اعتراض نمبر 9
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئلہ 9
گم شدہ اونٹ کو قبضہ میں لینے کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن زید بن خالد رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ( في ضالة الابل ) مالك ولها معها سقا، ها و حذائها ترد الماء و تأكل الشجر حتى يلقاها ربها
ترجمہ: سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے( گم شدہ اونٹ ) کے بارے میں فرمایا کہ وہ پانی پیتا رہے گا، گھاس کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ مالک اسے پالے گا۔ بخاري : كتاب اللقطة باب اذا لم يوجد صاحب اللقطة بعدسنة فهي لمن وجدها صفحه 328
الحديث (2429)
(مسلم ج 2 كتاب اللقطة صفحه 78، رقم الحديث 1722)
فقه حنفی
ويجوز التقاط في الشأة والبقرة والبعير
هداية اولين كتاب اللقطة صفحه 615
یعنی گم شدہ بکری گائے اور اونٹ لے لینا جائز ہے۔ (فقہ وحدیث ص 48)
جواب:
احناف کا طریقہ کسی بھی حدیث کو سمجھنے کا یہ ہے کہ وہ اس کے ظاہری الفاظ پر انحصار کرنے کے بجائے اس کی مصلحت، حکمت، استخراج کر کے اس پر اپنے مسلک کا مدار کھتے ہیں۔
زیر بحث حدیث میں بھی یہی اصول پیش نظر ہے۔ گمشدہ جانور کو پکڑنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو بحفاظت اس کے مالک تک پہنچایا جاسکے۔ بکری چونکہ کمز ور جانور ہے اس لئے اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو خدشہ ہے کہ کوئی درندہ اسے نقصان پہنچائے گا۔ اس کے برخلاف اونٹ ایک بڑا اور طاقتور جانور ہے اور اس کو ایسا خطر و بالمعوم در پیش نہیں ہوتا۔
احناف نے اس حکمت اور مصلحت کو پیش نظر رکھ کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیانت امانت عام تھی اور یہ خدشہ نہیں تھا کہ اونٹ پر کوئی آدمی نا جائز طور پر قبضہ کرے گا۔ لیکن اب لوگوں میں شریفانہ اخلاق اور امانت و دیانت نادر ہو چکی ہے۔ اس زمانے میں اونٹ کو کھلا چھوڑ دینے میں خدشہ ہے کہ کوئی بددیانت آدمی اس کو پکڑلے گا اور اصل مالک تک اس کا پہنچانا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے اگر کسی دیانت دار آدمی کو گمشدہ اونٹ ملے تو اسے حفاظت کے نقطہ نظر سے پکڑ لینا چاہئے اور اس کے مالک تک پہنچانے کا انتظام کرنا چاہئے۔ کیونکہ حالات کے بدلنے سے احکام کا بدل جانا ایک مسلمہ قاعدہ ہے جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعامل سے گمشدہ اونٹ کو پکڑنا بھی ثابت ہے۔
1- مالك عن يحيى بن سعيد عن سليمان بن يسار ان ثابت بن الضاك الانصاري اخبره انه وجد بعيرا بالحرة فعقله ثم ذكره بعمر بن الخطاب فامره عمران يعرفه ثلاث مرات. فقال له ثابت انه قد شغنى عن ضيعتي فقال له عمر ارسله حيث وجدته (موطا امام مالک باب القضاء في الضوال )
ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ انہیں حرہ کے مقام پر ایک (گمشدہ) اونٹ ملاتو انہوں
نے اسے ( پکڑ کر ) باندھ دیا پھر اس کا ذکر حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا ۔ که تین دفعہ اس کا اعلان کر وثابت نے کہا کہ اس (اونٹ) نے تو مجھے اپنی زمین (کے معاملات) سے مشغول کر دیا ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جہاں سے یہ ملا تھا اس کو وہیں چھوڑ دو۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ پکڑنے والے شخص کو یہ نہیں کہا کہ تم نے حدیث کی مخالفت کی ہے بلکہ یہ فرمایا کہ اعلان کرو تا کہ اس کو اس کے مالک تک پہنچایا جاسکے اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس کو چھوڑ دو۔
2۔ حدثني مالك انه سمع ابن شهاب يقول كانت ضوال الابل في زمان عمر بن الخطاب ابلا مويلة تنائج لا يمسها احد حتى اذا كان زمان عثمان بن عفان امر بتعريفها ثم تباع فاذا جاء صاحبها اعطى ثمنها
(موطا امام مالک میں موطا امام محمد ص)
ابن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں گمشدہ اونٹ ہوتے تھے اور کوئی ان کو نہیں پکڑتا تھا۔ یہاں تک کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے اونٹوں ( کو پکڑ کران ) کا اعلان کرانے کا حکم دیا ( اور کہا کہ اعلان کے بعد ) انہیں بیچ دیا جائے۔ اور اگر پھر اس کا مالک آجائے تو اسے اس کی قیمت دے دی جائے۔ اشکال ۔ یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گمشدہ اونٹ کو کوئی نہیں پکڑتا تھا۔ اور اوپر والی روایت میں حضرت کے زمانہ کا واقعہ ہے بلکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو آپ نے اس شخص کو منع نہیں کیا۔ بلکہ یہ کہا کہ اعلان کرو۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ دوسری روایت میں جونفی کا ذکر ہے اس کو سرکاری حکم کی نفی پر محمول کریں گے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سرکاری حکم نہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سرکاری حکم نامہ
جاری کیا تھا۔ اور پہلی روایت میں انفرادی واقعہ بیان ہوا ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا جواب شروع میں اصولی طور پر ہو چکا ہے خود غیر مقلدین بھی اس پر عمل نہیں کرتے۔ سید امیر علی غیر مقلد لکھتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم آپ نے ایسی صورت میں فرمایا کہ اونٹ کے ضائع ہونے کا خوف نہ تھا۔ پس جب خوف ہو تو اس کا پکڑ لینا اولی ہے۔ (عین الہدایہ جلد 2 ص 609)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں