اعتراض نمبر 29
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله: کافر کا قصاص مسلمان سے نہیں لیا جاۓ گا.
حدیث نبویﷺ
عن على عن النبي ﷺ قال الالا يقتل مسلم بكافر
ترجمہ: سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ کافر کے عوض مسلمان کوقتل نہیں کیا جاۓ گا۔
(ابوداؤد ج 2 کتاب الديات باب ايقاد المسلم من الكافرص275. رقم الحديث 4530)
(نسائي ج2 كتاب قامة والقودوالديات سقوط القود من المسلم للكافرص241.رقم الحديث 4739)
(واللفظ ابی داؤد)
فقه حنفی
والمسلم بالذهی۔۔۔۔۔ الخ
(هداية آخرين كتاب الديات ص562)
مسلمان اورزمی کافر کی دیت برابر ہے۔
(فقہ و حدیث68)
جواب:
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان حربی کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے گا اور زمی کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ اور حدیث میں جو آیا ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جاۓ گا۔اس سے مراد حربی کافر ہے نہ کہ ذمی۔ امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے اس نظریہ کی تائید اس حدیث میں موجود ہے۔
راشدی صاحب نے مکمل حدیث نقل نہیں کی ۔اس حدیث میں بکافر کے بعد ولا ذوعھد فی عھدہ کے الفاظ بھی تھے۔راشدی صاحب نے نقل نہیں کئے۔ کیونکہ ان الفاظ سے امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے نظریہ کی کھلی تائید ہوتی ہے۔اب روایت کا صحیح مفہوم اس طرح بنتا ہے۔
اور خبر دار کافر (حربی ) کے بدلے میں مسلمان نہ مارا جائے اور نہ عہد والے (یعنی ذمی) کو مارا جاۓ جب تک کہ وہ عہد وضمان میں ہے۔
اس روایت میں ذمی کا ذکر الگ سے کیا گیا ہے کہ اگر کسی ذمی نے کسی حربی کافر کو مار دیا تو اسے بھی مسلمان کی طرح بدلے میں نہیں مارا جائے گا۔ اس سے امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ اس حدیث میں کافر سے مراد حربی ہے نہ کہ ذمی کیونکہ ذمی کا حکم مسلمان کی طرح آپ نے فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے علاوہ اور روایات میں بھی یہ الفاظ آۓ ہیں مثلا۔
1.حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔-
"لا يقتل مومن بكافر ولا ذو عهدفى عهده"
نہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور نہ کسی ذمی کو جو عہد ذمہ میں ہو۔
(سنن الکبری ج 8 ص 39)
2.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
"لا يقتل مسلم بكافر ولا ذو عهد في عهده."
(سنن الکبری ج8ص30)
نہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور نہ کسی ذمی کو جو عہدوذمہ میں ہو۔
3.حضرت معقل بن یسار سے روایت ہے۔
"لا يقتل مومن بكافر ولا ذو عهد في عهده والمسلمون"
(سنن الکبری ج 8 ص 30)
نہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کیا جاۓ گا اور نہ کسی ذمی کو جوعہد ذمہ میں ہو۔
4.حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے۔
لا يقتل "مومن بكافر ولا ذو عهد في عهدة"
(سنن الکبری ج 8 ص 30)
نہ کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور نہ کسی ذمی کو جو عہد ذمہ میں ہو۔
(ابن ماجہ مترجم ج2ص136)
ان چار روایات سے بھی امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ حدیث میں کافر سے مراد حربی کافر ہے اگر اس حدیث میں کافر حربی مراد لیا جاۓ تو امام صاحب رحمۃاللہ علیہ کا مذہب حدیث کے مطابق خود ہی ثابت ہو جاتا ہے۔ راشدی صاحب نے ہدایہ سے جو عبارت تعارض میں نقل کی ہے اس میں ذمی کا ذکر ہے۔ خاص ذمی کافر کے بدلے قتل کیا جاۓ ذکر بھی حدیث میں موجود ہے۔مثلاً
الف۔۔۔۔ عن ابن البيلماني عن ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ قتل مسلما بمعاهد وقال انا اكرم من وفى بذمته
(سنن الکبری ج 8 ص 30)
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کو ایک ذمی کے بدلے میں قتل کیا اور کہا جو شخص اپنا ذمہ پورا کرے میں اس کا بدلہ لینے کا زیادہ حق دار ہوں ۔
عن محمد بن المنكدر عن عبدالرحمن بن البيلماني ان رجلا من المسلمين قتل رجلا من اهل الكتاب فرفع الى النبي صلى الله عليه وسلم فقال رسول اللہ ﷺ انا احق من وفى بذمته ثم امر به فقتل.
(سنن الکبری ج 8 ص 30)
مسلمانوں کے ایک ذمی نے اہل کتاب کے ایک آدمی کوقتل کیا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اپنا ذمہ پورا کرے میں اس کا بدلہ لینے کا زیادہ حق رکھتا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوقتل کرنے کا حکم دیا۔
اس حدیث سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان نے ذمی کو قتل کیا تو اس کے بدلے میں مسلمان قتل کیا جاۓ گا۔
راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے سوفیصد غلط ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں