نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 41 جس برتن میں کتامنہ ڈالےاسے سات بار دھونا ضروری ہے

 اعتراض نمبر ٤١

مسئله :٤١

 جس برتن میں کتامنہ ڈالےاسے سات بار دھونا ضروری ہے 

حدیث نبوی ﷺ

عن ابي هريرة قال قال رسول اللہ ﷺ اذا شرب الكلب في اناء احدكم فليغسله سبع مرات

 ترجمہ: سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتم میں سے کسی کے برتن میں کتامنہ ڈال دے تو اس کو چاہئے کہ برتن کو سات بار دھوۓ۔ 

(بخاري ج 1كتاب الوضوء باب اذا شرب الكلب في الاناءص29، رقم الحديث 172) (مسلم 1کتاب الطهارة باب حكم الولوغ الكلب ص137رقم الحديث 650)

فقہ حنفی

يغسل الاناء من لوغة ثلاثا

(هداية اولين 1كتاب الطهارة باب الماء الذي يجوزبهالوضوء ومالايجوزبه ص48) 

کتے کے منہ ڈالنے کی وجہ سے برتن کو تین بار دھویا جاۓ گا۔

( فقه وحدیث 80)

جواب:

کتے کے جھوٹے برتن کو دھونے کے متعلق مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند ہم یہاں نقل کرتے ہیں 

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

1۔ کتے کے جھوٹے برتن کو سات دفعہ دھوڈالوآٹھویں دفعہ مٹی سے مانجھو۔

( مسلم عن عبد الله بن مغفل )

2۔ کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھوؤ۔ 

( بخاری مسلم عن ابی ہریرة)

3۔ کتے کے جھوٹے برتن کو تین مرتبہ دھوؤ۔

( کامل ابن عدی عن ابی ہریرة ہزاصحیح اوحسن معارف السنن ج 1 ص 325 ) 

 یہ آنحضرت ﷺ کے تین حکم میں آٹھ مرتبہ دھوناسات مرتبہ دھونا تین مرتبہ دھونا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کافتوی

کتا برتن میں منہ ڈال دے تو تین مرتبہ دھونا چاہیے۔

( دارقطنی طحاوی بسند . آثارالسن ج 1ص 12 )

محدث طحاوی فرماتے ہیں: 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا تین بار دھونے کا فتوی دینا واضح دلیل ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی سات دفعہ دھونے والی حدیث منسوخ ہے کیونکہ ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسن ظن رکھتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت ابو ہریرہ نے آنحضرت ﷺ سے کچھ اور سنیں اور پھر فتوئی آپ کے خلاف دیں ۔اس سے تو آپ کی عدالت ہی ساقط ہو جاۓ گی اور صحابہ سب کے سب عادل ہیں ۔

(طحاوی ج 1 ص 23 )

مکہ مکرمہ کے مفتی حضرت عطاء سے جب کتے کے جھوٹے برتن کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں نے یہ سب سنا ہے سات مرتبہ پانچ مرتبہ اور تین مرتبہ۔

 (عبدالرزاق ج1 ص97)

 مدینہ منورہ کے مفتی حضرت معمر جوسات اور آٹھ دفعہ دھونے کی حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں میں نے امام زہری سے کتے کے جھوٹے برتن کا مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا تین مرتبہ دھویا جاۓ ۔

 (مصنف عبدالرزاق ج 1 ص:97) کوفہ کے مفتی سید الامام الاعظم بھی یہی فتوی دیتے تھے کہ برتن تین مرتبہ دھویا جاۓ ۔ آنحضرت ﷺسے تین حکم مروی ہیں جو بظاہر متعارض ہیں اور خود آنحضرت ﷺ سے ان کے بارہ میں کوئی فیصلہ مروی نہیں کہ کون سا پہلے کا ہے اور کون سابعد کا۔اور جوفیصلہ صراحتا کتاب وسنت میں موجود نہ ہواس میں بنص حدیث معاذ من مجہتد اجتہاد سے جو فیصلہ دے وہ لازم العمل ہوگا۔ ایک اور واضح حدیث

احادیث پر نظر رکھنے والا جانتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں کتوں کے بارہ میں احکام بہت سخت تھے ان کو مار ڈالنے کا حکم تھا بعد میں ان سے شکار کھیلنے کی اجازت مل گئی اور احکام نرم کر دیے گئے اس لئے خیر القرون میں تمام مراکز اسلام، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ کوفہ میں فتوی تین پر ہی رہا۔ راشدی صاحب نے احناف کثر اللہ سواد ہم پر اعتراض کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ سے بھی دھوکا کیا کہ آپ کے تین حکموں میں سے ایک حکم بنایا اور دوکو چھپایا۔ دوسرا فریب میں کہ صحابی رسول اللہ ﷺ اور تابعین کے صحیح فتوؤں کو چھپایا انہوں نے تین والی حدیث پرفتوی دیا تھا اس نے خیر القرون والوں کے خلاف محض ضد اور نفسانیت سے اس فتوی کی مخالف کی ۔

ہدایہ کی مکمل عبارت 

اور کتے کا جھوٹا ناپاک ہے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اس کو تین مرتبہ دھویا جاۓ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ کتے کے جھوٹے برتن کو تین مرتبہ دھوؤ ۔ اور کتے کا منہ پانی کو لگا تھا نہ کہ برتن کو تو جب برتن ناپاک ہو گیا تو پانی بہ درجہ اولی ناپاک ہوگیا یہ دلیل ہے کہ کتے کا جھوٹا ناپاک ہے۔ اور حدیث شریف میں تین مرتبہ کا عددامام شافعی پر حجت ہے جو سات مرتبہ کوشرط قرار دیتے ہیں کتے کا

پیشاب جہاں لگ جاۓ تو ( بالا تفاق ) تین مرتبہ دھونے سے پاک ہوجاۓ گا اور حدیث میں جو سات مرتبہ دھونے کا حکم ہے وہ اسلام کے ابتدائی دور سے متعلق ہے (اب منسوخ ہے)

(ہدایہ ج 1 ص45)

دیکھو صاحب ہدایہ نے مسئلہ کا ثبوت حدیث پاک سے دیا تھا اور قیاس والی دلیل بھی نقل کی تھی اور سات والی روایت کا جواب بھی دیا تھا۔ مگر راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت نقل کرنے میں انہتائی خیانت کی ہے ۔ راشدی صاحب نے فقہ کے ایک مسئلہ کوحدیث کے خلاف ثابت کرنے کےلئے تین زبردست بے ایمانیاں کیں ۔ 

1۔ احادیث رسول ﷺ سے بے ایمانی۔

2۔ خیر القرون سے بے ایمانی۔ 

3۔ ہدایہ سے بے ایمانی۔

نوٹ:

لا مذہب اپنی بد دیانتیوں کو چھپانے کے لئے جلدی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ سات والی حدیث صحیح ہے اور تین والی ضعیف ہے ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ سات والی حدیث کو صحیح اور تین والی کو ضعیف اللہ کے نبی نے کہا ہے یاکسی امتی نے اگر نبی پاک نے فرمایا ہےتو حدیث پیش کرواگر کسی امتی نے کہا ہے تو امتی کی تقلید آپ کے مذہب میں شرک ہے۔

پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ امتی خیر القرون کا مجتہد ہے یا بعد القرون کا غیر مجتہد ۔ ہم تو خیر القرون کے مجتہد کے مقابلہ میں مابعد خیر القرون کے کسی غیر مجتہد کی بات تسلیم نہیں کرتے ۔ کیونکہ خیر القرون والوں کی خیریت حدیث صحیح سے ثابت ہے اور بعد والوں کی خیریت حدیث سے ثابت نہیں اور مجتہد کی طرف رجوع حدیث سے ثابت ہے کسی غیر مجتہد کی طرف رجوع حدیث سے ثابت نہیں ۔ راشدی صاحب نے احناف پر اعتراض کرنے کے لئے تو دیانت و امانت سب کو خیر باد کہہ دیامگر صحیح بخاری ص 129 ج1 پر کتے کے جھوٹے پانی سے وضو کرنے کی اجازت موجود ہے ذرا اس طرف بھی توجہ فرماتے اور آپ کے علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں کتے کا پیشاب پاک ہے (ہدایہ المہدی ج3 ص78) اور نواب صدیق حسن غیر مقلد لکھتے ہیں کتے کے گوشت ،خون ، بال اور پسینہ کے نجس ہونے پر دلیل نہیں ہے۔( بدوراھلہ 16)

 راشدی صاحب نے ان کی تردید میں کیا لکھا ہے جوکسی امتی کے نام سے نہیں بلکہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے نام سے ایسے گندے مسائل پھیلا کر نبی معصوم ﷺ کو بدنام کر رہے ہیں ۔ راشدی صاحب آپ کے ابن حزم نے دیکھا ہے کہ بیوی کے حق مہر میں کتادینا جائز ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...