اعتراض نمبر ٤٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله: ٤٥
بیت اللہ کی چھت پر نماز ممنوع ہے
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن عمر قال نهى رسول اللہ ﷺ ان يصلى فوق ظهر بیت اللہ
ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
(ترمذي ج 1ابواب الصلاة باب ما جاء في كراهية ما يصلي اليه وفيه ص 46 رقم الحديث 346واللفظ له)
(ابن ماجہ باب مراض التي تكره فيها الصلاةص54رقم الحديث 746-747)
فقه حنفى
من صلى على ظهر الكعبة جازت صلوته
(هداية اولين ج1كتاب الصلاة باب الصلاة في الكعبةص185)
جس آدمی نے بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھی اس کی نماز جائز ہے۔
(فقہ وحدیث84)
جواب:
راشدی صاحب نے ہدایہ کی مہارت مکمل نقل نہیں کی اگر وہ ہدایہ کی مکمل عبارت نقل کر دیتے تو پھر اعتراض خود بہ خودختم ہو جاتا ہم پہلے ہدایہ کی مکمل عبارت کا ترجمہ نقل کرتے ہیں تا کہ آپ کوعلم ہو کہ ہدایہ میں کیا لکھا ہے اور راشدی صاحب کیا کہتے ہیں۔ اور جس شخص نے کعبہ کی پشت پر نماز پڑھی اس کی نماز جائز ہے ۔ امام شافعی کا اختلاف ہے ۔ اس لئے کہ ہمارے یہاں میدان اور آسمان کی فضاء تک کا نام کبع ہے نہ کہ عمارت کا کیوں کہ وہ منتقل ہو سکتی ہے کیا سیکھتے نہیں کہ اگر کوئی شخص جبل ابوقبیس پر نماز پڑھے تو نماز جائز ہے حالانکہ کہ اس کے سامنے عمارت نہیں ہے۔ البتہ یہ مکروہ ہے کیوں کہ اس میں ترک تعظیم ہے اور آپ سے ترک تعظیم کے متعلق ممانعت وارد ہوئی ہے۔
(احسن الہدای ترجمہ اردو ہدایہ ج 2 ص 447)
ناظرین آپ نے دیکھا صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ البتہ یہ مکروہ ہے ۔اور جو حدیث راشدی صاحب کی نقل کی ہے اس کا حوالہ بھی صاحب ہدایہ نے دے دیا اور مکروہ ہونے کی وجہ بھی بتا دی۔ اور فقہ حنفی میں اکثر جگہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جب فقہاء مطلق مکروہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مکروہ تحریمی ہی مراد ہوتا ہے۔
رہی وہ حدیث جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کومطلق حرام قراردینے کے لیے دلیل قطعی یا کم از کم حدیث صحیح ہونی چاہئے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے سے ممانعت والی حدیث جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے نہ قطعی ہے نہ صحیح ہے۔ امام ترمذی اس حدیث کو ذکر کر کے فرماتے ہیں ۔حدیث ابن عمر اسنادہ لیس بذلک القوی ۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کی سند قوی نہیں ہے۔ جب یہ حدیث قوی نہیں ضعیف ہے تو ضعیف حدیث سے کسی چیز کی قطعی حرام قراردینا یہ حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اس لئے کہ ضعیف حدیث اس مقام و مرتبہ کی نہیں ہوتی ہے کہ اس سے کسی چیز کی قطعی حرمت ثابت کی جائے اس کے لئے قطعی دلیل یا کم از کم صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہے۔اس لئے اس حدیث کی وجہ سے جولوگ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کو حرام کہتے ہیں ان کی راۓ میرے نزدیک وزنی معلوم ہوتی ہے ہاں اس سے کراہت ثابت ہوسکتی ہے جو فقہ حنفی کا مسلک ہے اور ہدایہ میں لکھا ہوا موجود ہے احناف کے ہاں اگرچہ یہ حدیث ضعیف سی مگر پھر بھی امام ابوحنیفہ نے اس حدیث کے پیش نظر یہ فرمایا کہ عام حالات میں کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر کسی نے پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی۔
غیر مقلدین حدیث کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے اس تو رہا احتیاط دقت نظر اور پھرعمل بالحدیث کے جذبہ کو دیکھیں اور انصاف سے کام لے کر بتلائیں کہ کیا ان امور میں امام ابوحنیفہ کے مقام و مرتبہ تک کسی اور کو رسائی ہو سکتی ہے اعتراض کرنا بڑا آسان ہے اور فقہ حنفی کو سمجھنا بہت مشکل ہے اس کے لئے علم ومعرفت وسیع المطالعہ کے ساتھ ساتھ نور باطن اور فراست ایمانی کی بھی ضرورت ہے۔ امام ترمذی نے بھی کراہت ہی کے قول کو اختیار کیا ہے آپ نے اس حدیث پر اس طرح باب باندھا ہے۔
باب ما جاء في كرهية ما يصلى الیہ وفیہ۔
باب بیان میں اس چیز کے کہ جس کی طرف یا جس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
( ترمذی متر جم علامہ بدیع الزمان غیر مقلد ج اول ص 164 ابواب الصلوۃ)
امام ابن ماجہ نے سنن ابی ماجہ ص 54 میں اس طرح باب باندھا ہے۔ باب المواضع التي تكره فيها الصلوة
ان محدثین نے بھی اس حدیث سے کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنے کومکروہ سمجھا ہے اور امام ابو حنیفہ نے بھی اس حدیث کا انکار نہیں کیا صرف اس حدیث سے مکروہ سمجھا ہے۔فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے مطابق ہے نہ کہ مخالف۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں