نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر46 مدعی کے پاس صرف ایک گواہ کا ہونا

 اعتراض نمبر46

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں ۔ 

مسئله: مدعی کے پاس صرف ایک گواہ کا ہونا

حدیث نبویﷺ

عن ابن عباس أن رسول اللہ ﷺ قضی بیمین و شاهد

ترجمہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدعی کے ایک گواہ اورقسم پر فیصلہ کیا۔ ( یعنی دوسرے گواہ کے عوض اس سے قسم لی ) 

(مسلم ج2كتاب الافضية باب وجوب الحكم بشاهدويمين ص74، رقم الحديث 4472)

فقه حنفى 

ولا ترد اليمين على المدعي 

(هداية آخيرين3 كتاب الدعوي باب اليمين ص203) 

یعنی مدعی پرقسم ہے ہی نہیں۔ (فقہ وحدیث ص 85)

جواب:

امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ کسی مقدمے میں فیصلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مدعی اپنے گواہ پیش کرے جو دومرد یا ایک مرد اور دوعورتیں ہوں ۔اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں یا گواہی کانصاب پورا نہ ہو تو پھر مدعی علیہ سے قسم لی جاۓ کہ مدعی کا دعوی غلط ہے۔ اگر مدعی علیہ حلف اٹھالے تو وہ بری ہو جاۓ گا اور اگر حلف اٹھانے سے انکار کر دے تو مری کا دعوی درست مان کر اس کے خلاف فیصلہ کر دیا جاۓ گا۔ فیصلہ کرنے کا یہ طریقہ شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے جن کا ذکر ابھی آۓ گا۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک مدعی علیہ کے قسم نہ اٹھانے کی صورت میں یامدعی کے ایک گواہ کے ساتھ اس کی قسم پر مدعی علیہ کے خلاف فیصلہ کرنا درست نہیں کیونکہ اس طریقہ میں ایک تو گواہی کا شرعی نصاب یعنی دومرد یا ایک مرد اور دو عورتیں پورا نہیں ۔ دوسرا اس میں مدعی سے قسم لی جاتی ہے حالانکہ قسم صرف مدعی علیہ کے ذمہ ہوتی ہے۔ امام صاحب کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

حنفی مذہب کا قرآن سے ثبوت

پہلی آیت

واستشهد واشهيدين من رجالكم فان لم يكونا رجلين فرجل وامراتين

(پارہ نمبر 3 سورۃ بقرہ آیت نمبر 282)

اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔اگر دومردنہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ۔

دوسری آیت

و اشهدوا ذوی عدل منکم ۔ 

اور آپس میں سے دو معتبرشخصوں کو گواہ کرلو۔ 

(پارہ نمبر 28 سورہ طلاق آیت نمبر 2)

حنفی مذہب کا احادیث سے ثبوت 

حدیث نمبر :1

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا اگر لوگوں کے دعوؤں کے مطابق ان کا فیصلہ کر دیا جاۓ تو لوگ دوسرے لوگوں کی جانوں اور اموال پر دعوی کر بیٹھیں گے لیکن ،مدعی علیہ پر یمین (قسم) لازم ہے۔

(مسلم شریف کتاب الاقضیۃ باب الیمین علی المدعی علیہ )

حدیث نمبر :2

ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

البينة على المدعى واليمين على من انكر

 لیکن گواہ مدعی پر ہیں اور قسم مد عاعلیہ (یعنی انکاری) پر

(مشکوۃ باب الاقضية والشهادات )

حدیث نمبر:3

حضرت ابی موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے۔

البينة على من ادعى واليمين على من انكر والصلح جائز بين المسلمين الاصلحااحل حراما و حرم حلاة الخ یعنی گواہ لانے مدعی کے ذمے ہیں اور قسم مدعا علیہ پر اور صلح درمیان مسلمانوں کے جائز ہے مگر وہ صلح جس سے حلال کا حرام کرنا یا حرام کا حلال کرنا لازم ہے۔


(بیہقی ج ص)

حدیث نمبر:4

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: 

اليمين على المدعی علیہ 

قسم مدعی علیہ پر ہے ۔

 ( بخاری کتاب التفسیر تفسیر آل عمران آیت نمبر 77 ) 

(حدیث نمبر 4203 باب ان الذين يشترون ) 

(ابو داؤد اور باب الیمین علی المدعی علیہ )

حدیث نمبر :5

بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں اشعث بن قیس کا واقعہ آ تا ہے ۔ ابی وائل ( راوی حدیث ) کہتے ہیں پھر اشعت بن قیس داخل ہوئے اور کہنے لگے ابو عبدالرحمن ( یہ کنیت ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ) نے آپ کو کیا بیان کیا ہے؟ ہم نے کہا: ایسے ایسے، وہ کہنے لگے یہ آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں میرے چچا زاد بھائی ( خفیش بن معر بن معدی کرب ) کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا ( میں اس کے ساتھ جھگڑے کا فیصلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تیرے پاس گواہ ہے یا اس کی قسم سے فیصلہ کروں ، میں نے کہا میرے پاس گواہ نہیں ہے آپ نے فرمایا پھر اس کی قسم کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ توقسم اٹھا دے گا اس وقت نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کا مال غضب کرنے کے لئے جھوٹی قسم اٹھائی وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ناراض ہوگا۔ ( مسلم کتاب الایمان باب وعیدمن اقتطع حق مسلم ) 

( بخاری کتاب التفسیر باب قوله ان الذين يشترون ) 

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گواہ مدعی کی ذمہ ہے اور قسم مدعاعلیہ پر۔

حدیث نمبر :6

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو کسی کا مال ہضم کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھائے گا تو (مرنے کے بعد جب وہ اللہ سے ملے گا اللہ اس پر سخت غصے ہوگا بعد ازاں اس کی تصدیق میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی ۔

ان الذين يشترون بعهد الله وايمانهم الى عذاب الیم ( راوی ابی وائل کہتے ہیں ) جب عبداللہ یہ حدیث بیان کر چکے تو اشعت بن قیس ہمارے سامنے آئے انہوں نے پوچھا ابو عبداللہ بن مسعود نے تم سے کیا حدیث بیان کی ہم نے ان سے کہہ دی انہوں نے کہا عبداللہ سچ کہتے ہیں یہ آیت میرے ہی متعلق نازل ہوئی ( اس کا پس منظر یہ ہے ) میرے اور ایک شخص میں جھگڑا ہوا ہم نے حضوراکرم ﷺ کے سامنے مقدمہ پیش کیا آپ نے فرمایا:

 شاهداك او يمينہ یا تو دو گواہ لا یا اس سے قسم لے۔ میں نے عرض کیا میرے پاس گواہ نہیں اور قسم تو وہ جھوٹی کھاۓ گا کچھ پرواہ نہ کرے گا تب آپ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم کھا کرکسی کا مال ہضم کر لے گا تو جب ( آخرت میں اللہ سے ملے گا اللہ اس پر غصے ہوگا بعدازاں اللہ تعالی نے اس کی تصدیق نازل فرمائی ۔آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ ( بخاری کتاب الشہادت باب الیمین علی المدی علیہ ) 

اس روایت میں حضور اکرم ﷺ نے فیصلہ کرنے کی بس یہی صورت بتائی ہے یہ نہیں فرمایاکہ تم ایک گواہ اور ساتھ قسم اٹھالو۔ 

حدیث نمبر :7

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے خطبہ میں کہ گواہ لانا مدعی کے لئے ہے اور قسم کھانامدعاعلیہ کے ذمہ ہے۔ ( جامع ترمذی ابواب الاحکام باب ماجا ان البينة على المدعى واليمين على المدعی علیہ )

حدیث نمبر :8

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا:

 گواہ مدعی کے ذمے ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے۔ 

( فتح الباری جلد 5 ص 282،ابن حجر نے معجم طبرانی سے اس کو نقل کر کے اس پر سکوت کیا ہے )

حدیث نمبر :9

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور اس میں احکامات کے علاوہ بھی لکھا کہ: گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمے الخ ۔

(سنن دارقطنی ج 4 ص 206 ۔ 406) بیہقی

حدیث نمبر :10

مصنف عبدالرزاق میں مرسلا مروی ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس دعوی کیا کہ حضور ﷺ نے انہیں بحرین میں ایک زمین دی تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ اس کے گواہ کون ہیں؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا مغیرہ بن شعبہ گواہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ دوسرا گواہ کون ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دوسرا گواہ کوئی نہیں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا پھر زمین آپ کو نہیں مل سکتی۔ پھر حضرت عمر نے ایک گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلہ کرنے سے انکار کیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کچھ اصرار کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنے باپ کا ہاتھ پکڑواور انہیں لے جاؤ۔

( کنز العمال ج 2 ص 308)

حدیث نمبر :11

امام زہری سے جوامیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے موسوم ہیں ۔ایک گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:ھذا شئی احدته الناس لايد من شاهدين ‘‘ یہ وہ چیز ہے جو لوگوں نے ایجاد کر لیا ہے۔ فیصلے کے لئے دو گواہوں کو ہونا ضروری ہے۔ ( مصنف عبدالرزاق ) (الجوہر نقی بھامش البیہقی ص 175 ج10) مندرجہ بالا دلائل بالکل واضح اور صریح ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ کرنے کا یہ طریقہ ( دو گواہ والا ) دور صحابہ و تابعین میں سنت ثابتہ کی حیثیت سے رائج تھا۔ امام ابوحنیفہ کا طریقہ اجتہادیہ ہے کہ وہ اپنی رائے کی بنیاد قرآن کی نصوص مشہور ومعمول بہ احادیث اور شریعت کے اصول کلیہ پر رکھتے ہیں اور اگر ایک یا زیادہ اخبار آحاد ان کے خلاف وارد ہوں تو ان کی تشریح قرآن مجید، معمول به احادیث اور اصول کلیہ کی روشنی میں کرتے ہیں اور اگر کسی طرح سے اخبار آحاد کی تاویل ممکن نہ ہو تو نصوص قرآن ،معول به احادیث اور اصول کلی کواختیار کر کے اخبار آحادکو چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی اصول کے مطابق انہوں نے زیر بحث مسئلے میں اس روایت کو قبول نہیں کیا۔ جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن مجید اور مشہور معمول بہ احادیث کے خلاف ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ حنفی مذہب قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے نہ کہ مخالف۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...