نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 7 : حق مہر کم سے کم کتنا ہو؟


 اعتراض نمبر 7

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله :7حق مہر کم سے کم کتنا ہو؟

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن جابر ان رسول الله ﷺ قال من اعطى في صداق امراته ملا کفیه سویقا او تمرا فقد استحل

 ترجمہ : سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیوی کو حق مہر میں ستو یا کھجور کی دونوں ہتھیلیاں بھر کے دیں تو اس نے اس کو حلال کر دیا۔ (ابوداود ج1كتاب النکاح باب قلة المهر صفحه 294 رقم الحديث 2110) فقه حنفی

واقل المهر عشرة دراهم و لو سمى اقل من عشرة فلها العشر عندنا 

هداية اولين ج2 كتاب النکاح باب المهر صفحه 324 

حق مہر کم سے کم دس درہم ہے۔۔ اور اگر کسی نے دس درہم سے کم حق مہر مقرر کیا تو ہمارے مذہب کے مطابق وہ حق مہر دس درہم ہی ہوگا ۔ (فتہ وحدیث ص 46)

جواب :یہاں پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ مہر کی کوئی مقدار مقررہےکہ نہیں غیر مقلدین کے نزدیک کوئی مقدار مقرر نہیں اور احناف کے ہاں مقرر ہے احناف کا مسلک قران و سنت کی روشنی میں یہ ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہو سکتا ۔ فقہ حنفی کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قد علمنا ما فرضا علیھم فی از واجم تحقیق ہمیں علم ہے جو کچھ ہم نے مردوں پر ان کی بیویوں کے بارے مقرر کیا ہے۔

 (سورہ احزاب آیت نمبر 50پارہ نمبر 22)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کے مہر کی ایک خاص مقدار مقرر کی ہے لیکن قران مجید میں اس مقدار بیان میں مقرر ہےچنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح فرمائی ہے

2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں۔

  (سنن کبری بیہقی ج7 ص 240 سنن دار قطنی ج3ص 245 )

3۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دس درہم سے کم کوئی مہر نہیں 

(سنن کبری ج7 ص 240سنن دار قطنی ج3 245 )

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا مہر 

4۔ ابو سلمہ نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر کی بابت سوال کیا

انہوں نے فرمایا کہ وہ بارہ اوقیہ اور نش۔ میں نے کہانش کیا ہے؟ فرمایا نصف اوقیہ۔ 

(ابوداؤدج ص)

ایک اوقیہ چالیس درہم کا تھا تو اس حساب سے ساڑھے بارو او قے پانچ سودرہم ہوئے۔ 

5۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بالعموم ازواج رضی اللہ عنہما کو اس قدر مہر دیا ورنہ حدیث میں ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کا مہر نجاشی نور اللہ مرقدہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار سو دینار (یعنی چار ہزار درہم) ادا کیا تھا۔

ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنی ازواج رضی اللہ عنہما کا ) مہر کتنار کھتے تھے؟ ( حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرما یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش رکھتے تھے پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ نش کی کتنی مقدار ہے؟ میں نے کہا نہیں فرمایا نصف اوقیہ اور یہ( کل مقدار پانچ سو درہم ہیں اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج رضی اللہ عنہما کا مہر ہے۔ 

(مسلم ج ص کتاب النکاح)

 ان تین روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا مہر پانچ سو درہم سے کم نہیں رکھا تھا۔ کسی ایک روایت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوداپنی کسی بیوی کا مہر دس درہم سے کم رکھا ہو۔ رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے جس میں ستو اور کھجور کی ایک بک کو حق مہرقرار دیا گیا ہے۔

امام ابو حنیفہ نور اللہ مرقدہ کا مسلک یہ ہے کہ ان کو مہر نہیں بنایا جا سکتا۔ امام صاحب یہاں پر ایک اصولی قاعدہ کی بنا پر یہ بات کہتے ہیں کہ مہر میں مال کا ہونا ضروری ہے اور یہ مال نہیں ہے۔ امام صاحب کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیت ہے: وأحل لكم مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ تُحْصِنِينَ 

(سورۃ نساء آیت 24 پاره 5) 

اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ مہر میں صرف وہ چیز مقرر کی جاسکتی ہے جو مال ہو اس کے علاوہ کوئی چیز بھی مہر نہیں بن سکتی۔ اور شرعی طور پر مال وہ ہوتا ہے جس کی چوری پر حد لگے اور وہ دس درہم ہے۔ اس لئے امام صاحب فرماتے ہیں کہ حق مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم ہوگی ۔ قرآن وسنت کے ان دلائل کے ہوتے ہوئے یہ روایت قابل عمل نہیں ہو سکتی۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...