اعتراض نمبر:27
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله: کتے کی خرید وفروخت کا حکم
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن مسعود الانصاریؓ ان رسول اللہ ﷺ نهى عن ثمن الكلب و مهر البغي وحلوان الكاهن۔
ترجمہ: سیدنا ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت اور زنا کی اجرت اور نجومی کا منہ میٹھا کرانے سے منع فرمایا۔
(بخاري ج 1 كتاب البيوع باب ثمن الكلب ص 298 ، رقم الحديث 2237)
فقه حنفی
يجوز بيع الكلب والفهد والسباع (هداية آخرين 37 كتاب البيوع مسائل منشورة ص 101)
یعنی کتے ، چیتے اور دوسرے درندوں کی تجارت جائز ہے۔
(فقہ و حدیث 66)
جواب:
امام ابوحنیفہؒ کا موقف یہ ہے کہ احادیث میں مذکور نہی اس زمانے سے متعلق ہے جب کتوں کے بارے میں شریعت کے احکام بہت سخت تھے ۔ اور اس کی وجہ تھی کہ اہل عرب میں کتوں کے ساتھ غیر معمولی انس اور محبت پائی جاتی تھی اور ان کے گھروں میں کتوں کو شوقیہ پالنے کا بکثرت رواج تھا۔ یہ انس و محبت کا تعلق ان کے دل سے نکالنے کے لئے ابتداء میں بہت سخت احکام دیئے گئے جو کہ بعد میں بتدریج نرم ہوتے گئے اور آخر میں یہ حکم
ٹھہرا گیا کہ کسی ضرورت کی غرض سے تو کتے کو پال لینے کیاجازت ہے لیکن شوقی طور پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
عبدالله بن ابن المغفل قال امر رسول اللہ ﷺ بقتل الكاب ثم قال ما بالهم وبال الكلاب ثم رخص في كلب الصيدو كلب الغنم (مسلم شریف ج2ص25)
حضرت ابن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ( ابتدا میں ) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کتے لوگوں کو کیا تکلیف دیتے ہیں پھر آپ نے شکاری کتے اور بکریوں ( کی حفاظت کے لئے ) کتوں کو پالنے کی اجازت دے دی۔ ( کتوں کو قتل کرنے کی روایات بہت زیادہ ہیں دیکھئے مسلم کتاب المساقات والمزراعه )
اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے۔
۱۔پہلے کتے کو دیکھتے ہی قتل کرنے کا حکم تھا۔
۲۔ پھر قتل کرنے کا حکم تو منسوخ ہو گیا مگر کتوں کو پالنا پھر بھی منوع ہی رہا۔
۳۔ پھر شکاری کتے اور بکریوں کی حفاظت کے لئے پالنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ چنانچہ شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لئے کتے کو پالنے کی اجازت کی صریح روایات
حضرت عبداللہ بن بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو ہریرہؓ اور سفیان بن زبیرؓ سے مروی ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب المساقات والمزراعہ)
2. عن ابي هريرة عن رسول اللہ ﷺ قال من اقتني كلبا ليس بكلب صيدولا ماشية ولا ارض فانه ينقص من أجره قيراطان كل يوم۔
(مسلم شریف مترجم ج 4 ص 306 حدیث نمبر 8193)
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے شکار مویشی اور زمین کے علاوہ کتا پالا۔( یا رکھا) اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ان تین وجہوں سے کتا پالنے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بعد کے زمانے ہی کی ہے۔ جس وقت کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو چکا تھا۔
3.قرآن پاک میں بھی کتے کے شکار کا ذکر ملتا ہے۔
فَکُلُوۡا مِمَّاۤ اَمۡسَکۡنَ عَلَیۡکُمۡ وَ اذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۴﴾
تو کھاؤ اس شکار میں سے جو وہ (شکاری کتے وغیرہ ) مار کر تمہارے لئے رہنے دیں اور اس پر اللہ کا نام لو۔
(پارہ نمبر 6 سورۃ المائدہ آیت نمبر 4)
آنحضرت ﷺ نے عدی بن حاتمؓ سے فرمایا کہ
"اذا ارسلت الكلب المعلم و ذکرت اسلم الله عليه فأخذ فكل"
جب تو اللہ تعالی کا نام لے کر سیدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑ دے اور کتا اسے پکڑ لے تو ایسے شکار کا کھانا تیرے لئے جائز ہے۔ (نسائی ج2ص192)
ان روایات کے پیش نظر امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جائز ضروریات کے لئے کتے کو پالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا درست ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی خرید وفروخت کرنا بھی درست ہے۔ اس وجہ سے جن بعض روایات میں کتوں کی خرید وفروخت سے ممانعت آئی ہے۔خود انہی روایات میں یہ استثناء بھی ثابت ہے چنانچہ دیکھئے مندرجہ ذیل روایات
۱۔ عن جابر ان النبی ﷺ نهى عن ثمن الستور والكلب الا
کلب صید۔
( نسائی کتاب الصید ج 2 ص 1 95 مسنداحمدج3ص317 )
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے بلی اور کتے کی بیچ سے منع فرمایا۔ مگر شکاری کتے کی بیچ ہے
2.عن ابي هريرة قال نهى عن ثمن الكلب الاكلب الصيد. ( ترمذی ج 1 ص 154 دار قطنی ، ج 3ص 73 سنن الکبری بہقی ج 2 ص 6)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہا انہوں نے منع کیا ( حضور اکرم ﷺ نے کتے کی قیمت سے ۔ مگر شکاری کتے کی قیمت کو یعنی اس کو منع نہیں کیا۔
3.ابن عباسؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ "في ثمن كلب الصيد" حضور ﷺ نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی اجازت دی۔
(مسند امام اعظم 169 نصب الرایہ4ص54)
اس کے علاوہ طحاوی اور سنن الکبری بیہقی میں عبداللہ بن عمروؓ اور سنن بیہقی میں حضرت عثمانؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کے شکاری کتے کو قتل کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے (قضی فی کلب صیدقله رجل باربعین درهما)فیصلہ فرمایا کہ کتے کا قاتل اس کے مالک کو چالیس درہم اور بیس اونٹوں کا تاوان ادا کرے۔
( بیہقی ج8ص6 طحاوی ج 2ص 228)
اگر شکاری کتے کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی تو مندرجہ بالا فیصلہ ہرگز نہ فرمایا جاتا۔ان روایات میں شکاری کتے کی بیچ کی اجازت مذکور ہے جب کہ کھیتی اور ریوڑ کے محافظ کتے کی خرید و فروخت کی اجازت اس پر قیاس کرنے سے ثابت ہوگی۔ اور جو روایت راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ وہ پہلے زمانے کی ہے۔ جب کتوں کوقتل کرنے کا حکم تھا جب شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لئے کتا رکھنے کی اجازت ہوگئی تو شکاری کتے کی بیچ کی اجازت بھی بعد میں ہو گئی تھی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں