اعتراض نمبر ٥٢
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : رات کی نماز ، ایک سلام کے ساتھ نو رکعت پڑھنا درست ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن سعيد بن هشام (في وترهﷺ ) يصلى تسع ركعات لا يجلس الافي الثامنة فيذكر الله ويحمده ويدعوينهض ولا يسلم فيصلى التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسلیما۔
( ترجمہ ) رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں سیدنا سعید بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نو (9) رکعات پڑھتے مسلسل آٹھ رکعت بغیر قعدہ کے پڑھتے پھر (آٹھویں رکعت پڑھ کر ) قعدہ کرتے التحیات پڑھتے پھر ( کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔
(مسلم ج١کتاب صلوة المسافرین وقصرها باب صلاة الليل وعدد كعات النبي ﷺ في الليل وان الوتر
ركعة وان الركعة صلوة صحيحة صفحه : ۲۵۶ رقم الحدیث ۱۷۳۹)
فقه حنفی
فاما نافلة الليل قال ابو حنيفة ان صلى ثمان ركعات بتسليمه جاز و تكره الزيادة على ذلك وقالا لا يزيد بالليل على ركعتين بتسليمة.
(هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب النوافل ص۱٤۸)
(ترجمہ) رات کی نماز کے بارے میں ابوحنیفہ نے کہا اگر آٹھ رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھے تو جائز ہے اس سے زیادہ رکعات (ایک سلام کے ساتھ ) پڑھنا مکروہ ہے اور صاحبین نے کہا رات کی نماز میں دور کعتیں ایک سلام کے ساتھ جائز ہیں اس سے زیادہ (رکعات ایک سلام کے ساتھ ) جائز نہیں۔
( فقه و حدیث ۹۱)
جواب:
مکروہ والی بات فقہ حنفی کا مفتی بہ مسئلہ نہیں ہے پیر بدیع الدین شاہ صاحب اگر فقہ حنفی کی مشہور کتاب المبسوط سرخسی دیکھ لیتے تو شاید ایسا نہ کہتے۔
امام سرخسی نے مبسوط میں کہا ہے:
والا اصح ان الزيادة لا تكره لما فيها من وصل العبادة وهو افضل ( ترجمہ ) یعنی صحیح تر یہ ہے کہ آٹھ رکعت سے زیادہ مکروہ نہیں اس لئے کہ اس میں اتصال عبادت ہے اور وہ بہتر ہے۔ (بحوالہ تیین الحقائق شرح کنز الدقائق باب الوتر والنوافل )
امام سرخی حنفی کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی میں مکروہ نہیں ہے باقی
وتروں کے متعلق حنفی طریقہ قرآن و سنت کے مطابق ہے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
فقہ حنفی کے دلائل
وتر پڑھنے کا طریقہ
ابتدائے اسلام میں نماز میں سلام کلام کی بھی گنجائش تھی اور وتر نفل تھے اس لیے بعض اوقات آنحضرت ﷺ تین وتروں میں دورکعت کے بعد سلام پھیر دیتے اور ایک وتر علیحدہ پڑھ لیتے۔ دیکھنے والے اس کو دو طرح روایت کر دیتے بعض صرف آخری رکعت کا خیال کر کے اسے ایک رکعت ہی روایت کر دیتے اور بعض یوں بیان کر دیتے کہ تین دوسلاموں سے ادا فرمائے لیکن جیسے باقی نمازوں میں سلام کلام جائز نہیں رہا ایسے ہی وتر کے درمیان بھی سلام کلام جائز نہیں رہا۔
وتر تین رکعات ہیں
(۱) عن ابي بن كعب قال كان رسول الله ﷺ يقرا في الوتر بسبح اسم ربك الاعلى وفي الركعة الثانية بقل يا ايها الكفرون وفى الثالثة بقل هو الله احد ولا يسلم الا فى اخر هن ويقول يعني بعدالتسليم سبحان الملك القدوس ثلثا -
(نسائی ج ١ص ١٩١)
( ترجمہ ) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی دوسری رکعت میں قل یا ايها الكفرون تیسری رکعت میں قل هو الله احد پڑھتے تھے اور سلام فقط آخری رکعت ہی میں پھیرتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد تین دفعہ سبحان الملک القدوس کہتے تھے۔
(۲) عن عائشة ان رسول الله ﷺ كان اذا صلى العشاء دخل المنزل ثم صلى ركعتين ثم صلى بعد هما ركعتين اطول منهماثم او تر بثلث لا يفصل بينهن الحديث
( مسند احمد ج ۶ ص۱۵۶)
(ترجمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عشاءکی نماز پڑھ لیتے تو گھر تشریف لاتے پھر دورکعت پڑھتے پھر ان سے لمبی دورکعتیں اور پڑھتے پھر تین رکعات وتر پڑھتے اور ان تینوں رکعتوں میں فصل نہیں فرماتے تھے۔
( یعنی دو رکعت کے بعد سلام نہیں پھیر تے تھے )
(۳) عن سعد بن هشام ان عائشة حدثته ان رسول الله ﷺ كان لا يسلم فی رکعتی الوتر
(نسائی ج ١ ص ۱۹۱ مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۵۹)
(ترجمہ) حضرت سعد بن ہشام رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دورکعت کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
(٤) عن عائشة قالت كان رسول الله ﷺلا يسلم في الركعتين الاوليين من الوتر (مستدرک حاکم ج ١ص ۳۰۴. دار قطنی ج ۲ ص ۳۲)
( ترجمہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دورکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیر تے تھے۔
(ه) عن عائشة قالت كان رسول الله ﷺ یو تر بثلث لا يسلم الا فى اخرهن وهذا وتر امير المؤمنين عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وعنہ اخذه اهل المدينة
(مستدرک حاکم، ج١ ص ۳۰۴) (ترجمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور سلام فقط آخری رکعت میں پھیرتے تھے اور یہی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھی وتر ہیں، انہیں سے یہ اہل مدینہ نے لیے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تین وترایک سلام سے پڑھتے تھے
(٦) عن المسور بن مخرمة قال دفنا ابابكر ليلا فقال عمرانى لم أوتر فقام وصففنا وراءه فصلی بنا ثلاث ركعات لم يسلم الا فى اخر ھن
( طحاوی ج ١ص ۲۰۲ مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۹۳ مصنف عبد الرزاق ج ۳ ص ۲۰)
(ترجمہ) حضرت مسور بن مخرمة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو رات کے وقت دفن کیا، ( فراغت پر ) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ فرمانے لگے کہ میں نے
وتر نہیں پڑھے، آپ کھڑے ہوئے تو ہم نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھ لی، آپ نے ہمیں تین رکعات نماز وتر پڑھائی اور سلام فقط ان کے آخر ہی میں پھیرا۔
(٧) عن عمر بن الخطاب انه اوتر بثلث ركعات لم يفصل بينهن بسلام
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۹۴)
(ترجمہ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے تین رکعات وتر پڑھے اور تینوں رکعتوں میں سلام کے ذریعہ فصل نہیں کیا۔
(یعنی دورکعتوں پر سلام نہیں پھیرا)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی وتر تین رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے
(۸) عن الحسن قال كان ابي بن كعب يو تر بثلاث لا يسلم الافى الثالثة مثل المغرب
(مصنف عبدالرزاق ج ۳ ص ۲۶)
(ترجمہ) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وتر تین رکعات پڑھتا کرتے تھے اور سلام فقط تیسری رکعت میں پھیرتے تھے مغرب کی نماز کی طرح۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ تین رکعات وتر ایک سلام سے پڑھتے تھے
(٩) عن ثابت قال قال انس یا ابا محمد خذ عنی فانی اخذت عن رسول الله ﷺ و اخذ رسول الله ﷺ عن الله ولن تأخذ عن احد اوثق منى قال ثم صلى بى العشاء ثم صلى ست ركعات يسلم بين الركعتين ثم او تر بثلث يسلم في اخر هن
( کنز العمال ج ۸ ص ۶۶ )
( ترجمہ ) حضرت ثابت رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابومحمد رحمۃاللہ علیہ مجھ سے اخذ کر لو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے اخذ کیا ہے اور تم ہرگز مجھ سے زیادہ ثقہ آدمی سے اخذ نہیں کر سکتے۔ حضرت ثابت رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے مجھے عشاء کی نماز پڑھائی پھر چھ رکعات نفل ادا کئے ہر دورکعت پر سلام پھیرتے رہے پھر آپ نے تین رکعات وتر پڑھے اور ان کے آخر میں سلام پھیرا۔
(١٠) عن ثابت قال صلى بى انس الوتر وانا عن يمينه وام ولده خلفنا ثلث ركعات لم يسلم الافى اخرهن ظننت انه يريدان يعلمني
(طحاوی ج ۱ص ۲۰۲)
(ترجمہ) حضرت ثابت رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مجھے وتر کی تین رکعتیں پڑھائیں اس حال میں کہ میں ان کی دائیں جانب تھا اور ان کی ام ولد ہمارے پیچھے ، آپ نے سلام فقط آخر میں پھیرا میرا غالب گمان یہ ہے کہ آپ مجھے وتر کا طریقہ سکھلا رہے تھے۔
حضرت مکحول رحمۃاللہ علیہ بھی وتر تین رکعت ایک سلام سے پڑھتے تھے
(۱۱) عن مكحول انه كان يوتر بثلث لا يسلم في ركعتين.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۹۴)
(ترجمہ) حضرت مکحول رحمۃاللہ علیہ سے مروی ہے کہ وہ وتر تین رکعات پڑھا کرتے تھے اور دورکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ کاوتر کے متعلق فیصلہ
(۱۲) ثنا ابن وهب قال اخبرنى ابن ابي الزناد عن ابيه قال اثبت عمر بن عبد العزيز الوتر بالمدينة يقول الفقهاء ثلثاً لا يسلم الا فى اخرهن
(طحاوی ج اص ۲۰۳)
(ترجمہ) ہمیں حدیث بیان کی ابن وہب رحمۃاللہ علیہ نے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر دی ابن ابوالزناد نے اپنے والد کے واسطے سے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ نے مدینہ طیبہ میں فقہاء کے قول کے مطابق وتر تین رکعت مقرر کر دیے تھے جن میں سلام صرف آخر میں پھیرا جاتا تھا۔
مدینہ طیبہ کے سات فقہا بھی ایک سلام کیساتھ تین رکعات وتر کے قائل تھے
(۱۳) ثنا عبد الرحمن بن ابي الزناد عن ابيه عن (الفقهاء) السبعةسعید بن المسيب وعروة بن الزبير والقاسم بن محمد و ابی بکر بن عبد الرحمن و خارجة بن زيد وعبيد الله و سليمان بن يسار في مشيخة سواهم اهل فقه و صلاح و فضل وربما اختلفوا في الشيء فاخذ يقول اكثرهم وافضلهم رايا فكان هما وعيت عنهم على هذه الصفة ان الوتر ثلث لا يسلم الا فى اخر ھن ۔ ( طحاوی ج ١ ص ۲۰۴) ( ترجمہ ) ہم سے حدیث بیان کی عبد الرحمن رحمۃاللہ علیہ بن ابی الزناد نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے اور انہوں نے روایت کی سات (فقہاء تابعین ) یعنی سعید بن مسیب، عروة بن زبیر، قاسم بن محمد ، ابوبکر بن عبد الرحمن ، خارجہ بن زید، عبید اللہ بن عبد اللہ اور سلیمان بن یسار رحمۃاللہ علیہم سے ان کے علاوہ دوسرے فقیہہ اہل صلاح اور صاحب فضل بزرگوں کی موجودگی میں رودیت کی یہ بزرگ اگر کسی مسئلہ میں اختلاف کرتے تو اس شخص کے قول پر عمل کرتے جو زیادہ ذی رائے اور افضل ہوتا ، میں نے جو باتیں ان سے یاد کی ہیں اس طریقہ پر ان میں سے ایک یہ ہے کہ وتر تین رکعات ہیں جن میں سلام فقط آخر ہی میں پھیرا جائے گا۔
اہل اسلام کا اجماع کہ وتر ایک سلام سے تین رکعات ہیں
(۱۴) عن الحسن قال اجمع المسلمون ان الوترثلث لا يسلم الافى اخرهن.
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۹۴
(ترجمہ) حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں جن میں صرف آخری رکعت ہی میں سلام پھیرا جائے گا۔
(۱۵) حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت على رضی اللہ عنہ کے ہزاروں ) اصحاب ( تین وتر پڑھتے تھے ) اور دورکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ اکثر مسلمانوں کا ان ہی احادیث پر عمل جاری رہا اور دو رکعت کے بعد سلام پھیر نے پر عمل تو کیا جاری رہتا۔ صرف حدیث ہی روایت کی تو شاگر دسن کر کہنے لگا
کہ انی لا خاف ان يقول الناس ھی البتيراء میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس طریقے کو دم کٹی نماز کہیں۔ ( طحاوی ج ١ ص ۱۹۲)
ظاہر ہے کہ اس وقت لوگ یا صحابہ تھے یا تابعین۔ ان کا اس طریقے کو دُم کٹی کہنا اس حدیث کے متروک العمل ہونے کی دلیل ہے جیسا کوئی شخص کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا ذکر کرتا تولوگ اعتراض کرتے۔
افسوس کہ غیر مقلدین نے احناف کی ضد میں ان احادیث پر عمل چھوڑ رکھا ہے جن پر بلانکیر
عمل جاری رہا اور شاذ روایات کو اپنانا اپنامشن بنالیا ہے۔
در میانی قعده
احناف کی ضد میں یا تو غیر مقلدین دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے کیونکہ اس پر عمل باقی نہیں رہا یا احناف کی ضد میں دو رکعت پر سرے سے قعدہ ہی نہیں کرتے یہ بھی ترک واجب ہے۔ (1) ابوداؤد شریف میں حدیث ہے کہ ایک نماز میں آنحضرت ﷺ درمیانی
قعدہ بھول گئے تو آپ ﷺ نے سجدہ سہو فر مایا:
اس لئے اگر کوئی بھول کر بھی یہ قعدہ نہ کرے تو سجدہ سہو واجب ہے ورنہ اعادہ نماز واجب ہے۔
(۲) عن عائشة قالت فى حديث طويل) وكان يقول في كل ركعتين التحية
(مسلم ج ١ص ۱۹۴)
( ترجمہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(ایک لمبی حدیث کے ذیل میں ) فرماتی ہیں کہ اور آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ہر دو رکعت میں التحیات ہے۔
(۳) عن الفضل بن عباس قال قال رسول الله ﷺ من الصلوة مثنى مثنى تشهد في كل ركعتين، الحدیث۔ (ترمذی ج اس ۸۷)
(ترجمہ) حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہوتی ہے، ہر دورکعتوں میں تشہد ہے۔
(٤) عن عبد الله بن مسعود مرفوعا الى النبي ﷺ ) قال اذاقعدتم في كل ركعتين فقولوا التحيات الله الحديث
( نسائی ج١ ص ۱۳۰)
(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب تم ہر دو رکعت میں قعدہ کرو تو التحیات اللہ (آخر تک) پڑھو۔ (۵) عن ام سلمة ان النبي ﷺ قال في كل ركعتين تشهد و تسليم على المرسلين وعلى من تبعهم من عباد الله الصالحين.
( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۳۹)
(ترجمہ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دورکعت میں تشہد ہے اور رسولوں پر اور ان کی پیروی کرنے والے اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے۔
(٦) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دورکعتوں پر کھڑے ہو گئے لوگوں نے سبحان اللہ کہا مگر آپ ﷺ نے پرواہ نہیں کی پس جب آپ نماز پوری کر چکے تو دو سجدے سہو کے گئے اور پھر سلام پھیرا۔ (رواء البزار جمع الزوائدر ١ص ٢٠٢اور کیا اس کے سب راوی ثقہ ہیں )
(۷) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا صلوۃ اللیل مثنی مثنی۔ رات کی نماز دو دو رکعت ہے جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا گیا کہ دو دو رکعت کا کیا مطلب ہے تو فرمایا تسلم فی کل رکعتین ( صحیح مسلم ج ١ ص ۷ ۲۵ ) کہ تم ہر دور کعت پر سلام پھیرو۔
(۸) چنانچہ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرا جاتا تھا ہاں وتر کی دورکعت کے بعد آخر میں یہ سلام باقی نہ رہا تو التحیات پڑھ کر بغیر سلام پھیرے تیسری رکعت میں کھڑے ہوتے تھے اس لئے وہ تمام حدیثیں بھی جن میں سلام کی نفی
ہے قعدہ کی دلیل ہیں ۔
اور تمام احادیث جن میں نماز وتر کو نماز مغرب جیسا قرار دیا ہے ( جو پہلی گذری ہیں)
درمیانی قعدہ کے لئے دلیل ہیں کیونکہ مغرب کے تین فرضوں کی دورکعتوں کے بعداگر التحیات نہ پڑھے یعنی قعدہ نہ کرے تو بالاتفاق سجدہ سہو واجب ہے۔
(۹) عن عبد الله قال ارسلت امى ليلة لتبيت عند النبي ﷺ فتنظر کیف یو تر فصلی ماشاء الله ان يصلى حتى اذا كان اخر الليل وارادالو تر قرا بسبح اسم ربك الاعلى في الركعة الأولى وقرا في الثانية قل يا ايها الكفرون ثم قعد ثم قام ولم يفصل بينهما بالسلام ثم قرا بقل هو الله احد حتى اذا فرغ كبر ثم قنت فدعا بما شاء الله ان يدعو ثم كبر وركع (الخ) (الاستیعاب فی معرفت الاصحاب لابن عبد البرج ۴ ص ۷۱ )
( ترجمہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو ایک دفعہ رات گزارنے کے لیے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے یہاں بھیجا تا کہ وہ یہ دیکھیں کہ آپ وتر کیسے پڑھتے ہیں ( آپ کی والدہ فرماتی ہیں کہ ) آپ نے نماز پڑھی جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے چاہی حتیٰ کہ جب رات کا اخیر ہو گیا اور آپ نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یا ایھا الکفرون پڑھیں پھر قعدہ کیا پھر قعدہ کے بعد کھڑے ہوئے اور ان کے درمیان سلام کے ساتھ فضل نہیں کیا پھر آپ نے قل هو الله احد پڑھی جب آپ قرآت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی اور دعاء قنوت پڑھی اور قنوت میں جو اللہ نے چاہا دعامانگی پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیا۔
(۱۰) عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله ﷺ صلوة الليل مثنی مثنى فاذا اردت ان تنصرف فاركع ركعة تو ترلك ما صليت قال القاسم و ر اینا انا سامنذ ا در کنایو ترون بثلث الحديث
( بخاری ج ١ ص ۱۳۵)
( ترجمہ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہوتی ہے پھر جب تمہارا فارغ ہو کر جانے کاارادہ ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لو یہ تمہاری پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنادے گی، حضرت قاسم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو دیکھا جب سے ہم نے ہوش
سنبھالا کہ وہ وتر تین رکعات ہی پڑھتے ہیں۔
دیکھئے بخاری شریف کی اس حدیث سے تین رکعت وتر ایک سلام اور دو التحیات سے ثابت ہو گئی ان سب مشہور روایات کے خلاف غیر مقلدین جس روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ یہ ہے۔ امام حاکم نے پہلے دو سندوں سے سعید بن ابی عروبه عن قتاده عن زراره بن ابی اوفی عن سعد بن ہشام عن عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ وتر کی پہلی دورکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے اور لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ وتر کی پہلی دورکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے اور لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے
(مستدرک حاکم، ج ١ ص ۳۰۴) سعید کی یہ حدیث مستدرک حاکم کے علاوہ نسائی ج ۱ ص ۲٤۸ موطا امام محمد ص ۱۵۱ طحاوی ج ۱ ص ۱۹۳ محلی ابن حزم ج ۲ ص ٤٨ ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۹۵ دار قطنی ص ۱۷۵ بیہقی ج ۳ ص ۳۱ مسند احمد ج ۶ ص ۱۵۶ طبرانی صغیر ان دس کتابوں میں حدیث کے الفاظ یہی ہیں کہ دورکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔ اختبرنا ابونصر احمد بن سہل الفقیہ بنجار انا صالح بن محمد بن حبیب الحافظ ثنا شیبان بن فروخ ابن ابی شیبه ثنا ابان عن قتاده عن زراہ بن ابی اوفی عن سعد بن ہشام عن عائشه رضی اللہ عنہا قالت كان رسول الله ﷺ يوتر بثلاث لا يسلم (في نسخة لا يقعد) الا في آخرهن وهذا وتر امير المؤمنين عمر بن الخطاب وعنه اخذه اهل المدينه (المستدرک ج ۱ ص ۳۰۴) گویا دس سندوں میں تو اتفاق ہے کہ حدیث کے الفاظ لا یسلم ہیں یعنی آپ ﷺ دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے اور گیارھویں سند میں دو نسخے ہیں ایک تو یہی لا یسلم دوسرالا یقعد کہ آپ ﷺ دو رکعتوں کے بعد نہیں بیٹھتے تھے ۔ اس لیے ضروری ہوا کہ یہ نسخہ جو گیارہ سندوں کے خلاف ہے اس کی سند اور متن کی تحقیق کی جائے کیونکہ اس نسخہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے متواتر آیت قرآنی کے خلاف کوئی شاذ قرات ہو یا محکم کے مقابلہ میں متشابہ آ جائے ۔
(١) اس کی سند کے پہلے دوراویوں کے حالات نہ تقریب میں ملے ہیں نہ تذکرۃ الحفاظ اور میزان الاعتدال اور تہذیب التہذیب میں۔
(۲) تیسرے راوی شیبان بن فروخ کے بارہ میں تقریب التہذیب ص ۱۴۸ پر لکھا ہے صدوق یھم ورمی بالقدر۔ یعنی سچا ہے مگر وہم کا شکار تھا اور تقدیر کے انکار کی بھی تہمت اس پر تھی۔
(۳) چوتھا راوی ابان ہے ابان کی ولدیت سند میں مذکور نہیں تقریب التہذیب میں دس ابان نامی راوی ہیں جن میں سے آٹھ ضعیف ہیں اور دو ثقہ ہیں علامہ نیموی رحمۃاللہ علیہ نے اس کو ابان بن یزید قرار دیا ہے لیکن ان کی بات غیر مقلدین کے لیے حجت نہیں بن سکتی اور علامہ نیموی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابان بن یزید گوثقہ ہے لیکن اس کی یہ روایت ثقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سےغیر محفوظ ہے۔
( آثار السنن ج ١ ص ۱۵)
(۴) فتاوی علمائے حدیث میں ہے: ”ابان کی روایت میں بجائے لا یقعد کے لا یسلم“ ہے ( یعنی سلام نہیں پھیرا کرتے تھے ) اس لیے امام بیہقی کی تصریح کے مطابق لا یقعد والے الفاظ کو خطاء اور غلطی تصور کرنا چاہیے۔
(فتاوی علمائے حدیث ج ۳ ص ۱۹۹) (۵) اس روایت کا مدار قتادہ پر ہے اور قتادہ جب عن سے روایت کرے تو غیر مقلدین کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت حجت نہیں کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث و اذا قر فانصتوا کو ماننے سے اسی لیے انکار کیا ہے کہ قتادہ عن سے روایت کر رہا ہے اور نسائی ج ۱ ص ۱۲۳ کی حدیث مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ جس میں سجدوں کے وقت بھی رفع یدین کرنے کا ذکر ہے۔ قتادہ عن سے روایت کرتے ہیں اور یہ لوگ اس کو نہیں مانتے اس لیے قتادہ کی روایت ان کے نزدیک کیسے حجت بن سکتی ہے اس لیے سند کے اعتبار سے یہ روایت ہرگز قابل استدلال نہیں۔
(٦) اس کے متن پر غور کریں تو بھی جملہ لا یقعد صحیح نہیں کیونکہ اس کے بعد اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ وتر پڑھنے کا یہ طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تھا اور یہی طریقہ اہل مدینہ نے ان سے اخذ کیا۔ اب دیکھنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا طریقہ لا یقعد ولا تھا یا لا یسلم والا تو پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دفن کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب کو نماز وتر پڑھائی تو آخر میں سلام پھیرا اس میں لا یسلم ہے لا یقعد نہیں۔
(۷) حسن بصری رحمۃاللہ سے جب کہا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ دورکعتوں کے بعد سلام پھیرتے تھے ۔ تو حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کے والد حضرت عمر بڑے بڑے فقیہ تھے وہ دوسری رکعت پر سلام پھیرے بغیر تکبیر سے اٹھتے تھے
(مستدرک ج ١ص ۳۰۴) حضرت عمر
رضی اللہ عنہ سے کسی صحیح سند سے لا یقعد کا لفظ ثابت نہیں۔
(۸) دوسری بات اہل مدینہ کے وتر کی بابت ہے ان کے بارہ میں بھی گزر چکا کہ بالا تفاق لا یسلم والا طریقہ تھا کسی ایک روایت میں بھی لا یقعد نہیں آتا۔
الغرض لا يقعد والی روایت نہ سند صحیح ہے نہ متنا اور اکثر احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہایت منکر روایت ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں