدا رسول الله حى على الصلوة على الصلوة. حي على الفلاح حي على الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا اله الا الله ( صحیح ابن حبان ج 3 ص 143 ) حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اذان سکھلائی اور اس کے الفاظ یہ ہیں 

اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشهدان لا الہ الا اللہ اشهد ان لا الہ الا اللہ اشهدان محمد رسول اللہ اشهدان محمد رسول اللہ حی علی الصلاة حی على الصلاة حی على الفلاح حی على الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ 

6۔ عن الشعبي عن عبد اللہ بن زید الانصاری قال سمعت اذان رسول الله ﷺ فکان اذانه و اقامته مثنی مثنی۔ (صحیح ابوعوانہ ج 1 ص 331) امام شبعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زید انصاری نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان سنی۔ (آپ کی اذان سے مراد آپ کے موذن کی اذان ہے ) آپ کی اذان واقامت دونوں میں کلمات دو دو دفعہ ہی تھے۔

7۔ عن عبد العزيز بن رفيع قال سمعت ابا محذورة يوذن مثنى مثنى و يقيم مثنی مثنی

(طحاوی ج 1 ص 95)

حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو سناوہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے اور اقامت میں بھی اسی طرح دودو کلمات کہتے تھے۔

8۔ عن الاسود بن يزيد ان بلالا كان يثنى الاذان و يثنى الاقامة وكان يبداء بالتكبير و يختم بالتكبير ( مصنف عبد الرزاق ج 1ص 462 طحاوی ج 1ص 94. دار قطنی ج 1 ص 242)

حضرت اسود بن یزید رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے ( شروع کی چار تکبیرات کے علاوہ باقی ) کلمات دودو دفعہ کہتے تھے اور اسی طرح اقامت کے چار کلمات بھی دو دو دفعہ کہتے تھے اور اذان واقامت کی ابتداء و انتہاء اللہ اکبرپر کرتے تھے۔

9۔ عن سويد بن غفلة قال سمعت بلا لا يوذن مثنى ويقيم مثنى

( طحاوی ج 1ص 91) 

حضرت سوید بن غفلہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ اذان واقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے۔ 

10۔ عن عون بن ابى جحيفة عن ابيه ان بلالا كان يوذن للنبي صلی اللہ علیہ مثنى مثنى و يقيم مثنى مثنى

(دار قطنی ج 1 ص 242)

عون بن ابی حجیفہ رحمۃاللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اذان واقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے۔ 

11۔عن ابراهيم قال ان بلالا كان يثنى الاذان والاقامة.

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1ص 206)

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان واقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے 

12۔ عن ابراهيم قال كان ثوبان رضی اللہ عنہ یوذن مثنی و یقیم مثنی 

(طحاوی ج 1 ص 95)

حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اذان واقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے۔

13۔ ثناء الحج بن ارطاة قال نا ابو اسحق قال كان اصحاب علی و اصحاب عبد الله يشفعون الاذان والاقامة.

( مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 206 )

 حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب اذان واقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہتے تھے۔

14۔ قال عبد الرزاق سمعت الثورى و اذن لنا يمنى فقال الله اكبر الله اكبر. اشهد ان لا اله الا الله مرتین اشهد محمد رسول الله مرتين فصنع كما ذكر فى حديث عبد الرحمن بن ابی لیلی فی الاذان والاقامة تمام مثل الحديث

 (مصنف عبدالرزاق ج 1 ص 462) عبدالرزاق کہتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری نے میدان منی میں ہمارے سامنے اذان کہی میں نے سنا کہ آپ نے کہا اللہ اکبر اللہ اکبر دو مرتبہ اشهد ان لا اله الا الله دو مرتبہ اشهد ان محمدا رسول الله دو مرتبہ پھر آپ نے اذان واقامت بعینہ اس طرح کہی جس طرح حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی کی حدیث میں ذکر کی گئی ہے۔ نوٹ: حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی کی حدیث نمبر 2 پر گزری ہے۔

راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ حنفی اس حدیث کو نہیں مانتے۔ یعنی ان کا یہ مذہب حدیث کے خلاف ہے اور ہمارے دلائل کا ذکرنہ کرنا درست نہیں ہے آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام صاحب کا نظریہ کتنی احادیث پر مبنی ہے۔ باقی رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کی ہم تو جیہ کرتے ہیں انکار نہیں کرتے ۔ ہم کہتے ہیں کہ عام اذان کا طریقہ تو احناف والا ہی تھا۔ باقی رہا ابو محذورہ مٹی لینے کا واقعہ تو وہ خاص ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...