نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 25: مسئلہ: بھول معاف

 اعتراض نمبر 25

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں

مسئلہ: بھول معاف

حدیث نبوی ﷺ

عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ قال ان الله تجاوز عن امتى الخطا والنسيان وما استكرهوا عليه

ترجمہ: سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے میری امت سے خطا بھول اور وہ کام جو اس سے زبردستی کروایا گیا ہو معاف کر دیئے ہیں۔

(سنن ابي ماجہ کتاب الطلاق باب طلاق المكره والناسي رقم الحديث 2045۔2043)

(رواه البيهقي ، رقم الحديث 19798.عن عبدالله بن عباسؓ) 

 فقه حنفي

ومن تكلم في صلوة عامدا اوساهيا بطلت صلوته (هداية اولين کتاب الصلوة باب مايفسد الصلوةص134)

جس نے دوران نماز جان بوجھ کر یا بھول کر بات چیت کر لی، اس کی نماز باطل ہوگئی۔

(فقہ وحدیث64)

جواب:

کئی روایات سے ثابت ہے کہ ابتدا میں نماز کے دوران میں گفتگو کر لینے کی اجازت تھی اور صحابہ کرام نماز کی حالت میں سلام کا جواب دینے کے علاوہ آنے والے کو بھی بتا دیتے تھے کہ کتنی رکعات ہوگئی ہیں لیکن بعد میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی اور نماز کی حالت میں ہر قسم کی گفتگو منوع قرار پائی۔

احناف کا استدلال مندرجہ ذیل روایات سے ہے۔ 

حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ ہم نماز کی حالت میں باتیں کیا کرتے تھے۔ آدمی نمازی حالت میں اپنے ساتھ کھٹرے آدی سے بات چیت کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت اتری" و قوموا للہ قانتین"( اور اللہ کے حضور خاموشی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ) چنانچہ ہمیں سکوت کا حکم دیا گیا اور کلام کرنے سے منع کر دیا گیا۔ (صحیح مسلم ج 1 ص 204)


حضرت معاویہ بن حکم سلمیؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نماز کے دوران میں یوں ہوا کہ ایک آدمی نے چھینک ماری تو میں نے اسے "یرحمک اللہ" کہہ دیا۔ اس پر صحابہ کرام نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا کہ کیا بات ہے؟ کیوں تم میری طرف گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ تو صحابہ کرام اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ نماز کے بعد حضور ﷺ نے مجھے سمجھایا اور کہا۔ بے شک نماز میں لوگوں کی باتوں میں سے کوئی بات کرنا درست نہیں ہے۔ یہ تو صرف تسبیح اور تکبیر اور قران کی قرات کا نام ہے (صحیح مسلم ج 1ص 203)

اس حدیث میں جان بوجھ کر کلام کرنے یا بھول چوک سے کلام کرنے میں کوئی فرق نہیں۔

حکم دونوں صورتوں کو عام ہے

عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ پہلے ہم حضور ﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کرتے تو آپ اس کا جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم ہجرت حبشہ سے واپس آۓ تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونماز کی حالت میں سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا۔ اس پر مجھے بہت تشویش لاحق ہوئی میں وہیں بیٹھ گیا ، جب حضور نے نماز مکمل کر لی تو فرمایا کہ اللہ تعالی اپنے احکامات میں سے جو چاہتا ہے بھیجتا ر ہتا ہے۔ اب اس نے حکم اتارا ہے کہ نماز کے دوران میں کلام نہ کیا جائے ۔ ( سنن نسائی ج1 ص 181) 


عبداللہ بن مسعودؓ نے دو دفعہ ہجرت حبشہ کی تھی۔ پہلی دفعہ ہجرت کرنے کے بعد پھر مکہ واپس چلے گئے تھے جب کہ دوسری ہجرت کرنے کے بعد وہاں سے 2 ہجری میں ،غزوہ بدر سے کچھ پہلے مدینہ منورہ چلے آۓ۔ 

(فتح الباری ج2ص60.البدایہ والنہایہ ج 3ص69)

اس روایت سے دوسری واپسی کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے دوران میں گفتگو کی اجازت 2 ہجری میں غزوہ بدر سے پہلے منسوخ ہوچکی تھی۔ رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ امت کو بھول چوک یا غلطی سے کئے گئے کاموں کا گناہ نہیں ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی عمل بھول کر یا غلطی سے حکام شرعیہ کے خلاف کر لیا جاۓ تو وہ ادا نہ ہو۔ چنانچہ اس روایت کے صحیح مفہوم کی رو سے یہ بات تو درست ہے کہ بھول کہ نماز میں کلام کر لینے سے گناہ نہیں ہوگا۔ لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے کہ اس صورت میں نماز بھی ادا ہو جاۓ گی۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...