اعتراض نمبر 19
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : 19
تیمم کے لئے ایک ہی ضرب کافی ہے
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن عمار في حديثه ضرب النبي صلی اللہ عليہ وسلم بكفيه الارض و نفخ فيهماثم مسح بهما وجهه و كفيه.
ترجمہ: سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں
کو زمین پر مارا پھر ان دونوں میں پھونکا، پھر ان دونوں کے ساتھ اپنے چہرےاور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا۔
(بخاري ج 1كتاب التيمم باب هل ينفخ في يديه بعد ما يضرب بهما الصعيد للتيمم ص 48. رقم الحديث 338) (مسلم ج1کتاب الحيض باب التیمم ص161 رقم الحديث (368) (واللفظ للبخاري)
فقه حنفی
والتيمم ضربتان يمسح بإحداهما وجهه و بالاخرى يديه الى المرفقين.
(هدايهاولين ج 1كتاب الطهارة باب التيمم ص 50)
تیمم کرنے کے لئے دوضربیں ہیں (یعنی اپنے ہاتھوں کو زمین پر دو بار مارنا ) ایک بار چہرے پر مسح کرنے کے لئے اور دوسری بار دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک کے لئے۔
(فقه وحدیث ص 58)
جواب:
راشدی صاحب نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کا ٹکڑا نقل کیا ہے حالانکہ اس کے تمام طریق را شدی صاحب کو پیش کر کے اس اضطراب کو ختم کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مختلف سندوں کے ساتھ مختلف الفاظ آتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
الف۔ ایک ضرب سے تمیم کرے اور چہرے اور ہتھیلیوں پر ہاتھ پھیرے۔
( بخاری ج 1 ص 48 مسلم ج 1 ص 116)
ب۔
تیم دو ضرب سے کرنا ایک ضرب چہرے کے لئے دوسری دونوں ہاتھوں سے کندھوں اور بغلوں تک کے لئے ۔
(ابوداؤد ج 1ص51 نسائی ج 1ص 60 طحاوی ج 1ص 66 مسند احمد ج 4 ص 263)
ج۔ تیم دو ضرب ہے ایک ضرب چہرے کے لئے دوسری ضرب دونوں ہاتھوں کے لئے کہنیوں تک۔
(رواه البزار فی مسنده نصب الرایہ ج 1 ص 154 قال الحافظ ابن حجر باسناد حسن الدار یہ ص 36 )
راشدی صاحب کا فرض تھا کہ وہ پہلے اس حدیث کے مکمل طرق نقل کرتے پھر ایک طریق کو قبول اور دو طریقوں کو رد کرنے کی وجہ کسی حدیث صحیح سے بیان کرتے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہو کہ فلاں طریق قبول کر لینا کہ وہ صحیح ہے اور فلاں فلاں دو طریق حدیثوں کے رد کر دینا کہ وہ ضعیف ہیں۔ لیکن راشدی صاحب نے حدیث نقل کرنے میں ایسا نہیں کیا انہوں نے ایک طریق بتایا اور دو کو چھپایاب عجیب بات ہے کہ راشدی صاحب نے بھی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ایک ہی طریق کو
مانا اور دو کو بلا وجہ بیان کئے چھوڑا تو وہ اہل حدیث رہے ہم نے بھی اس کے ایک طریق پر عمل کیا مگر ہمیں حدیث کا مخالف کہا گیا۔ احناف نے جن دو طریقوں کو چھوڑا اس کی باقاعدہ وجہ بیان کی ہے۔ فقیه شهیر محدث کبیر امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس حدیث میں کندھوں تک مسح کا ذکر ہے وہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ نزول آیت سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اپنی اپنی رائے تھی۔ چنانچہ امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرماتے ہیں کہ میرا ہار سفر میں گم ہو گیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تلاش میں گئے جب نماز کا وقت ہوا تو پانی نہ ملنے کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمیم کیا کسی نے صرف ہتھیلیوں تک کسی نے کندھوں تک پس یہ بات جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو پہنچی تو آپ پر آیت تیمم نازل ہوئی۔
( طحاوی ص 80 ج 1) معلوم ہوا کہ یہ بعض صحابہ کا اپنا عمل تھا۔
جب آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تیمم کا طریقہ سکھایا، چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ان ہی لوگوں میں تھا جب کہ تیمم کی رخصت نازل ہوئی پس ہمیں حکم دیا گیا اور ہم نے ایک ضرب سے چہرے کا مسح کیا اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کیا۔
( رواه البزار باسناد من الدرایہ لحافظ ابن حجرص 36)
امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی طریقہ قرآن پاک کے بھی موافق ہے کیونکہ قرآن پاک میں پہلے وضو کا حکم ہے پھر پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کو وضو کا قائم مقام قرار دیا ہے وضو میں چار فرائض کا ذکر تھا تیمم میں ان میں سے دو ساقط فرما دیئے اور دو کو باقی رکھا ان کی کیفیت اصل وضو کے موافق ہونی چاہئے تا کہ وہ ان کے قائم مقام کہلا سکیں۔ اب وضو میں حکم ہے فاغسلوا وجوهكم وايديكم الى المرافق تم اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور تیم کے بارے میں فرمایا فامسحوا بوجوهكم وايديكم منه مسح کرو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا اب ظاہر ہے کہ وضو میں چہرہ کو دھونے اور ہاتھوں کے دھونے کے لئے الگ الگ پانی لیا جاتا ہے اس لئے تیمم میں بھی چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے لئے الگ الگ ضرب ہوگی اور وضو میں پورے چہرے کو دھویا جاتا ہے تو تیمم میں بھی چہرے کا پور مسح ہو گا مگر ہاتھوں کا کہنیوں تک تا کہ تیمم وضو کا ان دونوں قرضوں میں پورا پورا قائم مقام رہے۔
(طحاوی ج 1 ص 81)
رہا حضرت حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا وہ طریق جو راشدی صاحب نے بیان کیا ہے یہ بعد کا ہے جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو تیم کا طریقہ تو آتا تھا مگر وہ اس کو صرف وضو کے تمیم کا طریقہ سمجھتے تھے جب ان پر غسل فرض ہوا اور پانی نہ ملا تو سارے کپڑے اتار کر زمین پر لوٹے پھر آکر یہ واقعہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنایا۔ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے سمجھایا کہ غسل اور وضو کے تیمم میں کوئی فرق نہیں چونکہ طریقہ پہلے حضرت عمار رضی اللہ عنہ جانتے تھے اس لئے اختصار کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا۔
صاحب ہدایہ کی عبارت نقل کرنے میں فریب
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں " تیم دو ضربوں سے ہے ایک کے ساتھ چہرے کا مسح کرے اور دوسری کے ساتھ دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک کیونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا تیمم دو ضربوں کے ساتھ ہے ایک ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھوں کے لئے
(ہدایہ اولین ص 50)
دیکھئے صاحب ہدایہ نے صاف طور پر فرمایا تھا کہ یہ طریق فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ راشدی صاحب نے یہ بات نقل نہیں کی۔
تیم میں دوضر ہیں ہیں
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت سند بزار کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری روایات مندرجہ ذیل ہیں۔
دلائل احناف
1۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة لليدين الى المرفقين.
(دارقطنی ج 1ص 180)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیمم میں دوضربیں ہوتی ہیں ایک چہرہ کے لئے اور ایک کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے لئے ۔
2۔ عن جابر عن النبي صلى صلی اللہ علیہ وسلم: قال التيمم ضربه للوجه و ضربة للذراعين الى المرفقين.
(دار قطنی ج 1 ص 181)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیمم میں ایک ضرب چہرہ کے لئے ہے اور ایک کہنیوں سمیت دونوں بازوؤں کے لئے۔
2۔ عن ابن عمر عن النبي ﷺ قال التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة لليدين الى المرفقين.
(مستدرک حاکم ج 1 ص 179)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیم میں دوضربیں ہوتی ہیں ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے لئے ۔
3- عن ابن عمر دره قال كان تيمم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ما ضربتين ضربة للوجه و ضربة لليدين الى المرفقين
(جامع المسانید ج 1 ص 233)
حضرت عبداللہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم دوضربیں تھا ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے لئے۔ 4۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے ایک راہ گیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ضربوں سے تیمم کر کے اس آدمی کو سلام کا جواب دیا جب کہ وہ گلی کے موڑ سے چھپنے والا تھا۔
(ابوداد درج 1ص 53 طحاوی ج 1 ص 64. دارقطنی ج 1 ص 65 الطیالسی ج 1س 253 بہیقی ج 1ص 206)
اگر ایک ضرب سے تمیم کی گنجائش ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اس جلدی کے موقع پر ضرور
اختصار سے کام لیتے اذالیس فلیس ۔ 5۔ حضرت اسلع رضی اللہ عنہ بھی اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ تھے جس میں آیت تیمم نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت اسلع رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ہے
اسلع قم فتيمم صعيدا طيبا ضربتين ضربة لوجهك و ضربة للذا عليك ظاهر هما وباطنها الحديث.
( طحاوی ج 1 ص 81)
اے اسلع رضی اللہ عنہ کھڑا ہو اور پاک مٹی سے تیمم کر ایک ضرب اپنے چہرے کے لئے اور دوسری اپنے بازوؤں کے لئے اندر باہر دونوں طرف یہ روایت اس طرح بھی ہے کہ ربیع کہتے ہیں مجھے میرے باپ نے دوضربوں سے تیم کر کے دکھایا میرے ابا کو میرے دادا نے اس طرح تیم کر کے دکھایا میرے دادا کو حضرت اسلع رضی اللہ عنہ نے اسی طرح تیمم کر کے دکھایا اور حضرت اسلع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس طرح رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم کر کے دکھایا۔
(اخرجہ الطبرانی والدارقطنی والبیہقی زیلعی ج 1 ص 153) 6۔ حضرت ابو جہم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے دیوار پر ہاتھ مارکر پہلے چہرے مبارک پر مسح فرمایا پھر دوسری ضرب کے بعد اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح فرما کر میرے سلام کا جواب دیا۔
(دارقطنی ج 1 ص 65)
7۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ جنگل کے رہنے والے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ نے ان کو تیمم کا طریقہ خود اس طرح سکھایا کہ زمین پر ایک ضرب لگا کر چہرہ مبارک کا مسح فرمایا اور پھر زمین پر دوسری ضرب لگا کر اپنے ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح فرمایا۔
( بیہقی ج 1 ص 206)
8۔ عن نافع ان ابن عمر تيمم في مريد النعم فقال بيديه على الارض فمسح بهما وجهه ثم ضرب بهما على الارض ضربة اخرى ثم مسح بهما يديه الى المرفقين.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 158)
حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے چوپایوں کے باڑہ میں تیمم کیا۔ آپ نے اپنے ہاتھ زمین پر جھکائے اور ان سے چہرہ پر مسح کیا پھر دوسری مرتبہ دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان سے کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر مسح کیا۔
10عن نافع قال سألت ابن عمر عن التيمم فضرب بيديه الى الارض و مسح بهما يديه ووجهه و ضرب ضربة اخرى فمسح بهما ذراعيه. ( طحاوی ج 1 ص 81)
حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے تیمم کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان سے
ہاتھوں اور چہرہ کا مسح کیا پھر دوسری بار دونوں ہاتھ مارے اور ان سے دونوں بازوؤں کا مسح کیا۔
10۔ عن علی بن ابی طالب كرم الله وجهه قال التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة للذراعين الى المرفقين.
(مسند امام زید ص 77)
حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ تیمم میں دوضریں ہوتی ہیں ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے لئے۔
11۔ عن جابر انه ضرب بيديه الارض ضربة فمسح بهما وجهه ثم ضرب بهما الارض ضربة اخرى فمسح بهما ذراعيه الى المرفقين.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 151)
حضرت جابر میں رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان سے چہرہ کا مسح کیا پھر دوبارہ دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان سےکہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔
12۔ عن حبيب الشهيد انه سمع الحسن سئل عن التيمم فضرب بيديه على الارض فمسح بهما وجهه ثم ضرب بيديه على الارض ضربة اخرى فمسح بهما يديه الى المرفقين. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 158)
حضرت حبیب شہید سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت حسن رحمۃاللہ علیہ(بصری) کو سنا کہ آپ سے تیمم کے بارے میں سوال کیا گیا آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان سے چہرہ کا مسح کیا پھر دوبارہ دونوں ہاتھ زمین پر مارےاور ان سے کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا مسح کیا
13۔ عن ابن طائوس عن ابيه انه قال التيميم ضربتان ضربة للوجه و ضربة للذراعين الى المرفقين.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 159 )
ابن طاؤس رحمۃاللہ علیہ اپنے والد طاؤس رحمۃاللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تیمم میں دوضربیں ہوتی ہیں۔ ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے لئے۔
14۔ عن الزهري قال التيمم ضربتان ضربة للوجه وضربة للذراعين. (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 159)
امام زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تیمم میں دوضربیں ہوتی ہیں ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک دونوں ہاتھوں کے لئے۔
16۔ عن ابراهيم في التيمم قال تضع راحيتك في الصعيد فتمسح وجهك ثم تضعها ثانية فتنفضهما فتمسح يديك وذرا عيك إلى المرفقين.
(كتاب الاثار الامام ابی حنیفہ بروایت الامام محمد ص 15)
حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ سے تیمم کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے دونوں ہاتھ مٹی پر رکھ کر چہرہ کا مسح کر لو پھر دوبارہ دونوں ہاتھ رکھ کر جھاڑو اور کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ اور بازوؤں کا مسح کرلو۔
16- یہی مذہب امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ، امام مالک رحمۃاللہ علیہ، امام سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ، امام شافعی رحمۃاللہ علیہ ،امام لیث بن سعد مصری رحمۃاللہ علیہ اور عام فقہاء کا ہے اور ابن المنذر رحمۃاللہ علیہ نے یہی مذہب حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت بصری امام شبعی اور سالم بن عبداللہ سے روایت کیا ہے۔
کما فی شرح المذہب ج 1 ص 210 للنووی رحمۃاللہ علیہ بینی قال وهو قول الكثر العلماء (بحواله معارف السنن ج 1 ص 378) امام مالک کا یہی مسلک قواعد ابن رشد ج 1 ص 56 اور المدونۃ الکبری ج 1 ص 46 پر مذکور ہے۔
مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ تیمم میں دوضربیں ہوتی ہیں۔ پہلی ضرب چہرہ پر مسح کے لئے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھوں پر مسح کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ تیم میں دوضربیں ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی تیمم میں دوضربیں ہیں۔ حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ زہری رحمۃاللہ علیہ طاوس رحمۃاللہ علیہ، ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ جیسے اجلہ تابعین کا فتوی بھی یہی ہے کہ تیم ما میں دوضریں ہیں۔
غیر مقلدین اگر ان احادیث کو ضعیف ثابت کرنا چاہیں تو صراحتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت کا صحیح ہونا اور باقی سب احادیث کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیں کہ کسی غیر معصوم امتی کا قول ہرگز پیش نہ کریں کیونکہ اس کے نزدیک کسی غیر معصوم امتی کا قول دلیل شرعی نہیں۔ رہا ہمارا مسلک تو یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صراحتہ کسی ایک حدیث کی ترجیح ثابت نہ ہو تو وہ فان لم تجد فیہ میں شامل ہے اور اب باجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجتہد کی طرف رجوع ہوگا چنانچہ ہم نے خیر القرون کے مجتہد اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی طرف رجوع کیا انہوں نے خیر القرون کے تعامل اور کتاب وسنت کو سامنے رکھ دو ضربوں سے تیم والی احادیث پر عمل کیا اور کروایا کیونکہ خیر القرون میں بلانکیر اسی پر عمل جاری تھا۔ اب خیر القرون کے مجتہد کے مقابلہ میں کسی ما بعد خیر القرون کے امتی کے اقوال کو پیش کرنا گو یا حدیث خیر القرون کی کھلم کھلا مخالفت ہے۔
اور غیر مقلدین یہ بھی یادر کھیں کہ احناف کو کسی ایک حدیث کی مخالفت کا بھی کھٹکا نہیں کیونکہ جب دو ضرب سے تمیم کرتے ہیں تو ان دو میں ایک ضرب یقینا آجاتی ہے اس طرح دونوں حدیثوں پر عمل ہو جاتا ہے اور جب وہ کہنیوں تک مسح کرتے ہیں تو اس میں ہتھیلیاں اور پہنچے یقینا آجاتے ہیں اور اس طرح اس طریقہ تیم میں سب احادیث پر عمل ہے اور کسی حدیث کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اب اس کے جواب کی ضرورت تو نہیں مگر مختصر عرض کرتے ہیں۔
1۔ یه روایت مسند ابوداؤد طیالسی ص 89 میں آتی ہے اس میں شک کے ساتھ یہ لفظ ہیں: الی الكوعين او المرفقین ۔ تو جب اسی روایت میں مرفقین کے لفظ بھی ہیں تو علی التعین کفین پر کیسے عمل کیا جائے گا ؟
2۔ امام نووی رحمۃاللہ علیہ شرح مسلم ج 1 ص 161 میں لکھتے ہیں کہ بخاری اور مسلم وغیرہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ تعلیم کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ پوری تعلیم دی۔
3۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ جیسے آپ صل اللہ علیہ وسلم نے غسل کے بارے میں فرمایا کہ تین چلو سر پر ڈالے جائیں ظاہر بات ہے کہ اس سے غسل تو نہیں ہوتا۔
در اصل حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو تیمم للوضو کا علم پہلے سے تھا لیکن تیم للجنابت کی کیفیت معلوم نہیں تھی اس لئے تمککیاز کیا زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اشارہ فرمادیا کہ جیسے وضو کا تیمم ہے ویسے غسل کا تیمم ہے تمعککی کی ضرورت نہیں یہ اجمالی تعلیم تھی اس کو مذکورہ مفصل احادیث پر محمول کرنا چاہئے۔
شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں۔
یعنی مروی ہے حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ تیمم میں دوضربیں ہیں ایک ضرب منہ کے لئے اور ایک ضرب دونوں ہاتھوں کے لئے کہنیوں تک اور تحقیق مروی ہے عمل آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کا دونوں طرح پر اور وجہ توفیق کی ظاہر ہے رہنمائی کرتا ہے طرف اس کے لفظ انما یکفیک کا کہ اول یعنی ایک ضرب ادنی تیم کا ہے اور ثانی یعنی دوضربیں وہی سنت ہیں۔
(حجتہ اللہ البالغہ)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں