نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 43 گانا سننا حرام ہے

 اعتراض نمبر 43

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔

مسئله 43

گانا سننا حرام ہے

حدیث نبوی ﷺ

عن جابر قال قال رسول اللہ ﷺ الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع رواه البيهقي في شعب الايمان

ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گانا اسی طرح دل میں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی کواگا تا ہے۔

(السنن الكبري للبيهقيج10ص223، رقم الحديث ، طبع مکتبه دارالبازمكة المكرمة) (عن ابن مسعود، في شعب الايمان،طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)(ابوداودباختصار) اور دوسری حدیث میں یہ تصریح ہے کہ جس موقعہ پر گانا بجانا ہوتو وہ دعوت قبول نہ کی جائے ۔ جیاکہ: واجب دعوة من دعاك من المسلمين مالم يظهروا والمعازف فأذا أظهروا المعازف فلا تجبهم

ترجمہ: جو بھی مسلمان تمہیں دعوت دے اگر وہاں گانا بجانانہ ہوتو دعوت قبول کرو اور اگر گانا بجانا(موسیقی) ہوتو اس کی دعوت قبول نہ کرو۔ 

فقه حنفى 

من دعا الى وليمة اوطعام فوجز ثمه لعبا اوغناء فلابأس يان يقعد و

باكل وقال ابو حنيفة ابتليت بهذا مرة فصبرت.

(هداية آخيرين كتاب الكراهية فصل في الأكل والشراب بصفحه 455) کسی شخص کو د لیسے یا کھانے کی دعوت دی جاۓ اور وہاں موسیقی اور گانا بجانا ہوتو اس شخص کے وہاں بیٹھنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ ابوحنیفہ نے کہا ایک بار مجھ پر بھی آزمائش آئی تھی تو میں نے صبر کیا۔

 (فقہ حديث 82)

جواب:

راشدی صاحب نے ہدایہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی ہم ہدایہ کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں جس سے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ ہدایہ کی مکمل عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ جس شخص کو ولیمہ یا کسی کھانے کی دعوت دی گئی ہو پھر وہ وہاں پر کھیل کود یا گانا پاۓ تو ( مجبوراً وہاں بیٹھنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ میں ایک مرتبہ ایسی مجلس میں پھنس گیا تو میں نے صبر کیا۔ ایسی مجلس میں صبر کر کے بیٹھنا اور کھانا کھانے کی علت یہ ہے کہ دعوت کو قبول کرنا سنت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے دعوت کو قبول نہیں کیا تو اس نے ابو القاسم (علیہ السلام ) کی نافرمانی کی ۔ چنانچہ اس دعوت کے ساتھ بدعت ملنے کی وجہ سے اسے نہ چھوڑے جیسا که اگر نماز جنازہ پر نوحہ کرنے والیاں جمع ہو جا ئیں پھر بھی پڑھنی واجب ہے ۔ پھر اگر مدعو لوگو کو اس فعل سے روکنے پر قادر ہوتو روک دے اور اگر قدرت نہ رکھتا ہوتو صبر کرے۔ صبر کرنے کی اجازت اس شخص کو ہے جو مقتدا اور رہنمانہ ہو۔ اگر کوئی مقتدا روکنے پر قادر نہ ہو تو ایسی مجلس سے نکل جاۓ اور وہاں نہ بیٹھے کیونکہ مقتدا کے وہاں بیٹھنے میں دین کی حقارت اور مسلمانوں پر مصیبت کا دروازہ کھولنا ہے۔

اور یہ قصہ جو امام صاحب کا منقول ہے آپ کے مقتدا بننے سے پہلے کا ہے ۔ اور اگر یہ گاناوغیرہ دستر خوان پر ہی شروع ہو جاۓ تو پھر وہاں بیٹھنانہیں چاہے چاہے مقتدا نہ ہی ہو بوجہ اللہ تعالی کے اس قول کے فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمین۔ یہ تمام مذکورہ صورتیں تب ہیں جب یہ گانا وغیرہ مجلس میں حاضر ہونے کے بعد شروع ہوا ہو اور اگر مدعوکوحاضر ہونے سے قبل ہی معلوم ہو جاۓ تو ایسی مجلس میں حاضر نہ ہو کیونکہ اس کو حق دعوت لازم نہیں ہوا بخلاف اس صورت کے کہ جب حاضر ہونے کے بعد اچا نک میں کام شروع ہو جائے بلکہ اب اس کوحق دعوت لازم ہو چکا ہے ۔ اور یہ مسئلہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ گانے بجانے کے تمام آلات حرام ہیں یہاں تک کہ بانسری کے ساتھ بھی اوراس پر امام صاحب کا قول ابتلیت دلالت کرتا ہے کیونجہ ابتلاء حرام ہی میں ہوتی ہے۔

( بدای کتاب الکراهیة )

محترم ناظرین آپ نے ہدایہ کی پوری عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیا اب آپ ہی انصاف فرمائیں کہ صاحب ہدایہ تو گانے بجانے کے تمام آلات حتی کہ بانسری کو بھی حرام فرماتے ہیں اور امام صاحب بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جناب راشدی صاحب کو نامعلوم فقہ دشمنی اور احناف کے حسد اور بغض سے کیا ہو گیا کہ اتنی واضح عبارت بھی حضرت کو دکھائی نہ دی۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص لاتقر بوالصلوۃ پڑھتا چلا جاۓ اور اس سے آگے ایک حرف بھی نہ پڑھے ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی کرے کہ میں نماز نہ پڑھ کر قرآن پر مل کر رہا ہوں ۔ ہمارے حنفی علماء نے تو گانے کے حرام ہونے پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ کچھ کے نام ملاحظہ فرمائیں۔ اسلام اور موسیقی ۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ۔ گانا بجانا قرآن وسنت کی روشنی میں ۔ حضرت مولا نازاہدالحسینیخ صاحب ۔ حق السماع ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ۔ اسلام اور قوالی مفتی فیض الرحمن صاحبان کے علاوہ اور کتب بھی اس مسئلہ پر موجود ہیں ان میں تمام تفصیلات موجود ہیں ۔ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے مطابق ہے نہ کہ مخالف ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...