اعتراض نمبر 28
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله: مسجد میں نماز جنازہ کا حکم
حدیث نبوی ﷺ
عن ابي سلمة بن عبدالرحمان ان عائشة لما توفى سعد بن ابي الوقاص قالت ادخلوابه المسجد حتى اصلى عليه فأنكر ذلك عليها فقالت والله لقد صلى رسول اللہ ﷺ على ابنى بيضاء في المسجد سهیل واخيه
(مسلم ج 1 کتاب الجنائز فضل في جواز الصلاة على الميت في السمجدص 313، رقم الحديث 2254)
ترجمہ: سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اس کی میت کو مسجد میں لے آؤ، تا کہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھ سکوں تو ان کی اس بات کو عجیب جانا گیا، تب انہوں نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی تھی۔
فقه حنفی
"ولا يصلى على ميت فی مسجد جماعة"
(هداية اولین ج1 کتاب الصلاةباب الجنائز فصل في الصلاة علي الميت ص180)
یعنی میت پر مسجد میں یعنی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
(فقہ وحدیث 67)
جواب:
ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں شروع دور میں یہ دستور تھا کہ جب کسی صحابی کی وفات ہو جاتی تھی تو آنحضرت ﷺ اس کے گھر تشریف لے جا کر بموقع دفن نماز جنازہ پڑھادیتے تھے لیکن جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس میں آپ کی مشقت اور تکلیف کا احساس کیا تو انہوں نے میت آپ کے دردولت پر لانی شروع کر دی۔ اور آپ کے گھر کے قریب ایک جگہ تجویز کر لی جہاں میت کو رکھ کر آپ کو اطلاع کی جاتی۔ آپ تشریف لا کر اس متعین جگہ پر نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔ متعین جگہ ( جنازہ گاہ) مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کی مشرقی دیوار کی طرف مسجد نبوی سے باہرتھی اس جگہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام مستقل نماز جنازہ پڑھاتے تھے ۔اس جگہ کا نام موضع جنائز اور مصلی جنائز تھا۔اس جگہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شاہ حبشہ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔اور اسی جگہ کے قریب دو زنا کار یہودی مردو عورت کو سنگسار کیا گیا تھا۔ اسی موضوع جنائز میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی جگہ جنازہ پڑھاتے تھے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل کے علاوہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان بھی موجود ہے۔ کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھتا ہے اسے کوئی اجر نہیں ملتا۔ حنفی مسلک کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
1 .عن ابن شهاب قال كان رسول الله ﷺ اذا هلك الهالك شهده يصلى عليه حيث يدفن فلما ثقل رسول الله ﷺ و بدن نقل اليه المومنون موتا هم فصلى عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنائز عند بيته في موضع الجنائز اليوم ولم يزل ذالك جاريا۔
( وفاء الوفاء باخبار دار مصطفی ج 2 ص 532 )
حضرت ابن شہاب زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کی وفات ہو جاتی تھی تو رسول اللہ ﷺ بموقع دفن نماز پڑھانے کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا وجود بھاری ہوگیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جانا دشوار ہو گیا) تو صحابہ کام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے میت کو آپ کے مکان کے قریب ہی لے جانا شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے مکان کے قریب موضع جنائز میں نماز جنازہ پڑھاتے۔ یہی دستورآج تک چلا آرہا ہے۔
2.عن ابن شهاب قال حدثني سعيد ابن المسيب ان ابا هريرة قال ان النبی ﷺ صف بهم بالمصلى فكبر علیه اربعا۔ (بخاری ج1 ص177)
حضرت ابن شہاب زہری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سعید بن المسيب رحمۃاللہ علیہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے مصلی جنائز میں لوگوں کی صف بندی کی اور نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔
3.عن عبدالله بن عمر ان اليهود جاوا الى النبي ﷺ برجل منهم و امراة زنيا فأمر بهما فرجا قريبا من موضع الجنائز عند المسجد
(بخاری ج1ص177)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی نبی ﷺ کے پاس اپنے ایک ایسے مرد و عورت کو لاۓ جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ نے ان کے بارے میں سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انہیں موضع جنائز کے قریب مسجد نبوی سے متصل سنگسار کیا گیا۔
4.قال محمد لا يصلى على جنازة في المسجد وكذالك بلغتا عن ابي هريرة و موضع الجنازة بالمدينة خارج من السمجد و هو الموضع الذي كان النبي صلی اللہ عليہ وسلم يصلى على الجنازة فيه.
(موطا امام محمد ص 165)
حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھی جاۓ۔ایسے ہی پہنچا ہے ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مدینہ طیبہ میں موضع جنائز مسجد نبی ﷺ سے باہر ہے اور یہ وہی جگہ ہے جہاں نبی ﷺ نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔
5. عن وائل بن داود قال سمعت قال لما مات ابراهيم بن النبی ﷺ فى المقاعد
(ابوداد ج2 ص98)
حضرت وائل بن داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے سنا انہوں نے فرمایا کہ جب نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ نے ان کی نماز جنازہ مقاعد (مصلی جنائز) میں پڑھی۔
6.انبا ابن جريج قال قلت لنا فع اكان ابن عمر يكره ان يصلى وسط القبور قال لقد صلينا على عائشة رضی اللہ عنہاوأم سلمة رضی اللہ عنہا وسط ابقيع والامام يوم صلينا علی عائشة رضی اللہ عنہاابو هريرة رضی اللہ عنہ وحضر ذالك عبدالله بن عمر.
(سنن کبری بہقی ج2ص435 مصنف عبدالرزاق ج3ص525)
حضرت ابن جریح رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ سے عرض کیا کہ کیا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قبروں کے درمیان نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھے تھے ؟ تو آپ نے فرمایا ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ بقیع کے درمیان میں پڑھی تھی۔ جب ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھی تو امام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔
ان چھ روایات سے یہ بات اچھی طرح واضع ہو جاتی ہے کہ جنازہ کے لئے ایک جگہ مقرر تھی۔ (یعنی جنازہ گاہ) اس میں جنازہ پڑھا جاتا تھا۔
7. عن ابي هريرة قال قال رسول الله ﷺ من صلى على جنازة في المسجدفلا شی له.
(ابوداد د ج2ص98، ابن ماجہ ص 110مصنف عبدالرزاق ج3ص527)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔
8.عن صالح مولى التوامة عن ابي هريرة قال قال رسول صلی اللہ علیہ وسلم من صلى على جنازة فی المسجد فلاشی له قال صالح وادركت رجالا ممن ادركو النبی ﷺ و ابابکر اذا جاوا فلم يجدوا الا ان يصلوا في المسجد رجعوا فلم يصلوا.
(منحة المعبود فی ترتیب مسندالطیالسی ابی داؤدج 1 ص165)
حضرت صالح مولی توامۃ رحمۃاللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ حضرت صالح فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے۔ دیکھا کہ وہ جب نماز جنازہ کے لئے آتے اور انہیں نماز جنازہ کے لئے مسجد کے سوا کوئی جگہ ملتی تو وہ واپس ہوجاتے اور مسجد میں نماز جنازہ نہ پڑھتے۔
9. عن صالح مولى التوامة عن ابي هريرة قال قال رسول الله ﷺ من صلى على جنازة في المسجد فلاشی له قال وكان اصحاب رسول اللہ ﷺ اذا تضايق بهم المكان رجعوا ولم يصلوا .
(مصنف ابن شیبہ ج 3ص364)
حضرت صالح مولی توامتہ رحمۃاللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے مسجد میں نماز پڑھی اس کے لئے کوئی اجر نہیں ۔ حضرت صالح فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب نماز جنازہ کے لئے جگہ تنگ ہو جاتی تو واپس چلے جاتے تھے۔ مسجدمیں نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔
10.عن صالح مولى الثوامة عمن ادرك ابابکر و عمر انهم كانوا اذا تضايق بهم المصلى انصرفوا ولم يصلوا على الجنازة في المسجد.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3ص365)
حضرت صالح مولی توامۃ ان صحابہ و تابعین سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے کہ جب نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ تنگ ہو جاتی تو وہ واپس چلے جاتے تھے۔ مسجد میں نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔
11.عن كثير بن عباس قال لا عرفن ما صليت ما جنازة في المسجد.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 365 مصنف عبدالرزاق ج 3ص527)
حضرت کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ (عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں) کسی بھی جنازہ کی نماز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پڑھی گئی۔
12.عن ابن ابي ذئب عن المقبري انه رای حرس مروان بن الحكم يخرجون الناس من المسجد يمنعونهم ان يصلوا فيه على الجنائز
( وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ج2ص531)
حضرت ابن ابی ذئب سعید بن ابی سعید مقبری (متوفی 125 ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مروان بن حکم کے سپاہیوں کولوگوں کو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے سے روکتے اور نکالتے ہوۓ دیکھا ہے۔
13.عن كثير بن زيد قال نظرت الى حرس عمر بن عبدالعزيز يطردون الناس من المسجد ان يصلى على الجنائز فيه.
(وفاء الوفاء باخبار وارا لمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ج2ص531)
حضرت کثیر بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ کے سپاہیوں کونماز جنازہ مسجد میں پڑھنے سے روکتے ہوۓ دیکھا ہے۔
14.قال وقال مالك واكره ان توضع الجنازة في المسجدفان وضعت قرب المسجد للصلوة عليها فلا باس ان يصلى من في المسجد عليها بصلوة الامام الذي يصلى عليها اذا ضاق خارج المسجد بأهله -
( المدونۃ الکبری ج 1 ص 177)
حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں جنازہ کے مسجد میں رکھے جانے کو مکروہ سمجھتا ہوں ہاں اگر نماز جنازہ کے لئے مسجد کے قریب جنازہ رکھا جاۓ تو پھر اس شخص کے لئے نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو مسجد میں ہو اور جنازہ پڑھانے والے امام کی اتباع سے جنازہ پڑھے یہ بھی اس وقت ہے جب کہ مسجد کے باہر کی جگہ جنازہ پڑھنے والوں کی وجہ سے تنگ ہو جائے۔
٭ علامہ ابن قیم رحمۃاللہ علیہ کی تحقیق۔
حافظ ابن قیم رحمۃاللہ علیہ مسجد میں نماز جنازہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
و الصواب ما ذكرناه اولا و ان سنة و هديه الصلوة على الجنازة خارج المسجد الا لعذر و لا الامرين جائز والا فضل الصلوة عليها خارج المسجد
(زادالمعادفی حدی خیر العبادج 1 ص 140)
درست بات وہی ہے جو ہم پہلے ذکر کر چکے۔اور نبی ﷺ کی سنت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ہی پڑھنا ہے الا یہ کہ کوئی عذر پیش آجاۓ اور دونوں امر جائز ہیں لیکن افضل یہی ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھی جائے۔
مذکورہ دلائل سے حنفی مسلک اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔ مولانا راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے غلط ہے۔ رہی وہ روایت جوانہوں نے نقل کی ہے اس کا جواب میں ہے۔ کہ ابن بیضاء کی نماز جنازہ تو معمول کے مطابق موضع جنائز میں ہی خارج المسجد ہی ہوئی تھی البتہ اس موقع پر جمع ہونے والے لوگ زیادہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں آگئے تھے۔اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ سمجھیں کہ نماز جنازہ مسجد میں ہوئی تھی شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کی تصدیق منقول نہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اشتباہ ہوا ہے ورنہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک واقعہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آیا ہو وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک کو بھی یاد نہ رہے سارے کے سارے ہی بھول جائیں۔
صرف سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یاد رہے۔ دوسرے حضرت کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ دور رسالت میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی کی بھی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی وہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کواشتہاہ ہی ہوا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں