نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 18:پگڑی پر مسح کرنا


 اعتراض نمبر18

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئلہ 18

پگڑی پر مسح کرنا

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن مغيرة بن شعبة ان النبي صلی اللہ عليہ وسلم توضا فمسح بناصيته وعلى العمامة ، والخفين

ترجمہ: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے وقت اپنی پیشانی ، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔ 

(مسلم ج 1كتاب الطهارةباب مسح علي الخفين ص 134رقم الحديث 626)

 فقه حنفی

ولا يجوز المسح على العمامة

 (هداية اولين كتاب الـطھارة باب المسح على الخفين ص 61)

 پگڑی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ (فقہ وحدیث ص 57)

جواب: احناف کسی بھی حدیث کا انکار نہیں کرتے۔ بلکہ کسی مسئلہ میں وارد ہونے والے تمام دلائل کو سامنے رکھ کر تمام روایات میں تطبیق دیتے ہیں۔ اور وہ جو زیادہ بہتر اور زیادہ صحیح بات معلوم ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔ 

دلائل احناف

يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ

(پارہ نمبر 6 سورۃ المائدہ آیت نمبر 6) 

اے ایمان والو جب تم نماز کے لئے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت (دھوؤ) اور اپنے سر پر مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت۔ (دھوؤ )

1۔ عن انس بن مالك قال رايت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يتوضا و عليه عمامة قطرية فادخل يده من تحت العمامة فمسح مقدم راسه ولم ينقض العمامة. 

(ابوداؤ د ج 1 ص 19) 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوء فرماتے ہوئے دیکھا کہ آپ کے سر مبارک پر قطری پگڑی تھی۔ آپ نے پگڑی کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر کے اگلے حصے پر مسح فرمایا اور پگڑی کو کھولا نہیں۔

2۔ قال الشافعي اخبرنا مسلم عن ابى جريج عن عطاء ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم توضاء فحسر العمامة عن راسه و مسح مقدم راسه اور قال ناصیتہ بالماء

(کتاب الامام ج 1 ص 26)

حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پگڑی کو سر سے اوپر کیا اور سر کے اگلے حصے پر مسح فرمایا یا حضرت عطاء رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناصیتہ پر مسح فرمایا پانی سے 

3۔ عن ابن عمر انه كان اذا مسح راسه رفع القلنسوة ومسح مقدمہ راسہ (رواه الدار قطنی ج 1 ص 107 وفی التعلیق المغنی سند ہ صحیح )

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب سر پرمسح فرماتے تو ٹوپی سر سے ہٹا لیتے اور سر کے اگلے حصہ پر مسح فرماتے۔

4۔ مالك انه بلغه ان جابر بن عبدالله الانصاري سئل عن المسح على العمامة فقال لا حتى يمسح العشر بالماء.

(موطا امام مالک ص 23 )

حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ بن انصاری رضی اللہ عنہ سے پگڑی پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا گیا آپ نے فرمایا جائز نہیں ہے جب تک بالوں کا پانی سے مسح نہ کرے۔

 5۔ مالك عن هشام بن عروة عن ابيه عروة بن الزبير كان ينزع العمامة ويمسح راسه بالماء.

(موطا امام مالک ص 23 ) 

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ سرسے بگڑی ہٹا کر پانی سے سر پرمسح فرماتے تھے۔ 6۔ عن نافع انه راى صفية بنت ابی عبید امراة عبد الله بن عمر تنزع خمارها و تمسح على راسها بالماء و نافع يومئذ صغير قال يحيى وسئل مالك عن المسح على العمامة والخمار فقال لا ينبغي ان يمسح الرجل ولا المراة على العمامة ولا خمار وليمسها على روسا . 

(موطا امام مالک ص 23)

امام نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو عبید کی صاحبزادی اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو دیکھا کہ انہوں نے دوپٹہ سرسے ہٹا کر پانی سے سر پر مسح کیا نافع رحمۃاللہ علیہ ان دنوں بچے تھے۔ یحیی فرماتے ہیں۔ کہ امام مالک رحمۃاللہ علیہ سے پگڑی اور دوپٹہ پر مسح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مردو عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ پگڑی اور دوپٹے پر مسح کریں انہیں چاہئے کہ سر پر مسح کریں۔ آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران وضو سر پر مسح کرنا فرض ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے لہذا جو شخص دوران وضوسر پر مسح نہیں کرے گا اس کا وضو نہیں ہوگا۔ احادیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر کسی کے سر پر پگڑی یا ٹوپی ہو تو دوران وضو یا تو ان کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر پر مسح کرے یا سر سے پگڑی یا ٹوپی اتار کر مسح کرے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام ایسا ہی کیا کرتے تھے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا۔ آپ نے دیکھ لیا کہ احناف کا مسلک قرآن اور حدیث کے عین مطابق ہے۔

ربی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے وہ ہمارے مخالف نہیں بلکہ حنفی مذہب کی تائید کرتی ہے کیونکہ اس میں موجود ہے ومسح بناصیتہ ان الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مسح راس میں فرض مقدار ناصیہ ہی ہے۔ جو احناف کا مذہب ہے۔ اگر ناصیہ کی مقدار سے کم مسح کافی ہوتا تو بیان جواز کے لئے کم از کم ایک آدھ مرتبہ آپ اس پر عمل فرماتے مگر ایسا کہیں ثابت نہیں۔ حنفی صرف پگڑی پر مسح کو جائز نہیں سمجھتے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...