اعتراض نمبر22
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله : 22
اذان واقامت کے کلمات کا حکم
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
امر بلال ان يشفع الاذان ويوتر الاقامة
ترجمہ : سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت کے کلمات ایک ایک بار کہیں۔
تخريج بخاري ج1كتاب الاذان باب الأذان مثني مثني صفحه 85 رقم الحديث 605-606 مسلم 1کتاب الصلوةباب الامر بشفع الاذان الخ ص 164 رقم الحديث 838
فقه حنفی
و الاقامة مثل الاذان انه يزيد فيها بعد الفلاح قد قامت الصلاة مرتين (هداية اولين كتاب الصلاة باب الاذان ص 87)
اقامت، اذان ہی کی طرح ہے۔ یہ فرق ہے کہ اقامت میں "حی علی الفلاح " کے بعد دو مرتبہ ” قد قامت الصلوۃ" کہتے ہیں۔
(فقہ و حدیث ص 61)
جواب:
راشدی صاحب نے ہدایہ سے یہ عبارت نقل کی ہے والاقامة مثل الاذان اس کی دلیل میں صاحب ہدایہ نے لکھا تھا هكذا فعل الملك النازل من السماء
(ہدایہ ص 87)
صاحب ہدایہ نے بات صاف کر دی ہے کہ یہ اقامت کسی فقیہ نے معاذ اللہ گھر سے نہیں گھڑی جبکہ اصل اذان واقامت اس فرشتے کی ہے جس نے حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اذان سکھائی تھی اس فرشتہ نے اقامت مثل اذان سکھائی تھی۔ راشدی صاحب نے آگے والی عبارت چھوڑ دی۔
فقہ حنفی کے دلائل
1۔ حضرت عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ اس فرشتے کی اذان اور اقامت دونوں دوہری دوہری تھیں۔
(ابن ابي شيبه ج 1ص 136 عبدالرزاق ج 1ص 461 و 462 آثار اسنن ج 1 ص 52 وسند صحیح ہزا استاد فی غایة الصحة المحلی ابن حزم ج 2 ص 158 حافظ ابن دقیق العید کہتے ہیں رجالہ الصحیح نصب الرایہ ج 1 ص 267 ابوداؤدج 1 ص 75)
2۔ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی اذان واقامت دو مرتبہ تھی۔
( ترمذی ج 1 ص 27)
3۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اذان واقامت دو دو مرتبہ سکھائی۔
( عبد الرزاق ج 1 ص 458)
4۔ عبدالعزیز بن رفیع فرماتے ہیں میں نے ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان واقامت سنی دونوں دودو
مرتبہ تھیں۔
( طحاوی ج 1 ص 93)
5۔ حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بھی اذان واقامت دو ہری کہتے تھے۔
(دارقطنی و اسناده صحیح آثار السنن ج 1 ص 53)
6۔ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی اذان واقامت دوہری دوہری تھی۔ ( عبدالرزاق ج 2 ص 462)
7۔ حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان واقامت کہتے سنا ان کی اذان واقامت دو دو مرتبہ ہوتی تھی۔
( رواه الطحادی و اسناده حسن، آثار السنن ج 2 ص 53)
8۔ حضرت ابو حجینہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اذان بھی دودو مرتبہ اور اقامت بھی دو دو مرتبہ کہا کرتے تھے۔
(رواه دارقطنی و الطبرانی)
9۔ محدث محاوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا دوہری اقامت کہنا تواتر سے ثابت ہے۔
( طحاوی ج 1 ص 92)
10- حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موذن اقامت دو دو مرتبہ کہا کرتا تھا۔
( عبدالرزاق ج 1 ص 463)
11۔ حضرت سعد بن قیس کہتے ہیں بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ اذان واقامت دو دو مرتبہ کہا کرتے
تھے ایک دن ایک موذن کو سنا جس نے ایک ایک مرتبہ کہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا دودو مرتبہ کیوں نہ کہی تیری ماں مر جائے۔
( ابن ابی شیبہ ج 1 ص 138 )
12۔ ابو اسحاق کہتے ہیں اصحاب علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سب کے سب اذان اوراقامت دو دو مرتبہ کہا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبه )
13- حضرت امام سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ نے منی میں اذان واقامت کہی جو دو دو مرتبہ تھی۔ ( عبدالرزاق ج 1 ص 462)
14۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک ایک مرتبہ اقامت کہنا امراء کی تخفیف ہے اقامت تو دو مرتبہ ہی ہے۔
(عبد الرزاق ج 1 ص 463، ابن ابی شیبہ ج 1 ص 138 طحاوی ج 1 ص 95)
اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں سنت متواترہ دوہری اقامت ہی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام اصحاب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تمام اصحاب میں بھی دو ہری اقامت ہی متواتر تھی۔ بعض امراء نے اختصار سے کام لے کر اقامت اکہری بنالی۔ پس ثابت ہوا کہ دوہری اقامت احناف نے گھر سے نہیں گھڑی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سب موذن حضرت ابومحذورہ رضی اللہعنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ دوہری اقامت ہی کہا کرتے تھے اور یہی خلافت راشدہ میں رائج تھی۔ خلافت راشدہ کے بعد بعض امراء نے اکہری تکبیر نکالی اور اپنے دور حکومت سے اس کو رواج دیا۔ راشدی صاحب نے سنتوں کے مٹانے پر کر باندھ رکھی ہے وہ جس حدیث سے دھوکا دے رہے ہیں ان میں اگر کلمات مراد لئے جائیں تو وہ سنت متواترہ کے خلاف ہو گی خود ان کے عمل کے بھی خلاف ہوگا کیونکہ وہ اذان میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہتے ہیں نہ کہ دو مرتبہ اور اقامت میں اللہ اکبر دو مرتبہ کہتے ہیں نہ کہ ایک مرتبہ اس لئے اس حدیث میں شفع سے مراد یہ ہوگا کہ اذان کے کلمات دو سانس میں ہوں اقامت کے ایک سانس سے۔
اذان:
الله اکبر اللہ اکبر اشهد ان لا اله الا الله
الله اكبر الله اکبر (شفع) اشهد ان لا اله الا الله
اشهد ان محمدا رسول الله
اشهد ان محمدا رسول الله
حي على الصلوة
حي على الصلوة (دو مرتبہ )
حی علی الفلاح
حى على الفلاح (دو مرتبہ )
اللہ اکبر اللہ اکبر
لا الہ الا اللہ
اقامت
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر وتر ایک سانس میں اشهد ان لا اله الا اللہ دونوں ایک سانس سے وتر اقامت میں سی دونوں کلمے ایک ہی سانس میں کہے۔ پس اس تطبیق سے احادیث میں کوئی اختلاف نہ رہا
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں