اعتراض نمبر 21
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : 21
غائبانہ نماز جنازہ کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن ابى هريرة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نحى النجاشي في اليوم الذي مات فيه و خرج بهم الى المصلى فصف بهم و كبر عليه اربع تكبيرات.
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس دن نجاشی کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی خبر سنائی اور عید گاہ کی طرف نکلے صفیں بنائی گئیں اور آپ نے چار تکبیرات کہیں۔
(بخاري ج 1كتاب الجنائز باب التكبير علي الجنازة اربعا صفحه 178۔ رقم الحديث 1333 ايضا باب الرجل ينحي الي اهل الميت بنفسه ص 167 )(مسلم ج 1كتاب الجنائز باب فی الکتبیر علی الجنازہ ص 309 رقم الحديث (2204) (واللفظ للبخاري)
فقه حنفی
فلا تصح على غائب
(الدر المختار باب صلاة الجنائز ج 2 ص 209، طبع دار الفكر بيروت) غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
(فقہ وحدیث ص 60)
جواب:
1۔ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ملک عرب میں وصال ہوا مگر آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی آپ کی پوری زندگی میں ایک بھی مثال کسی صحیح سند سے نہیں ملتی۔
2۔ خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے وصال پر کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھی۔
3۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کسی کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں فرمائی۔
4۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال پر کسی ملک میں آپ کی نماز جناز غائبانہ نہیں پڑھائی گئی۔
5۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کسی کی نماز جنازہ غائبانہ ادا نہیں فرمائی۔
6۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کسی ملک میں آپ کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھائی گئی۔
7۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔
8۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کسی ملک میں آپ کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھائی گئی۔
9۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کسی کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھائی۔
10- امہات المومنین رضی اللہ عنہما کے وصال پر کسی ملک میں نماز جنازہ غائبانہ نہیں پڑھائی گئی۔
11- آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی اولاد اطہار کی وفات پر تمام علاقوں میں جنازہ غائبانہ نہ پڑھا گیا۔
اسلام میں ان ہستیوں سے بڑھ کر اور کوئی ہستیاں نہیں گزریں۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی اگر غائبانہ نماز جنازہ سنت ہوتا تو ان کا ضرور بضرور پڑھا جاتا۔ اگر کسی غیر مقلد میں ہمت ہے تو صرف ایک ہی حدیث پیش کرے۔
مگر غیر مقلد ایک حدیث صحیح صریح غیر معارض پیش کرنے سے عاجز ہیں تو معلوم ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ نہ پڑھنا ہی سنت متواترہ ہے اور سنت متواترہ کے خلاف کوئی حدیث خبر واحد مل جائے تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں اس کو قبول نہ کرو۔ (الکفایہ )
جس حدیث کو راشدی صاحب نے نقل کیا ہے اس میں نہ غائب کا لفظ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے غائبانہ جنازہ پڑھانہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا کہ ہم نے غائبانہ جنازہ پڑھا۔ راشدی صاحب نے قیاس سے یہ مسئلہ نکال لیا۔
رہا نجاشی پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا نماز جنازہ پڑھنا تو اس کی کئی وجوہات ہیں۔
1۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں داخل ہے۔
2۔ یا اس پر نماز جنازہ اس لئے پڑھا گیا کہ اس کے وطن میں عیسائی لوگ تھے اس لیے اس پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھی۔
3۔ یا اس لئے کہ اس کی نعش کسی نہ کسی وجہ سے حاضر تھی یا تو اس کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دی گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ رہے تھے ۔ گو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نظر نہیں آتی تھی یا آپ کے سامنے سے پردہ ہٹا کر آپ کو دکھا دی گئی تھی۔
ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں۔
و قال بعض العلماء انما صلى عليه لانه يكتم ایمانه من قومه فلم يكن عنده يوم مات من يصلى عليه فلهذا صلى عليه (ص) قالوا فالغائب ان كان قد صلى عليه ببلدة لا تشرع الصلوة عليه ببلدة اخرى و لهذا لم يصلى النبي (ص) في غير المدينة لا اهل مكة ولا غيرهم و هكذا ابو بكر و عمر و عثمان و غيرهم من الصحابة لم ينقل انه صلى على احد منهم في غير البلدة التي صلى عليه فيها فالله اعلم
(البدایہ والنہایہ ج 3 ص 78)
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ نجاشی پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے جنازہ اس لئے پڑھایا تھا کہ وہ اپنے ملک حبش میں اپنا ایمان اپنی قوم سے چھپاتا تھا اور جس دن وہ فوت ہوا اس دن اس کے پاس وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو اس پر نماز جنازہ پڑھتا اس لئے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا ( ایسا ہی اگر کسی پر جنازہ کی نماز نہ پڑھی گئی ہو تو پھر اس پر غائبانہ پڑھنی درست ہوگی ) علماء نے کہا ہے کہ غائب پر اگر اس کے شہر میں نماز جنازہ پڑھی گئی ہو تو پھر کسی دوسرے شہر میں اس پر نماز جنازہ مشروع نہیں ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے مدینہ کے علاوہ کسی پر نماز جنازہ نہیں پڑھی نہ اہل مکہ پر اور نہ ان کے علاوہ دوسروں پر اور اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کسی کا غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا اور ان سے یہ منقول نہیں کہ ان میں سے کسی نے اس شہر کے علاوہ جس میں اس میت پر نماز جنازہ پڑھی گئی ہو کسی پر نماز جنازہ پڑھی ہو۔ امام ابن عبدالبر نے بھی کتاب التمہید میں لکھا ہے کہ: اکثر اہل علم اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص مانتے ہیں نجاشی کی میت کو آپ کے سامنے حاضرکر دیا گیا تھا۔ اس کا مشاہدہ کیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی یا اس کا جنازہ آپ کے سامنے اس طرح بلند کردیا گیا جس طرح اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا جب کہ قریش نے آپ سےسوال کیا تھا اسی طرح ابن عبدالبر رحمۃاللہ علیہ نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا بھائی نجاشی وفات پا گیا ہے۔ اس پر نماز جنازہ پڑھو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے صفیں بنائیں آپ نے چار تکبیرات پڑھیں اور ہم بھی گمان کرتے تھے کہ جنازہ آپ کے سامنے ہے۔
6۔ اگر غائب پر نماز جنازہ جائز ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ان اصحاب پر نماز جنازہ ضرور پڑھتے جو مدینہ سے باہر فوت ہو چکے تھے اور مسلمان بھی شرقا وغربا خلفاء راشدین پر نماز جنازه پڑھتے حالانکہ کسی سے یہ منقول نہیں
(فتح الملہم ج 2 ص 496)
7۔ علامہ شوکانی کہتے ہیں:
اعزار میں سے ان محدثین اور فقہاء کا قول ہے کہ اس ( نجاشی ) کے جنازہ کو آپ کے سامنے منکشف کر دیا گیا تھا یہاں تک کہ آپ نے اس کو دیکھ لیا تو اس کا حکم اس شخص کا ہوگا جس کو امام کے سامنے حاضر کر دیا گیا ہو جس کو امام تو دیکھتا ہے لیکن مقتدی اس کو نہیں دیکھتے ایسی صورت میں نماز
جنازہ پڑھنا بلا خلاف جائز ہے۔
اور اس سلسلہ میں استدلال واحدی کی بات سے کیا ہے جس کو بغیر سند کے اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے نجاشی کو ظاہر کر دیا گیا تھا آپ نے اس کو دیکھا اور نماز جنازہ پڑھی اور ابن حبان رحمۃاللہ علیہ نے جو حدیث حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کھڑے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہی خیال کرتے تھے کہ جنازہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہے۔
اور ابو عوانہ رحمۃاللہ علیہ نے بھی ابان وغیرہ عن یحیی رحمۃاللہ علیہ کے طریق سے جو روایت بیان کی ہے کہ ہم نے نماز جنازہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پیچھے پڑھی اور ہم یہی خیال کرتے تھے کہ جنازہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اعزار میں سے یہ بھی ہے کہ یہ نماز جنازہ نجاشی کے ساتھ مخصوص تھا اس لئے یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آنحضرت ﷺ نے کسی غائب میت پر سوائے نجاشی کے نماز جنازہ پڑھی ہو۔
(نیل الاوطارص 54 ج 4 )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں