نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 20: نماز مغرب سے قبل دو رکعتیں


 اعتراض نمبر 20

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله :20 

 نماز مغرب سے قبل دورکعتیں

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عبد الله بن المغفل قال قال ﷺ صلوا قبل المغرب ركعتين صلوا قبل المغرب ركعتين ثم قال فى الثالثة لمن شاء كراهية ان يتخذها الناس سنة

ترجمہ: سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ سے روایت ہے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: " مغرب سے پہلے دور کعتیں پڑھا کرو تیسری بار فرمایا جس کا دل چاہے یہ اس لئے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت (موکدہ) نہ بنالیں۔

(صحيح البخاري ج 1 ص 157 كتاب التهجد باب الصلوة قبل المغرب رقم الحديث نبمر 1183) (صحيح مسلم ج 1ص 278 کتاب فضائل القرآن باب بین کل ازانین صلاةحدث نمبر 838)

فقه حنفی

ولا يتنفل بعد الغروب قبل الفرض

(هداية اولين ج1كتاب الصلوة باب المواقيت فصل في الاوقات التي تكره فيها الصلوة ص86)

سورج کے غروب ہو جانے کے بعد فرض نماز سے پہلے نفلی نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ (فقہ وحدیث ص 59)

جواب:

مغرب کی نماز سے پہلے دورکعت نفل پڑھنے کے متعلق روایات دونوں طرح کی ہیں بعض روایات میں پڑھنے کا ذکر ہے اور بعض روایات میں نہ پڑھنے کا۔ اس وجہ سے صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ائمہ میں بھی اختلاف ہے۔

امام نووی فرماتے ہیں:

و فی المسئلة مذبيان للسلف فاستحبهما جماعة من الصحابه و التابعين و من المتأخرين احمد و اسحق ولم يستحبهما ابو بكر و عمر و عثمان و على و اخرون من الصحابة ومالك واكثر الفقهاء.

( نووی شرح مسلم ج 1 ص 278)

اس مسئلہ میں سلف کے دو مذہب ہیں ایک گروہ اس کو مستحب کہتا ہے۔ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین رحمہم اللہ اور فقہاء متاخرین ہیں۔ امام احمد رحمۃاللہ علیہ اور اسحق رحمۃاللہ علیہ ہیں۔ دوسرا گروہ ان کے پڑھنے کو مستحب قرار نہیں دیتا۔ اس گروہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ( یعنی تمام خلفائے راشدین) کے اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امام مالک اور اکثر فقہاء کرام ہیں۔

اور احناف بھی اس کے قائل ہیں " مشتاق ) امام ترمذی فرماتے ہیں: اور اختلاف کیا ہے اصحاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کے قبل کی نماز میں ۔ جو لوگ ان دو نفلوں کے پڑھنے کو صرف مباح قرار دیتے ہیں سنت یا مستحب نہیں سمجھتے وہ مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ بھی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو اذانوں کے درمیان نماز ہے سوائے مغرب کے۔ 

(کشف الاستارج 10 ص : 338)

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...