نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر44 کافر ،مشرک اور برہنہ آدی کا بیت اللہ میں داخلہ ممنوع ہے

 اعتراض نمبر٤٤

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :

مسئله ٤٤: 

کافر ،مشرک اور برہنہ آدی کا بیت اللہ میں داخلہ ممنوع ہے

 حدیث نبوی ﷺ

عن ابي هريرة عن النبي ﷺ الالا يحج بعد العام مشرك ولا يطوف بالبيت عريان

 ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا۔ اور نہ ہی برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف کر سکے گا۔

(بخاري ج 1كتاب الحج باب لا يطوف بالبيت عريان ولا يحج مشرك ص 220 رقم الحديث

1622 واللفظ له)(مسلم ج اکتاب الحج باب لايحج البيت مشرك ولايطوف بالبيت عريان الخرقم الحدث 347 اص435)

اور قرآن پاک میں بھی ھے:انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام بعدعامهم هذا

یعنی بمشرک نجس ہیں اس لئے وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں ۔

فقه حنفى 

لابأس بأن يدخل اهل الذمة المسجد الحرام 

(هداية آخيرين كتاب الكراهية مسائل منفر، ص484)

یعنی ذمی کافر کے بیت اللہ میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

( فقہ وحدین 83)

جواب:

یہاں پر مسئلہ خاصی ذمی کافر کا ہے عام کفار یا مشرکوں کا نہیں ہے ۔ اس مسئلہ سے متعلق قرآن مجید میں دو آیات ہیں راشدی صاحب نے ایک آیت نقل کر دی اور دوسری کا ذکر نہیں کیا۔ ہم یہاں پر دونوں نقل کر کے ان کی تفسیر سلف صالحین سے نقل کرتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

أوليك ما كان لهم أن يدخلوها إلا خايفين لهم في الدنيا خزئ و

لهم في الأخرة عذاب عظيم 

 (پارہ نمبر 1 سورۃ البقرہ آیت نمبر 114) 

ان کو نہیں چاہئے تھا کہ ان مساجد میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوۓ۔ان کے لئے دنیا میں رسوائی (جزیہ دینے کی ) اور آخرت میں عذاب ہے بڑا۔ علامہ آلوی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے اس آیت سے ثابت کیا ہیے کہ اہل زمہ کا مساجد میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں جب کہ وہ مغلوب ومقہور ہوں۔ (تفسیر روح المعانی جلد اول ص ) مولانا حافظ صلاح الدین یوسف غیر مقلدا پنی تفسیر احسن البیان میں لکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ خوشخبری اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو جاۓ گا اور مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوۓ داخل ہوں گے ہم نے جو مسلمانوں پر پہلے زیادتیاں کی ہیں، ان کے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یاقتل نہ کر دیا جاۓ۔ (تفسیراحسن البیان ص 47 مطبور سعودیہ عربیہ )

دوسری آیت

آنحضرت ﷺ نے 9ہجری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اعلان کروایا جو

خدا کی طرف سے تھا۔

يأيها الذين امنوا إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا و إن خفتم عيلة فسوف يغنيكم الله من فضلة إن شاء 

(پارہ نمبر 10سورة التوبه آیت نمبر 28)

اے ایمان والو! مشرک (اعتقادا) نرے مشرک ہیں ( اور چونکہ اعتقادی نا پاکوں کی کوئی عبادت قبول نہیں اس لئے وہ حج کے لئے مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں اس سال کے بعد ( سال کالفظ اس لئے فرمایا کہ حج کے لئے آنا سال کے بعد ہی ہوتا ہے اور اگر تمہیں اے مسلمانو!مفلسی کا اندیشہ ہو کیونکہ حج کے موقع پر کافر تاجر بھی سامان لاتے اور اسی تجارت سے روزی کا سامان بنتا ) تو اس کی پرواہ نہ کرو کہ اگر وہ حج کے لئے نہ آئیں گے تو تجارت ختم ہو جاۓ گی جو اقتصادیات کی جان ے، اللہ تعالی تمہیں غنی فرمادیں گے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت سنائی تو جج کے اتنے بڑے مجمع میں یہی اعلان فرمایا اللايحج بعدعامناهذا مشرك (روح المعانی ج 10ص77)

کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لئے نہ آۓ ۔

 معلوم ہوا کہ اس آیت کا مقصد حج وعمرہ سے مشرکین کو روکنا ہے۔آیت کا یہی مطلب صراحت ہدایہ میں مذکور ہے امام مرغینانی فرماتے ہیں:والاية محمولة على الحضوراستيلاءواستعلاءاو طائفين عراة كما كانت عادتهم في الجاهلية ‘‘(بدايج4 ص472)

 یعنی اس آیت سورۃ التوبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلبہ و بلندی کے ساتھ اتراتے ہوۓ حرم میں داخل نہ ہوں یا حج کے لئے ننگے طواف کرتے ہوۓ داخل نہ ہوں ۔ جیسا کہ جاہلیت میں ان کی عادت تھی ۔ دیکھئے احناف نے اس آیت کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کا وہی مطلب بیان کیا جو آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور جس کا اعلان حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نزول آیت کے وقت مجمع میں فرمایا تھا۔

رسول اقدس ﷺ کاطرز عمل

حدیث نمبر :1

اس آیت سورۃ توبہ کے نازل ہونے کے بعد وفدثقیف حاضر ہوا اور آنحضرت ﷺ نے انہیں مسجد میں ٹھہرایا۔

(ابوداؤد،کتاب الخراج ،باب،خبر الطائف ج 2 ص 72)

حدیث نمبر :2

طبرانی میں ہے کہ فضرب لهم قبة في المسجد ‘‘ان کے لئے مسجد میں قبہ لگایا گیا۔

(نصب الرای ج 4 ص 270 )

حدیث نمبر :3

اور مراسیل ابی داؤد میں حضرت امام حسن بصری سے روایت ہے کہ جب اس وفد کو حضور ﷺ نے مسجد میں ٹھہرایا تو آپ سے کہا گیا آپ ان کو مسجد میں اتار رہے ہیں حالانکہ وہ مشرک ہیں تو آپ نے فرمایا زمین نجس نہیں ہوتی ہے بے شک ابن آدم نجس ہوتا ہے۔

(نصب الرابہ ج 4 ص 270 )

اس حدیث سے بھی پتہ چلا کہ مشرک کی نجاست دخول مسجد میں مانع نہیں ہے ۔

آیت کی تفسیر نبی اقدس ﷺ سے

حدیث نمبر :1

حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے قریب نہ جاۓ ہاں مگر کوئی غلام یالونڈ ی جوکسی حاجت کے لئے جائیں ۔

(احکام القرآن ج 3 ص 89 )

صحابی سے تفسیر 

حضرت جابر بن عبد اللہ ﷺ صحابی فرماتے ہیں بے شک مشرک نجس ہیں وہ اس سال کےبعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں مگر کوئی غلام یا اہل ذمہ میں سے ۔

(تفسیر ابن جریر ج 10 ص 76 )

تابعی کی تفسیر

حضرت قتادہ تابعی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ جائے مگر کوئی مشرک جوکسی مسلمان کا غلام ہو یا جزیہ دینے والا ذمی ہو۔

 (تفسیر ابن جریر ج 10 ص76)

دور فاروقی میں نصرانی کا حرام میں داخلہ 

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں خلافت میں ایک عیسائی بغرض تجارت آیا تو اس سے عشرلیا گیا وہ دوبارہ آیا تو پھر اس سے عشر کا مطالبہ کیا گیا اس نے عشر دینے سے انکار کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس گیا جو اس وقت مکہ مکرمہ حرم پاک میں تھے اور خطبہ میں فرمارہے تھے ’’ان الله جعل البيت مثابة للناس“ اس عیسائی نے کہا: امیر المؤمنین ! زیاد بن حدیر مجھ سے بار بارعشر مانگتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا که عشر سال میں تیرے مال پر صرف ایک دفعہ ہے۔ ( کتاب الخراج امام ابو یوسف 162) اب اگر امام صاحب نے فرمایا کہ لا باس بان يدخل اهل الذمة المسجد الحرام ‘‘(ھدایہ ج 4 ص 472) تو یہ قرآن که آیت یدخلوها الا خائفین‘‘ کے موافق ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کے فعل کے موافق ہے، اللہ کے نبی ﷺ کے صحابی یا تابعی کے نزدیک یہ داخلہ آیت تو بہ کے خلاف نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں مجمع عام میں نصرانی حرم پاک میں داخل ہوا کسی ایک شخص نے بھی اٹھ کر آیت’’انما المشركون نجس فلايقربوا المسجد الحرام ‘‘ پڑھ کر نہ سنائی۔معلوم ہو گیا ان سب صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی کسی ذمی کا وقتی طور پر مسجد حرام میں داخلہ کسی آیت یا حدیث کے خلاف نہ تھا۔ 

غیر مقلدین سے تائید

مولانا صلاح الدین یوسف غیر مقلد سورہ توبہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں حاشیہ نمبر 2 یہ وہی حکم ہے جوسن 9 ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ یہ ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لیے ہے ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا۔ حتی کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی ﷺ کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہو گئے ۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے۔ یعنی حدود حرم کے اندرمشرک کا داخلہ ممنوع ہے۔ بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کومستشنی کیا گیا ہے۔ (تفسیراحسن البیان ص 515 مطبویہ سعودی عرب )

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...