اعتراض نمبر 30
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله: عورتوں کا عید گاہ جانا
حدیث نبویﷺ
عن ام عطية قالت امرنا ان تخرج الحيض يوم العيدين والذوات الخدور فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم و يعتزل الحيض عن مصلاهن . (الحديث)
ترجمہ: سیدنا ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم عورتوں کو بھی نماز عید پڑھنے کے لئے عید گاہ کی طرف جانے کا حکم دیا جب کہ حائضہ عورتوں کے لئے یہ حکم تھا کہ عید گاہ سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک رہیں۔
(البخاري ج 1 في كتاب الصلوۃ باب وجوب الصلوة فی الثياب رقم الحديث 351ص51)
(المسلم في كتاب صلاة العیدین باب ذکر اباحة خروج النساء فی العیدین رقم حدیث 2054 ج1ص91-290)
فقه حنفی
"ويكره لهن حضور الجماعات"
(هداية اولين ج1کتاب الصلاةباب الامامة 2ص126) یعنی عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جانا مکروہ ہے۔
(فقہ وحدیث69)
جواب:
راشدی صاحب نے یہ مسئلہ اپنی کتاب فقہ وحدیث کے صفہ نمبر 63 مسئلہ نمبر 24 کے تحت بیان کیا تھا یہاں پر پھر عورتوں کے عید گاہ جانے کے حوالہ سے لکھ دیا ہے۔ ہم نے مسئلہ نمبر 24 جواب میں تفصیل سے لکھ دیا تھا تفصیل تو وہاں پر ملاحظہ فرمالیں۔
مختصر طور پر یہاں پر بھی لکھ دیتے ہیں ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے ہاں اس مسئلہ میں تفصیل ہے کہ کون کون سی عورت کس کس نماز میں کن کن شرائط کے ساتھ مسجد میں جاسکتی ہے اور عورت کا یہ جانا بھی صرف جواز کے لئے ہے۔ بہتر اس کے لئے اپنے گھر میں ہی نماز پڑھنا ہے۔راشدی صاحب نے تفصیل ہدایہ سے نقل نہیں کی مطلقا سب عورتوں کے لئے مکروہ لکھ دیا اور اس کوفقہ حنفی کا مسلہ کہہ دیا۔ ہم پہلے ہدایہ سے مکمل مسئلہ نقل کرتے ہیں۔
"ہدایہ کی عبارت کامکمل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں"
اور مکروہ ہے عورتوں کے لئے جماعت میں حاضر ہونا ۔ یعنی جوان عورتوں کو کیونکہ ان کی حاضری میں فتنہ کا خوف ہے اور کوئی مضائقہ نہیں کہ بوڑھی عورتیں فجر ومغرب اور عشاء میں نکلیں یہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ہے۔ صاحبین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بوڑھی عورتیں تمام نمازوں میں نکل سکتی ہیں۔ کیونکہ ان میں کم رغبتی کی وجہ سے فتنہ نہیں ہے اس لئے مکروہ نہ ہوگا جیسے عید میں ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ شدت شہوت باعث جماع ہے اس لئے فتنہ واقع ہوگا صرف اتنی بات ہے کہ فاسق لوگ ظہر وعصر و جمعہ کے اوقات میں منتشر رہتے ہیں۔ رہا فجر عشاء کا وقت سو اس میں وہ سوتے رہتے ہیں اور مغرب کے وقت کھانے میں مشغول رہتے ہیں۔ اور جنگل وسیع ہوتا ہے تو اس میں بوڑھی عورتوں کو مردوں سے علیحدہ ہوناممکن ہے اس لئے ان کا عید میں جانا مکروہ نہیں۔
(غایة السعایہ ترجمہ ہدایہ ج 3ص 305-304)
ناظرین ہدایہ کی عبارت کا مکمل ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ انصاف سے بتائیں کہ راشدی صاحب نے جو بات فقہ حنفی کے حوالہ سے نقل کی ہے کیا وہ درست ہے۔ ہدایہ میں تو خاص عیدگاہ جانے کے متعلق لکھا ہے کہ بوڑھی عورتوں کی عید گاہ میں جانا مکروہ نہیں۔
امام محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے پوچھا:
میں نے کہا یہ بتلایئے کیا عورتوں پر عید کی نماز کے لئے جاناواجب ہے؟
امام اعظم نے فرمایا پہلے انہیں اس کی اجازت تھی لیکن اب میں اس کو نا پسند کرتا ہوں۔
میں نے کہا آیا آپ ان کا باجماعت فرائض اور جمعہ کے لئے جانا بھی مکروہ قرار دیتے ہیں؟
آپ نے فرمایا ہاں
میں نے کہا کیا ان کے لئے کچھ اجازت ہے آپ نے فرمایا میں بوڑھی عورتوں کو عشاء ، فجر اور عیدین میں جانے کی اجازت دیتا ہوں ان کے علاوہ اورکسی نماز کے لئے اجازت نہیں دیتا۔
(المبسوط ج 1 ص382)
المبسوط کے اس حوالہ سے بھی معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک بوڑھی عورت کو عید گاہ جانے کی اجازت ہے۔راشدی صاحب نے فقہ حنفی کی بات درست نقل نہیں کی۔ یہاں تک تو بات ہدایہ کی عبارت نقل کرنے کی تھی اب ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ فقہ حنفی اور امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ جوان عورتوں کو تمام فرض نمازوں میں اور جمعہ وعیدین میں اور نماز جنازہ وغیرہ میں جانے سے کیوں منع کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں دلائل مختلف ہیں امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے جن دلائل کی بنا پر یہ نظریہ قائم کیا اب ہم وہ دلائل نقل کرتے ہیں۔
حنفی کے دلائل:-
فقہائے احناف یہ کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں احادیث مختلف ہیں۔
1.بعض احادیث میں عورتوں کو مسجد جانے کی مطلقا اجازت اور روکنے کی ممانعت آئی ہے۔
2.بعض احادیث میں مشروط اجازت آئی ہے۔
3.بعض احادیث میں عورتوں کو اپنے گھر میں نماز پڑھنے کا حکم آیا ہے۔
4. بعض احادیث میں مسجد جانے کی ممانعت آئی ہے۔
ان مختلف احادیث کے پیش نظر امام صاحب نے ان میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشادات اور عمل سے ان احادیث کو ترجعى دی ہے جن میں عورتوں کو منع کیا گیا ہے یا گھر میں نماز پڑھنے کو بہتر فر مایا گیا ہے۔ اور بوڑھی عورتوں کو اجازت بھی دے دی ہے۔
منع کی احادیث
حدیث نمبر :1
ابوعمر وشیبانی نے دیکھا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عورتوں کو جمعہ کے دن مسجد سے نکال رہے ہیں اور فرمارہے ہیں تم عورتیں اپنے گھروں کی طرف جاؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
( رواه الطبرانی فی الکبیر بحوالہ الترغیب والترہیب ج 1 ص 228)
حدیث نمبر :2
ابوعمروشیبانی کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکالنے کے لئے کنکریاں مار ہے ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص 277)
حدیث نمبر :3
حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے اس عورت کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا جس نے یوں نذر مانی کہ اگر اس کا خاوند جیل سے رہا کر دیا گیا تو وہ بصرہ کی ہراس مسجد میں جس میں جماعت ہوتی ہے دورکعت نماز پڑھے گی۔ حسن بصری نے جواب دیا وہ اپنے محلہ کی مسجد میں دورکعتیں ادا کر کے اپنی نذر پوری کرے وہ بصرہ کی ہر مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی ( شرعا ) طاقت نہیں رکھتی نیز فرمایا اگر اس ( ماننے والی ) عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پا لیتے تو وہ اس کا سر کوٹتے ۔
(مصنف ابن شیبہ ج2ص277)
حدیث نمبر :4
محدث اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ کی تین بیویاں تھیں وہ ان کی جمعہ اور جماعت میں شریک ہونے کے لئے نہیں چھوڑے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص 277)
حدیث نمبر :5
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں عورتوں نے جو زیب وزینت، نمائش حسن اور عطریات کا استعمال شروع کر دیا ہے اگر یہ صورت حال رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہو جاتی تو آپ انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ یحییٰ بن سعید نے عمرہ سے پوچھا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ عمرہ نے کہا جی ہاں روک دیا گیا تھا۔
حدیث نمبر :6
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن عورتوں کو کنکریاں مار مار کر مسجد سے نکالتے تھے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 3 ص 228)
حدیث نمبر :7
محدث ابن جریج رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء رحمۃاللہ علیہ تابعی سے پوچھا جیسے مردوں کے لئے یہ حق ثابت ہے کہ جب وہ اذان سنے تو مسجد میں حاضر ہوں کیا عورتوں کے لئے بھی ثابت ہے؟ عطاء رحمۃاللہ علیہ نے قسم اٹھا کر فرمایا ان کے لئے ثابت نہیں۔
(مصنف عبدالرزاق ج3ص147)
حدیث نمبر :8
محدث اعمش رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی رحمۃاللہ
کی تین بیویاں تھیں ان میں سے کسی نے بھی محلہ کی مسجد میں نماز نہیں پڑھی
(مصنف عبدالرزاق ج3ص101)
حدیث نمبر :9
ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ کا بیان ہے کہ علقمہ رحمۃاللہ علیہ کی بیوی جو بوڑھی ہو چکی تھی وہ عید کے لئے نکلتیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص87)
حدیث نمبر 10
ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ( تابعی کبیر ) عورتوں کا عیدین کے لئے نکلنا مکروہ جانتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص88)
حدیث نمبر : 11
نافع رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی عورتوں کو عید میں نکلنے کی اجازت نہ دیتے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص88)
حدیث نمبر :12
ہشام بن عروہ اپنے باپ عروہ کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ اپنے اہل میں سے عورت کو نماز عید الفطر اور نماز عید الاضحی میں نکلنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص88)
حدیث نمبر : 13
عبدالرحمن بن قاسم اپنے باپ قاسم کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ جوان عورتوں کے بارے میں بہت ہی سخت تھے وہ ان کو عیدالفطراورعید الاضحی کے لئے نہیں نکلنے دیتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص88)
حدیث نمبر :14
جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ کو جوان عورت کا عید کے لیے نکلناناگوار تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 6 ص 88)
حدیث نمبر :15
حضرت ام حمید رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں ہمارے شوہر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں حالانکہ ہم آپ کو پیچھے نماز پڑھنے کی بہت چاہت رکھتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جوابا فرمایا چھوٹے کمرے کی نماز بڑے کمرے کی نماز سے بہتر ہے اور بڑے کمرے کی نماز تمہاری نماز باجماعت کی نماز سے بہتر ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص 277)
حدیث نمبر: 16
حدیث نمبر :
ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں جنازہ کے پیچھے جانے سے روکا جا تا تھا لیکن اس ممانعت پر عمل کرنا ہم پر لازم نہ تھا
( رواه مسلم ج1ص304)
حدیث نمبر :17
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ عورتیں بیٹھی ہیں پوچھا تمہیں کس چیز نے بیٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا ہم جنازہ کا انتظار کر رہی ہیں آپ نے کہا کیا تم میت کوغسل دیتی ہو؟ انہوں نے کہا جی نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم میت کو اٹھاتی ہو؟ انہوں نے کہا جی نہیں۔ آپ نے کہا کیا تم میت کو دوسرے لوگوں کی طرح قبر میں اتارتی ہو؟ انہوں نے کہا جی نہیں۔ آپ نے فرمایا تم لوٹ جاؤ؟ لیکن ثواب لے کر نہیں بلکہ گنہگار ہوکر۔
(ابن ماجہ 113)
ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے پہلے جنازہ کے لئے پیچھے جانا جائز تھا مگر کراہیت کے ساتھ اس وقت روکنے میں اتنی سختی نا تھی لیکن بعد میں اس حکم کے اندر شدت اختیار کی گئی اور معصیت اور کراہت حرمت سے بدل گئی اور اب عورتوں کے لئے جنازہ کے پیچھے جانامعصیت اور گناہ قرار پایا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوٹ جاؤ مگر نیکوکار بن کر نہیں گنہگار ہوکر۔ اسی طرح گھر سے باہر نکلنے اور مسجد و عید گاہ کے اندر جانے میں عورتوں کے لئے ابتدا میں نرمی تھی، اتنی سختی نا تھی لیکن بعد میں شر اور فتنہ کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سختی کی اور مسجد جانے سے عورتوں کو منع کرنے لگے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں