اعتراض نمبر٤٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں ۔
مسئله٤٨:
بائع اور مشتری کی بیع کب فسخ ہوگی؟
حدیث نبویﷺ
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده ان رسول اللہ ﷺ قال البيعان بالخيار مالم يتفرقا
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوخرید وفروخت کر نے والوں کو ( بیع فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک دونوں ( ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں ۔
(ترمذی ج 1 ابواب البيوع باب ما جاء البيعان بالخيار مالم يتفرقاص 150، رقم الحديث 1247) (نسائي 27 كتاب البيوع باب وجوب الخيار للمتابعين الله عن حكيم بن حزام ص 212، رقم الحديث ج2 4469) (ابن ماجہ باب التجارات باب البيعان بالخيارمالم يتفرفا عن ابي برزه اسلمي ص158 رقم الحديث 2181)
فقه حنفی
و اذا حصل الايجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهاالا من عيب او عدم روية
(هدايةآخيرين ج 3كتاب البيوع ص20)
جب کسی بیع کے بارے میں ایجاب وقبول ہو جاۓ تو بیع لازم ہو گئی اب ان دونوں میں سے کسی کو اختیار نہیں الا یہ کہ کوئی عیب وغیرہ ظاہر ہو جائے ۔
(فقہ وحد یث ص 87 )
جواب:
ہم یہاں پر پہلے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں پھر فقہ حنفی کے دلائل ذکر کریں گے ۔
اصل مسئلہ کی وضاحت:
اس مسئلہ کوفقہاء کی اصطلاح میں خیار مجلس کہتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کے شاگر دامام محمد بن حسن شیبانی لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہ نے فرمایا جب دوشخص بیع کریں اور اس میں اختیار کا ذکر نہ کریں تو جس وقت وہ عقد کریں بیع واجب ہو جاتی ہے اگرچہ وہ الگ الگ نہ ہوں ، اور اہل مدینہ نے کہا کہ ان کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے، جب تک وہ اپنے مقام سے یا مجلس سے الگ الگ نہ ہو جائیں اور ان کی یہ بیع بالخیار ہوتی ہے، امام فرماتے ہیں تم نے یہ کیسے کہ دیا کہ جب وہ اختیار کی شرط نہ لگائیں تو الگ الگ ہونے سے پہلے ان کو اختیار ہوتا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا نافع حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو دوسرے پر متفرق ہونے سے پہلے اختیار ہوتا ہے ۔ ماسواء بیع الخیار کے ہم نے کہا، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ بائع اورمشتری میں سے ہر ایک کو دوسرے پر مجلس یا مقام سے متفرق ہونے سے پہلے اختیار رہتا ہے؟ انہوں نے کہا ہر چند کہ مجلس یا جگہ کے الفاظ حدیث میں نہیں ہیں لیکن حدیث کا معنی یہی ہے ۔ امام محمد فرماتے ہیں ان سے یہ کہا گیا تم سے اس حدیث کا معنی بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو اختیار رہتا ہے جب تک کہ وہ بیع کے اقوال سے متفرق نہ ہوجائیں ، جب بائع نے کہا میں نے یہ چیز فروخت کی تو اب مشتری کو اختیار ہے وہ اس قول کو قبول کرے یا نہ کرے ( اور قبول کرنے کے بعد بیع لازم ہے اور اختیار نہیں ہے حدیث کی تفسیر اس طریقہ سے ہے، امام محمد نے فرمایا ابراہیم نخعی نے بھی اس حدیث کی تفسیر اس طریقہ سے کی ہے ، حضرت عمر نے بھی اس حدیث کی تفسیر اسی طرح کی ہے۔ کیونکہ جب انہوں نے رکاب میں پیر رکھا توفرمایا : لوگ کل کہیں گے کہ عمر نے کیا کہا ہے؟ سنو بیع صفقہ (سودا طے ہونے سے ہوتی ہے یاخیارسے۔(امام محمد فرماتے ہیں تو کیا سوداطے ہونے کے بعد اختیار ہوسکتا ہے؟ نیز ہمیں شریح سے یہ روایت پہنچی ہے کہ جب دو شخص بیع کر لیں تو بیع واجب ہو جاتی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے لیے بھی اختیار نہیں ہوتا نیز امام محمد نے اہل مدینہ پر معارضہ کر تے ہوئے فرمایا: اگر تفرق عن انجلس سے پہلے دونوں کو اختیار رہتا ہے تو بتاؤ کہ جب تفرق سے پہلے ایک شخص اختیار کی شرط لگاۓ اور دوسرا شرط نہ لگاۓ تو جس شخص نے اختیار کی شرط نہیں لگائی اس کے لئے اختیار ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے شرط نہ لگانے کے خلاف ہے اور اگر اختیار نہیں ہے تو تمہارے قول کے خلاف ہے۔
( کتاب الحجة ج2ص694)
فقہ حنفی کے دلائل:
پہلی دلیل قرآن ہے ۔
ایجاب وقبول کے بعد عقد لازم ہو جاتا ہے اور پھر فریقین میں سے کسی کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،فقہاء احناف نے یہ نظریہ قرآن مجید کی حسب ذیل آیات سے قائم کیا ہے : اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
1- يايها الذين آمنوا اوفوا بالعقود (مائده1)
اے ایمان والو! عقد کو پورا کرو۔
عقد ایجاب و قبول کو کہتے ہیں اور اس آیت میں اللہ تعالی نے بائع اور مشتری کوعقد پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور خیار مجلس ایفاءعقد کے منافی ہے۔
دوسری دلیل قرآن سے۔
يائها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم _ (نساء29)
اے ایمان والو! آپس میں ناحق مال مت کھاؤ ، البتہ تم باہمی رضا مندی سے تجارت کر سکتے ہو۔ تراضی کے ساتھ تجارت ایجاب وقبول کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہے ، اس لئے اب کسی فریق کو یہ اختیارنہیں ہوگا کہ وہ جس میں دوسرے کی مرضی کے بغیر بیع فسخ کر دے۔
تیسری دلیل قرآن سے۔
واشهدوا اذا تبايعتم - (بقر,282)
جب تم بیع کرو( تواس بیع پر گواہ کرلو۔
بیع ایجاب وقبول کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی نے اس پر گواہ بنانے کا حکم دیا ہے، اگر بیع ایجاب وقبول سے مکمل نہ ہوتی تو اس پر گواہ بنانے کا کوئی مقصد نہ تھا۔
چوتھی دلیل حدیث سے ۔
عن جابر بن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺاذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه. (مسلم ج2ص6)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم اناج خریدلو تو اس پر پورا قبضہ کرنے سے پہلے اس کومت فروخت کرو۔ امام طحاوی فرماتے ہیں یہ حدیث خیار مجلس کی نفی پر دلیل ہے کیونکہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اناج پر قبضہ کے بعد اس کی بیع جائز ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خریدارمجلس سے اٹھنے سے پہلے اناج پر قابض ہو جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر تفرق عن البدن سے پہلے فریقین کو بیع نسخ کرنے کا اختیار ہوتا تو تفرق عن البدن سے پہلے خریدار کامبیع کو بیچنا جائز نہ ہوتا ، حالانکہ مبیع پر قبضہ کے بعد تفرق سے پہلے یہ بیع جائز ہے اس سے معلوم ہوا کہ تفرق عن البدن تک خیار نہیں رہتا اور باب مذکور کی احادیث میں تفرق سے تفرق عن القول مراد ہے تفرق عن البدن مرادنہیں ہے۔ (شرح معانی الآثار الطحاوی ج 2 ص 205)
پانچویں دلیل حدیث سے ۔
عن ابن عمر قال كنا مع النبی ﷺ في سفر فكنت على بكر صعب لعمر فكان يغلبني فيتقدم أمام القوم فيرجره عمر و يرد ثم يتقدم فيز جره عن ويردہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لعمر بعنیہ فقال هو لك يا رسول الله، قال رسول اللہ ﷺ بعنیہ فباعه من رسول اللہ ﷺ فقال النبی ﷺ هو لك يا عبداللہ ابن عمر تصنع
به ما شئت
( بخاری ج 1 ص 284)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے ایک اکھڑ اونٹ پر سوار تھا، جو میرے قابو میں نہیں آتا تھا اور قوم سے آگے نکل جاتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو جھڑک کر لوٹاتے وہ پھر آگے نکل جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پھر اس کو جھڑک کر لوٹاتے ۔ نبی ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا : یہ اونٹ مجھے بیچ دو، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ آپ کی ملکیت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے یہ اونٹ فروخت کر دو، پھر حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ کو یہ اونٹ فروخت کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے عبداللہ بن عمر یہ اونٹ تمہارا ہے تم اس سے جو چاہو کرو۔
اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے خریدتے ہی تفرق عن المجلس سے پہلے وہ اونٹ حضرت عبداللہ بن عمر کو ہبہ کردیا اگر اس وقت یہ بیع لازم نہ ہوئی ہوتی تو رسول اللہ ﷺ خریدتے ہی وہ اؤنٹ ہبہ نہ کرتے ۔
چھٹی دلیل حدیث سے ۔
عن رجال من كنانة قال، قال عمر حين وضع دجله في الغرز و هم بمعنى: اسمعوا ما اقول لكم ولا تقولوا ، قال عمر، قال عمر البيع
عن صفقة او خيار ولكل مسلم شرط۔ (مصنف عبدالرزاق ج8ص53)
کنانہ کے ایک شخص نے بیان کیا کہ منی میں حضرت عمر بیﷺ نے رکاب میں پیر رکھتے ہوۓ فرمایا سنو میں کیا کہہ رہا ہوں اور یہ کہنا کہ یہ عمر کا قول ہے ، یہ عمر کا قول ہے، بیع یا سودے سے ہوتی ہے یا خیار سے اور ہر مسلمان کو شرط لگانے کاحق ہے۔
شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں صفقہ ( سودا طے ہو جانا ) اس بیع کو کہتے ہیں جو نافذ اور لازم ہواس سے معلوم ہوا کہ بیع کی دو قسمیں ہیں ایک بیع لازم جس میں اختیار نہ ہو اور دوسری بیع لازم میں اختیار ہو، اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہر بیع میں اختیار ہوتا ہے وہ اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔
(المبسوط سرخسی ج 13 ص 56 )
رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کا جواب امام محمد کی عبارت جواوپرذکر کی گئی اس میں آ چکا ہے۔ مزید جواب دینے کی ضرورت نہیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں