نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 24 :عورت کو مسجد جانے سے نہیں روکا جا سکتا


 اعتراض نمبر24

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔ 

مسئله :24

عورت کو مسجد جانے سے نہیں روکا جا سکتا

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اذا استأذنت امراة احدكم إلى المسجد فلا يمنعها ترجمہ: جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت طلب کرے تو اسے منع نہ کرو۔

(صحيح بخاري كتاب الاذان باب استذان المرأۃ زوجها في الخروج الي المسجد رقم الحديث 873 ج 1 ص 120) (صحیح مسلم کتاب الصلاة باب خروج النساء الي المساجد رقم الحديث 183)

فقه حنفی

يكره لهن حضور الجماعات ولاباس للعجوزن تخرج في الفجر و المغرب والعشاء

(هداية اولين ج1 كتاب الصلاة باب الامامة ص126)

 یعنی عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد جانا مکروہ ہے ۔ مگر بوڑھی عورت فجر، مغرب اور عشاء پڑھنے کے لئے جائے تو کوئی حرج نہیں۔ 

(فقہ وحدیث ص 63)

جواب:

راشدی صاحب نے ہدایہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی ہے پہلے ہم یہاں پر ہدایہ کی مکمل عبارت نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں گے۔

ہدایہ کی مکمل عبارت مندرجہ ذیل ہے۔

 ويكره لهن حضور الجماعات يعنى الشواب منهن لما فيه من خوف الفتنة ولا بأس للعجوز ان تخرج فى الفجر والمغرب والعشاء وهذا عند ابي حنيفة وقالا يخرجن فى الصلوات كلها لانه لا فتنة لقلة الرغبة فلا يكره كما فى العيد وله ان فرط الشبق حامل تقع الفتنة غير ان الفساق انتشارهم فى الظهر والعصر والجمعة اما في الفجر والعشاء هم نائمون وفى المغرب بالطعام مشغولون والجبانة متسعة فيمكنها الا اعتزال عن الرجال فلا يكر

 ترجمہ: اور مکروہ ہے عورتوں کے لئے جماعت میں حاضر ہونا ، یعنی جوان عورتوں کو کیونکہ ان کی حاضری میں فتنہ کا خوف ہے اور کوئی مضائقہ نہیں کہ بوڑھی عورتیں فجر و مغرب اور عشاء میں نکلیں یہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ہے صاحبین بینی یا فرماتے ہیں کہ بوڑھی عورتیں تمام تمام نمازوں میں نکل سکتی ہیں

کیونکہ ان میں کم رغبتی کی وجہ سے فتنہ نہیں ہے اس لئے مکروہ نہ ہو گا جیسے عید میں ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ شدت شہوت باعث جماع ہے اس لئے فتنہ واقع ہو گا صرف اتنی بات ہے کہ فاسق لوگ ظہر و عصر و جمعہ کے اوقات میں منتشر رہتے ہیں رہا فجر وعشاء کا وقت سو اس میں وہ سوتے رہتے ہیں اور مغرب کے وقت کھانے میں مشغول رہتے ہیں اور جنگل وسیع ہوتا ہے تو اس میں بوڑھی عورتوں کو مردوں سے علیحدہ ہونا ممکن ہے اس لئے ان کا عید میں جانا مکروہ نہیں۔

(غاية السعایہ شرح ہدایہ جلد 3 ص 305-304)

اس مسئلہ کے متعلق احادیث و آثار مختلف وارد ہوئے ہیں ۔ راشدی صاحب نے اجازت والی روایت تو نقل کر دی اور دوسری تمام روایات چھوڑ دی ہیں۔ ہم دو روایات یہاں پر نقل کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے فقہاء نے جوان عورتوں کے لئے مسجد میں جانا کر وہ کہا ہے۔

حدیث نمبر :1

عن عبد الله بن مسعود کی لا عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال المراة عورة وانها اذا خرجت استشرفها الشيطان و انها اقرب ما تكون الى الله وهي في قعر بیتها رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت واجب استر ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو ملتا ہے ، وہ اپنے رب کی رحمت کے اس وقت زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کی کوٹھری میں ہو۔

 (مجمع الزوائد ج 2 ص 35 ترمذی ص 189 )

اس مضمون کی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ 

(دیکھئے الترغیب والترہیب ج 1 ص 135)

حدیث نمبر :2

عن ابى موسى عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال كل عين زانية والمراة اذا استعطرت فمرت بالمجلس فهى كذا وكذا يعني زانية و هذا حدیث حسن صحیح 

( ترمذی ص 396)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہر آنکھ زنا کار ہے اور جب کوئی عورت خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرے تو وہ ایسی ہے یعنی زنا کار ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حدیث نمبر :3

عن الاشعری قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایما امراة استعطرت فمرت على قوم ليجدوا من ريحها فهى زانية

( نسائی ج 2 ص 343 مسند احمد ج 2 ص 246) 

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرے تا کہ انہیں اس کی خوشبو آئے وہ زانیہ ہے۔

حدیث نمبر :4

عن عبد الله بن مسعود قال انما النساء عورة و ان المراة لتخرج من بيتها وما بها من بأس فيستشرفها الشيطان فيقول انك لا تمرين باحداه الا العجبتيه وان المراة لتلبس ثيابها فیقال این تریدین فتقول اعود مريضاً او اشهد جنازة او صلى في مسجد و ما عبدت امراة ربها مثل ان تعبد فى بيتها . (رواه الطبراني في الكبير رجاله ثقات)

 مجمع الزوائد ج 2 ص 35 مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 384 ) 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورتیں واجب الستر ہیں جو عورت اپنے گھر سے بلا حجاب نکلتی ہے شیطان اس کو تاکتا کہتا ہے اور یہ کہتا ہے تو جس شخص کے پاس سے بھی گزرے گی اس کے دل کو لبھائے گی اور عورت اپنے کپڑے پہن کر نکلتی ہے اس سے کہا جاتا ہے تم کہاں جارہی ہو؟ وہ کہتی ہے میں بیمار کی عیادت کرنے جارہی ہوں یا جنازہ پڑھنے جا رہی ہوں یا مسجد میں نماز پڑھنے جارہی ہوں اور عورت کے گھر میں نماز پڑھنے کی مانند اس کی کوئی عبادت نہیں ہے اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ 

اوائل اسلام میں زخمیوں کی تیمار داری اور بیماروں کو پانی پلانے کے لئے عورتیں مردوں کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو غزوات میں جانے سے منع کیا۔

2۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے عورت کے گھر میں نماز پڑھنے کی مانند اس کی کوئی عبادت نہیں ہے۔

حدیث نمبر :5

عن ام كبشة انها قالت يا رسول الله اتاذن انا اخرج في جيش كذا و كذا قال لا قالت يا رسول الله انه ليس اريد ان اقاتل انما اريد اداوي الجرحى والمرضى او اسقى لمرضى قال لو لا ان تكون سنة و يقال فلانة خرجت لا ذنت لك ولكن اجلسی رواہ الطبراني في الكبير والاوسط ورجالها رجال الصحيح.

 (مجمع الزوائد ج 5 ص 324 323) حضرت ام کبشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ مجھے فلاں فلاں لشکر میں جانے کی اجازت دیتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا یا رسول اللہ میر الڑنے کا ارادہ نہیں ہے میں تو صرف زخمیوں اور بیماروں کو دوا دوں گی یا بیماروں کو پانی پلاؤں گی آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا تو آگے چل کر یہ چیز امر شرعی بن جائے گی اور اس سے یہ استدلال کیا جانے لگے کہ فلاں عورت جہاد میں گئی تھی تو میں تم کو اجازت دے دیتا لیکن ( اپنے گھر میں بیٹھو! اس حدیث کو امام طبرانی نے کبیر اور اوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح ہیں۔

حدیث نمبر 6

عن ام سلمة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال خیر مساجد السناء قعر بیو تھن رواہ احمد ابو یعلی۔ 

(مجمع الزوائد ج 2 ص 33 مستدرک حاکم ج 1 ص 209)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کی بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے۔

حدیث نمبر :7 

عن ام حمید قالت قلت یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يمنعنا ازواجنا ان تصلى معك ونحب الصلوة معك فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلوتكن في بیوتکن افضل من صلاتكن فى حجر کن و صلا تكن في حجر کن افضل من صلاتكن في دور كن وصلا تكن في دور كن افضل من صلاتكن في الجماعة رواه الطبراني في الكبير.

 ام حمید بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شوہر ہم کو آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا گھروں میں نماز پڑھنا بیرونی کمروں میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا بیرونی کمروں میں نماز پڑھنا حویلیوں میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا حویلیوں میں نماز پڑھنا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(مجمع الزوائد ج 2 ص 34 مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 384)

حدیث نمبر :8

عن ام سلمة قالت قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صلامة المراة في بيتها خير من صلاتها فى حجرتها وصلاتها في بيتها خير من صلاتها في دارها و صلاتها في دارها خير من صلاتها خارج 

(رواه الطبرانی فی الاوسط مجمع الزوائد ج 2 ص 34)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا اندر کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور برآمدے میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ 

(مجمع الزوائدج 2 ص 34)

حدیث نمبر :9

عن عبد الله عن النبي ﷺ قال صلوة العمراة في بيتها افضل من صلوتها فى حجرتها وصلاتها في مخدعها افضل من صلوتها في بيتها . 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا حویلی میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھڑی میں نماز پڑھنا گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ 

(ابوداؤدج 1ص 84)

حدیث نمبر :10

عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا تمنعوا نسائكم المساجد وبيوتهن خير لهن. 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی عورتوں کو مسجدوں سے مت روکو اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں۔

( فضل المعبود شرح ابی داؤد ج 1 ص 444 مستدرک حاکم ج 1 ص 209)

حدیث نمبر :11

عن سليمان ابن ابى حثمة عن امه قالت رايت النساء القواعد يصلين مع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم في المسجد. 

سلیمان بن ابی حثمہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا بوڑھی عورتیں مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتی تھیں۔

(مجمع الزوائد ج 2 ص 34)

حدیث نمبر :12

عن عائشة قالت لوادرك رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ما احدثت النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني اسرائيل فقلت لمعمرة او

منعن قالت نعم . 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا عورتوں نے جو ( بناؤ سنگھار ) اب ایجاد کیا ہے اگر اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لتے تو عورتوں کو مسجد میں جانے سے اس طرح روک دیتے جس طرح بنو اسرائیل کی عورتوں کو مسجد میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔ راوی نے عمرہ سے پوچھا کیا ان کو روک دیا گیا تھا ؟ فرمایا ہاں۔ ( بخاری ج 1 ص 120 موطا امام مالک مترجم ص 188 مصنف عبد الرزاق ج 3 ص 150)

حدیث نمبر :13

عن عائشة قالت بينها رسول الله ﷺ جالس في المسجد اذا دخلت امراة من مزينة ترفل فى زينة لها فى المسجد فقال النبي صلى الله عليه وسلم يا ايها الناس انهوا نسائكم عن لبس الزينة والتبختر في المسجد فأن بني اسرائيل لم يلعنوا حتى لبس نسائهم الزينة و يتبخترن في المساجد.

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک عورت آئی مزینہ کی اور بڑے ناز سے زینت کئے ہوئے مسجد میں داخل ہوئی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اے لوگو اپنی عورتوں کو منع کرو زینت کا لباس پہن کر اور ناز کے ساتھ مسجد میں آنے سے اس لئے کہ بنی اسرائیل پر لعنت نہیں ہوئی (یعنی اللہ کا غصہ ان پر نہیں اترا) یہاں تک کہ ان کی عورتوں نے بناؤ کیا اور مسجدوں میں ناز سے داخل ہونے لگیں۔

( ابن ماجه مترجم علامہ وحید الزمان ج 3 ص 276)

حدیث نمبر : 14

عن مولى ابى رهم اسمه عبيد ان ابا هريرة لقى امراة متطيبة تريد المسجد فقال يا امة الجبار این تریدین قالت المسجد قال و له تطیبت قالت نعم قال فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يقول ايما امراة تطیبت ثم خرجت الے المسجد لم تقبل لها صلوة حتى تغتسل.

ابورہم کے مولے (غلام آزاد ) سے جس کا نام عبید ہے روایت ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو مسجد میں جاتے دیکھا خوشبو لگائے ہوئے تھی۔ انہوں نے کہا اے خدا کی لونڈی تو کہاں جاتی ہے وہ بولی مسجد میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا تو خوشبو لگائی ہے وہ بولی ہاں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے جس عورت نے عطر لگایا اور مسجد میں گئی اس کی نماز قبول نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ غسل کرے ( یعنی خوشبو کو دھوڈالے اپنے بدن اور کپڑے سے )

تشریح: علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں

اب تک انصاری کا یہی حال ہے ان کی عورتیں گرجوں میں عمدہ عمدہ عطر لگا کر اور خوب بتاؤ سنگھار کر کے عمدہ لباس کے ساتھ بڑے ناز و انداز سے آتی ہیں اور صد با فساق وفجار ان کی قوم کے اور نیز دوسری قوموں کے بھی عورتوں کو گھورنے کے لئے گرجا میں جاتے ہیں نہ نماز سے غرض ہے نہ دعا سے اور مسلمانوں میں چونکہ اکثر عورتیں پردے میں رہتی ہیں اس وجہ سے ایسے موقع مسجدوں میں تو کم ملتے ہیں مگر میلوں ٹھیلوں اور بزرگوں کے عرسوں میں اکثر مسلمانوں کی عورتیں بناؤ سنگار کر کے جاتی ہیں اور پردے ہی کے اندر سے اپنا جوبن دکھلاتی ہیں اور ان کے مرد جو دیوث سے کم نہیں ہیں ان عورتوں کو ایسے برے کام سے نہیں روکتے جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے عورتوں کو بناؤ سنگار کر کے مسجد میں آنے سے منع کیا جہاں خدا کی عبادت کی جاتی ہے تو بازار یا میلہ یا عرس میں عورتوں کو اس طرح سے جانا سخت منع ہوگا البتہ اگر عورتیں موٹا لباس پہن کر بغیر زیب وزینت کے نماز کے لئے مسجد میں آئیں یا ضرورت سے بازار میں جائیں تو درست ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں یہ شائع تھا اور بعضوں نے اس زمانہ میں مطلقاً عورتوں کو باہر نکلنا منع رکھا ہے بوجہ فتنہ کے اور بعضوں نے بوڑھی عورتوں کے لئے جائز رکھا ہے۔ واللہ اعلم۔ 

(ابن ماجه مترجم علامہ وحید الزماں ج 3 ص 276)

حدیث نمبر :15

عن ام حميد امراة ابى حميد الساعدى انها جائت النبي صلی اللہ عليہ وسلم فقالت یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم انى احب الصلوة معك قال قد علمت انك تحبين الصلوة معى وصلاتك في بيتك خير من صلاتك في حجر تك وصلاتك في حجرتك خير من خير من صلاتك في دارك و صلاتك في دارك خير من صلاتك في مسجد قوم و صلاتك في مسجد قومك خير من صلاتك فى مسجد قالت فامرت فبنى لها مسجد فى اقصى بيت في بيتها واظلمه فكانت تصلى فيه حتى لقيت الله عز وجل. رواه احمد 

( مجمع الزوائد ج 2 ص 34 و 33) ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی زوجہ ام حمید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ کے ساتھ ( مسجد میں نماز پڑھنا اچھا لگتا ہے آپ نے فرمایا مجھے علم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا اچھا لگتا ہے (لیکن) تمہارا اپنے گھر کے (کسی اندرونی ) کمرے میں نماز پڑھنا (بیرونی) کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور گھر کے صحن ) میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ (یہ سن کر ) ام حمید رضی اللہ عنہ نے (اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ میرے لئے گھر کے تاریک ترین کمرے میں میری نماز کی جگہ بنا دو ( پھر ان کے لئے نماز کی جگہ بنائی گئی اور وہ وفات تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔

حدیث نمبر :16

عن ابي عمر و الشيبانى انه راى عبد الله يخرج النساء من المسجد

يوم الجمعة ويقول اخرجن الى بيوتكن خير لكن.

(رواہ الطبرانی فی الكبير و رجاله موثقون مجمع الزوائد ج 2 ص 35) ابوعمر وشیبانی کہتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکالتے تھے اور کہتے ہیں اپنے گھروں کو چلی جاؤ یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔

حدیث نمبر :17

ولعمر عند احمد بن سالم قال كان عمر رجلا غيورا فكان اذا خرج الى الصلوة تبعته عاتكة بنت زيد فكان يكره خروجها و یکره منعها و كان يحدث ان رسول الله ﷺ قال اذا استاذنكم نسائكم الى الصلوة فلا تم نعوهن.

( مجمع الزوائد ج 2 ص 33)

سالم کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک غیرت مند آدمی تھے اور وہ جب نماز کے لئے نکلتے تو ان کی اہلیہ ) عاتکہ بنت زید بھی ان کے پیچھے چلی آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کا نکلنا نا پسند تھا لیکن وہ انہیں روکنے کو بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے وہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہاری عورتیں تم سے نماز کے لئے جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔

حدیث نمبر :18

عن ابي عمر و الشیبانی قال رایت ابن مسعود يحصب النساء يخرجهن من المسجد يوم الجمعة. 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 384)

ابو عمر والشیبانی کہتے ہیں میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ کنکر مار مار کر جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکالتے تھے۔

حدیث نمبر : 19

عن ابي هريرة عن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال لولا ما في البيوت من النساء والذرية اقمت صلوة العشاء و امرت فتياني يحرقون ما فى البيوت

بالنار 

( مشکوۃ مترجم ج 1 ص 228) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نقل کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر گھر میں عورتیں نہ ہوتیں اور اولاد ( بچے) حکم کرتا میں عشاء کی نماز کو قائم کرنےکا اور حکم کرتا اپنے خادموں کو کہ جلاتے اس چیز کو جو گھروں میں آگ کے ساتھ۔

حدیث نمبر :20

عن ابی عمر عن النبي ﷺ قال اذا استأذنكم نسائكم بالليل الى المسجد فأذنوالهن.

( بخاری ج 1 ص 119)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہاری عورتیں رات کو مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو ان کو اجازت دے دو۔

اس حدیث میں رات کو اجازت دینے کا حکم دیا ہے اس سے علی الاطلاق عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دینے کا ثبوت لازم نہیں آتا۔

حدیث نمبر : 21

عن زيد بن خالد قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا تمنعوا اماء الله مساجد الله و لکن یخرجن وھن تفلات

( کشف الاستار ج 1 ص 222)

حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے منع نہ کرو عورتوں کو چاہئے کہ وہ بغیر خوشبو لگائے جائیں۔ 

حدیث نمبر :22

عن ابي هريرة قال ان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قالا لا تمنعوا اماء الله مساجد الله و لکن یخرجن وھن تفلات

(فضل المعبود ج 1 ص 443)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے مت روکو لیکن جب وہ گھروں سے نکلیں تو زیب وزینت کے بغیر آئیں۔ اس حدیث میں اجازت کے باوجود ایک سخت قسم کی قید بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگا دی ہے جس پر آج کل عمل بہت کم ہوتا ہے۔ اکثر عورتیں زیب وزینت کے ساتھ ہی مسجدوں میں آتی ہیں۔

حدیث نمبر : 23

عن عبدالله ابن عباس امن امراة سألته عن الصلوة في المسجد يوم الجمعة فقال صلاتك في مخدعك افضل من صلاتك في بيتك و صلاتك في بيتك افضل من صلاتك في حجرتك وصلاتك في حجر تك افضل من صلاتك في مسجد قومك . 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 384) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک عورت نے مسجد میں جمعہ پڑھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا تمہارا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ ان احادیث کے علاوہ قرآن پاک کا حکم بھی موجود ہے۔

وقرن في بيوتكن ولا تبرجن تبرج الجاهلية الاولى.

(احزاب 33)

اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پر انی جاہلیت کی بے پردگی کے ساتھ نہ رہو۔ 

مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر فقہاء کا کہنا ہے کہ مردوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا حکم تاکیدی تھا لیکن عورت کے لئے یہ حکم نہ استحباب کے لئے تھانہ تاکید کے لئے۔ الغرض فقہاء نے فتنہ کی وجہ سے عورتوں کو مساجد میں آنے سے روکا ہے فتنے کا احساس جب خیر القرون میں ہی ہو گیا تھا تو اس دور میں فتنے کا انکار کون کر سکتا ہے اور کس آیت اور حدیث میں ہے کہ فتنہ کی حالت میں ہی عورتوں کو مسجد میں جانے کی تاکید ہے؟

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...