اعتراض نمبر ٥٠
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئلہ ٥٠
تورک سنت رسول اللہ ﷺ ہے
حدیث نبوی ﷺ
عن أبي حميد الساعدي انه قال في نفر من اصحاب رسول اللہ ﷺ انا احفظكم بصوة رسول اللہ ﷺ فاذا جلس في الركعة الاخيرةقدم رجله اليسرى و نصب الاخرى وقعد على معقدته
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے آخری تشہد (جس میں سلام پھیرنا ہوتا ہے ) میں زمین پر بیٹھے تو دائیں پاؤں کو کھڑا کر کے بایاں پاؤں اس کے نیچے سے نکال دیتے تھے اور تورک کرتے تھے۔
(بخاري كتاب الاذان بابسنة الجلوس في الشهدص114، رقم الحديث 828 ) (ابوداودج 1کتاب الصلوۃ باب افتتاح الصلوة 113 رقم الحديث 730 میں ہے کہ حتي اذا كانت السجدةالتي فيها التسليم اخررجله اليسري وقعدمتوكاعليشقه الايسر)
فقه حنفی
وجلس في الاخيرة كما جلس في الاولى
(هداية اولين ج 1کتاب الصلاة باب صفة الصلوةص111)
نماز کے آخری تشہد میں بھی اس طرح بیٹھا جاۓ گا جس طرح پہلے تشہد میں بیٹھا جا تا ہے۔
(فقہ وحدیث89)
جواب:
اس مسئلہ میں احادیث دونوں قسم کی ہیں راشدی صاحب نے اپنے نظریہ کی حدیث نقل کر کے حنفی مذہب کو حدیث کے خلاف کہہ دیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ حنفی مذہب والے دونوں قسم کی روایات میں تطبیق دیتے ہیں اور تحقیق کر کے ایک کو راجع کرار دیتے ہیں۔احناف جن روایات پرعمل کرتے ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں ۔
دلائل احناف
1۔ عن وائل بن حجر قال قدمت المدينة قلت لا نظرن إلى صلوة رسول اللہ ﷺ فلما جلس يعني للتشهد افترش رجله اليسرى ووضع يده اليسرى یعنی علی فخذه اليسرى و نصب رجله اليمنى، قال ابو عيسى هذا حديث حسن صحیح والعمل علیہ عند اکثر اهل العلم -
(ترمذی ج 1 ص 65)
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں مدینہ طیبہ آیا تو میں نے ( جی میں ) کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوۓ ضرور دیکھوں گا ( میں نے دیکھا کہ جب تشہد میں بیٹھے تو آپ نے بایاں پاؤں بچھا کر اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھ لیا اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھا، امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اہل علم کی اکثریت کا اس پر عمل ہے ۔
2۔ عن وائل بن حجر قال صليت خلف رسول اللہ ﷺﷺ فلما قعدو تشهد فرش قدمه اليسرى على الارض و جلس عليها.
(سنن سعید بن منصور ج ص طحاوی ج 1 ص 178)
حضرت وائل بن حجر ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی جب آپ تشہد پڑھنے کے لئے بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پاؤں زمین پر بچالیا اور اس پر بیٹھ گئے۔
3۔ عن رفاعة بن رافع ان النبی ﷺ قال للاعرابي اذا سجدت فمكن بسجودك فاذا جلست فاجلس على رجلك اليسرى.
(مسند احمد بن حنبل ج ص مصنف ابن ابی شیبہ جم ابن حبان ص بحوالہ نیل الاوطاج 2 ص 282) حضرت رفاعة بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے اعرابی سے کہا کہ جب تو سجدہ کرے تو اچھی طرح سجدہ کر اور جب ( تشہد میں ) بیٹھے تو اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھے۔
4۔ عن عبدالله و هو بن عبدالله بن عمر عن ابيه قال من سنة الصلوة أن تنصب القدم اليمنى و استقباله باصابعها القبلة والجلوس على اليسرى.
(نسائی ج1 ص130)
حضرت عبداللہ اپنے والدعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا نماز کی سنت میں سے ہے کہ ( تشہد میں ) دایاں پاؤں کھڑا کر کے اس کی انگلیاں قبلہ رخ رکھی جائیں اور بائیں پاؤں پر بیٹھاجاۓ۔
5۔ عن عائشة قالت كان رسول اللہ ﷺ یستفتح الصلوة بالكتبيرو القراءة بالحمدالله رب العلمين وكان اذا ركع لم يشخص راسه و لم يصوبه و كان بين ذالك وكان اذا رفع راسه من الركوع لم يسجد حتى يستوى قائما و كان اذا رفع راسه من السجدة لو يسجد حتى يستوى جالسا و كان يقول في كل ركعتين التحية وكان يفرش رجله اليسرى و ينصب رجله اليمنى و كان ينهى عن عقبة الشيطان و ينهى أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع وكان يختم الصلوة بالتسليم.
(مسلم ج1 ص194)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز اللہ اکبر کے ساتھ اور قراءت الحمد للہ رب العلمین کے ساتھ شروع فرماتے تھے اور جب آپ رکوع کرتے تو اپنا سر مبارک نہ اوپر اٹھاتے تھے اور نہ بالکل نیچے جھکا دیتے تھے۔ دونوں کے درمیان رکھتے تھے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے توسجدہ میں نہ جاتے جب تک کہ سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے اور جب
آپ سجدہ سے سر اٹھاتے تو (دوسرے) سجدے میں نہ جاتے جب تک کہ سید ھے نہ بیٹھ جاتے اور آپ ہر دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے تھے اور آپ بایاں پاؤں بچھا دیتے اور دایاں کھڑا رکھتے تھے۔ اور شیطان کی طرح بیٹھنے سے منع فرماتے تھے اور آپ اس سے بھی منع فرماتے تھے کہ آدمی اپنے دونوں بازوؤں کو درندہ کی طرح بچھا دے اور آپ نماز سلام سے ختم فرماتے تھے۔
6۔ عن انس ان النبی ﷺ نہی عن الاقعاء والتورك في الصلوة.
(سنن کبری بیہقی ج2 ص 120)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز میں اقعاء اور تورک سے
منع فرمایا ہے۔
7۔ عن انس ان النبی ﷺ نهى عن الاقعاء والتورك في الصلوة.
( مجمع الزوائد ج 2 ص 86)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز میں اقعاء اور تورک سے منع فرمایا ہے۔
8۔ عن سمرة ان النبى ﷺ نهى عن التورك والاقعاء الحديث.
(مجمع الزوائد ج 2 ص 86 )
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے تورک اور اقعاء
سے منع فرمایا ہے۔
9۔ عن عبد الله بن عبد الله انه اخبره انه كان يرى عبد الله بن عمر يتربع في الصلوة اذا جلس ففعلته و انا يومئذ حدیث السن فنها في عبد الله بن عمر و قال انما سنة الصلوة ان تنصب رجلك اليمنى و تثنى اليسرى فقلت انك تفعل ذالك فقال ان رجلای لا تحملانی۔
(بخاری ج 1 ص 114)
حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھتے تھے کہ جب آپ ( قعدہ) میں بیٹھتے تو چوکڑی مار کر بیٹھتے (فرماتے ہیں کہ ) میں ابھی بالکل نو عمر تھا میں بھی ایسا کرنے لگا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجھے اس سے روکا اور فرمایا کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ( بیٹھنے میں ) دایاں پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں پاؤں پھیلا دو میں نے کہا کہ آپ تو اس طرح کرتے ہیں (چوکڑی مارتے ہیں) آپ نے فرمایا میرے پاؤں میرا بار نہیں اٹھا پاتے۔
ان احادیث سے حنفی مذہب ثابت ہو گیا کہ دونوں قعدے برابر ہیں۔
رہی وہ روایت جو پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں۔
1۔ یہ رویات مضطرب ہے خود ابوحمید ساعدی کی بعض روایات میں بھی تورک کا ذکر نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
حدثني ابو الحسن الا صبهاني قال ثنا هشام بن عمار قال ثنا اسمعيل بن عياش قال ثنا عتبه بن ابى حكيم عن عيسى بن عبد الرحمن العداوى عن العباس بن سهل عن ابى حميدن الساعدى انه كان يقول لاصحاب رسول الله ﷺعلى لا انا اعلمكم بصلوة رسول الله ﷺ قالوا من این قال رقبت ذلك منه حتى حفظت صلوته قال كان رسول الله ﷺ اذا قام الى الصلوة كبر و رفع يديه حذاء وجهه فاذا كبر للركوع فعل مثل ذلك واذا رفع راسه من الركوع قال سمع اللہ لمن حمده فعل مثل ذلك ربنا ولك الحمد و اذا سجد فرج بين فخذيه غير حامل بطنه على شئى من فخذيه و لا مفترش در اعيه فاذا قعد للتشهد اصبح رجله اليسرى و نصب اليمني على صدرها .
ترجمہ :حدیث بیان کی مجھ سے ابوالحسن الالصبانی نے کہا حدیث بیان کی ہم سے ہشام بن عمار نے کہا حدیث بیان کی ہم سے اسمعیل بن عباس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے عتبہ بن ابی حکیم نے وہ روایت کرتے ہیں عیسی بن عبدالرحمن العدوی سے وہ عباس بن سہل سے وہ ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے کہ آپ اصحاب رسول مقبول ﷺ سے فرمایا کرتے تھے کہ میں آپ لوگوں کے درمیان رسول مقبول ﷺ کی نماز سے زیادہ واقف ہوں انہوں نے کہا یہ کیونکر فرمایا آپ کی نماز دیکھتا رہتا تھا یہاں تک کہ آپ کی نماز یاد کر لی تھی فرمایا رسول الله ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو تکبیر تحریمہ کہتے تھے اور روئے مبارک تک دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تب بھی ایسا ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور اس طرح ہاتھ اٹھاتے ربنا ولك لحمد بھی کہتے اور سجدہ کرتے تو پیروں کے درمیان کشادگی رکھتے اور شکم رانوں کے اوپر نہ ڈال دیتے اور نہ کہیں زمین پر بچھاتے پھر جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو بایاں قدم بچھالیتے اور داہنا قدم کی انگلیوں کے بل کھڑا کر لیتے اور تشہد پڑھتے ۔
جب ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی ہی روایات مختلف ہیں تو ان پر مسئلہ کی بنیاد رکھ کر یہ کہنا کہ حنفی مسلک حدیث کے خلاف ہے۔ کیسے درست ہو سکتا ہے۔
2۔ اس حدیث کی سند میں محمد بن عمر بن عطاء ہیں ان کا حضرت ابوحمید سعدی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
3۔ یہ روایت عذر پر محمول ہے ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر عذر ہو تو آدمی تورک کر سکتا ہے سنت نہیں
ہے سنت وہی طریقہ ہے جو او پر والی روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں