اعتراض نمبر ٥٤
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : ہر قسم کا سود قبیح ترین گناہ ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن ابى هريرة قال قال رسول الله علم الرباسبعون جزء ايسرها ان ينكح الرجل امه.
(ترجمہ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سود کے (گناہ) کے ستر درجے ہیں ان میں سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے صحبت کرے۔
ابن ماجه ۲ ابواب التجارات باب التغليظ في الربوا صفحه: ۱۶۴، رقم الحدیث ۲۲۷۴)
فقه حنفی
ولا بين المسلم والحربي في دار الحرب.
(هدایه خیرین ج٣ کتاب البیوع باب الربا، ص۸۶)
یعنی دار الحرب میں مسلمان اور کافر کے مابین جو بھی (لین دین) ہو وہ سود نہیں ہے۔
( فقه و حدیث ص ۲۳)
جواب:
فقہ حنفی میں سود قطعی طور پر حرام ہے۔ جو حدیث پیر بدیع الدین شاہ راشدی نے نقل کی ہے حنفی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ راشدی صاحب کا یہ کہنا کہ حنفی سود کو جائز کہتے ہیں۔ درست نہیں۔ آپ نے ہدایہ سے جو عبارت نقل کی ہے وہ بھی پوری نقل نہیں کی ہدایہ کا یہ مسئلہ عام سود کے متعلق نہیں ہے بلکہ
دار الحرب میں بھی خاصی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
فقہ حنفی میں سود حرام ہے
(١) قدوری میں ہے
سود حرام ہے ہر چیز میں خواہ کیلی ہو یا وزنی
( قدوری باب الربوا مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
(۲) کنز الدقائق میں ہے۔ ربو (سود) مال کی اس زیادتی کو کہتے ہیں جو مال کو مال سے بدلنے میں بلاعوض ہو ( مثلاً دوسیر گیہوں وغیرہ کے بدلے تین سیر لے لئے یا دیدیے یا دس روپے لے کر گیارہ دے دیے یالے لیے ) اور ( دو چیزوں میں ) ربوا ( پیمانے ) کی علت قدر اور جنس ( میں دونوں کا ایک ہونا ) سے (قدر سے مراد یہ ہے کہ جو چیز پیمانہ سے نپ کر بکتی ہے اس میں پیمانہ اور جو تل کر بکتی ہو اس میں تول ایک ہو یعنی دونوں تل کر سکتی ہوں اور جنس کے ایک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ دونوں چیزیں ایک ہی قسم کی ہوں مثلاً دونوں گیہوں ہوں یا دونوں جو ، چنے وغیرہ ہوں) پس جن چیزوں میں یہ قدر و جنس ایک ہوں ان میں (ایک طرف سے ) زیادتی اور ادھار ( دونوں حرام ہیں)
(احسن المسائل ترجمہ کنز الدقائق المسائل ترجمہ کنز الائق ص ۲۳۱ سود کے احکام)
(۳) شرح وقایہ میں ہے
تو جو چیز تپ یا تل کر بکتی ہے جب بدلے میں اپنی جنس کے بیچی جاویگی تو اس میں زیادتی لینا حرام ہے اگر چہ وہ کھانی کی نہ ہووے جیسے چونا اور لوہا چونا کیلی ہے اور وزنی
(نورالہدایہ ترجمه شرح وقایہ جلد سوم باب (ربوا)
(۴) ہدایہ میں ہے
فرماتے ہیں کہ ہر اس چیز میں ربوا (سود ) حرام ہے جو مکیلی یا موزونی ہے بشرطیکہ اسے اس
کی ہم جنس کے عوض زیادتی کے ساتھ بیچی جائے
(احسن الہدایہ ترجمہ بدایه جلد ۸ ص ۳۰۳.۳۰۴ باب الربا)
(۵) در مختار میں ہے۔ باب الربوا یہ باب ہے ربوا یعنی سود اور بیاج کی احکام میں۔ مرابحہ کے بعد ربوا کو اس واسطے ذکر کیا کہ دونوں میں زیادت ہے مگر یہ کہ مرابحہ کی زیادت حلال ہے اور رہوا کی زیادت حرام قطعی قال اللہ تعالی يأيها الذين امنولا تأكلوا الربوايعني حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والوں بیاج (سود) نہ کھاؤ اس آیت میں ربوا سے مراد قدر زائد ہے خواہ زائد قرض میں ہو یا اموال ربوا کی بیع ہو اور گا ہے ربوانفس زیادت کو بھی کہتے ہیں یعنی بمعنی مصدری قال اللہ تعالیٰ واصل اللہ البیع وحرم الربوا یعنی حق تعالیٰ نے فرمایا حلال کیا ہے اللہ نے بیع کو اور حرام کیا ربوا کو یعنی اموال ربویہ کے قرض اور بیع میں زیادہ دینے لینے کو کذافی فتح القدیر ملخصاً ۔ معلوم ہوا ک جیسے بیج میں سود حرام ہے ویسے ہی قرض میں بھی حرام ہے تو یہ جو بعضے ناقص الفہم کہتے ہیں کہ سود تو فقط بیچ میں حرام ہے نہ قرض میں سوغلط ہے صحیح مسلم وغیرہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی سود کھانے اور کھلانے والے پر ابوداؤد اور ترمذی میں اتنی روایت زیادہ ہے کہ سود کے دونوں گواہوں اور کاتب پر لعنت فرمائی اور نسائی میں ابوہریرہ والا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ کوئی باقی نہ رہے گا مگر سود کھائے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کو اس کی بھاپ لگے گی اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس کی غبار لگے گا کذافی التسیر ۔ ہو لغتہ مطلق الزيادة ربوالغت میں مطلق زیادت کو کہتے ہیں خواہ کیل یا وزن میں زیادت
ہو یا سوائے اس کے۔
(غایة الاوطار ترجمه در مختار ج ۳ ص ١٣٠،١٤٠)
(٦) فتاوی عالمگیری میں ہے: چھٹی فصل ربوا (سود) اور اس کے احکام کے بیان میں واضح ہو کہ ربوا (سود) شرح میں اس مال کو کہتے ہیں کہ جو مال کے عوض مال لینے میں زیادتی ہو کہ اس کے مقابلے میں مال
نہ ہو اور یہ ربوا (سود) ہر ناپ یا تول کی چیزوں میں جو اپنے جنس کے ساتھ بچی جاویں حرام ہے۔ (فتاوی ہندیہ ترجمہ فتاوی عالمگیری ج ٤ ص ۳۹۸)
(۷) بہشتی زیور میں ہے سودی لین دین کا بڑا بھاری گناہ ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اس کی بڑی برائی اور اس سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے سود دینے والے اور لینے والے اور بیچ میں پڑ کے سود دلانے والے، سودی دستاویز لکھنے والے گواہ شاہد وغیرہ سب پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ سود دینے والا اور لینے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں اس لیے اس سے بہت بچنا چاہیے اس کے مسائل بہت نازک ہیں زرا ذراسی بات میں سود کا گناہ ہو جاتا ہے اور انجان لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا گناہ ہوا۔ ہم ضروری ضروری مسئلے یہاں بیان کرتے ہیں لین دین کے وقت ہمیشہ ان کا خیال رکھا کرو۔ مکمل مدلل بہشتی زیور حصہ پنجم باپ سودی لین دین کا بیان ص ۳۷۰ وص ۳۷۱)
(۸) الفلاح الضروری اردو تر جمه التسہیل الضروری لمسائل القدوری میں ہے
سوال: لغت اور شریعت کی رو سے سود کیا ہے۔
جواب: سود لغت کی رو سے مطلق زیادت ( کا نام) ہے اور بہر حال سفید شریعت ( کی اصطلاح) میں تو
وہ دو قسموں کی طرف منقسم ہے (۱) بیع کا سود (۲) قرض کا سود اور یہ دونوں حرام ہیں اور تحقیق (سود) لینےوالے اور دینے والے کے حق میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔
سوال: قرض کا سود کیا ہے؟
جواب:۔ وہ یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً دراہم یادنانیر قرض میں دے اور قرض دار پر شرط لگائے کہ وہ اسے اس سے زیادہ ادا کرے جو اس نے قرض میں دیا ہے۔ ( الفلاح الضروری ص ۱۷۷)
سوال: بیع کا سود کیا ہے۔
جواب:۔ وہ یہ ہے کہ کیلی یا وزنی ( چیز ) اس کی جنس کے عوض زیادت کے طور پر نیچے یا کیلی یا وزنی (چیز) اس کی جنس کے عوض یا غیر جنس کے عوض ادھار کے طور پر بیچے۔
(الفلاح الضروری ص ١۷۷ ص۱۷۸)
سوال: کیا اس (سلسلہ) میں نبی پاک ﷺ کی طرف سے نص وادر ہوئی ہے؟
جواب: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ( مسلم فی الربا) کہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سونے کو سونے کے عوض، چاندی کو چاندی کے عوض ، گندم کو گندم کے عوض، جو کو جو کے عوض ، کھجور کو کھجور کے عوض اور نمک کو نمک کے عوض برابر برابر دست بدست ( بیچو) پس جس نے زائد دیا یا زائد لیاتو تحقیق اس نے سود کا ارتکاب کیا (سود) لینے والا اور دینے والا اس ( جرم) میں برابر ہیں۔ اور حدیث عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں (مسلم فرالربا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، سونے کو سونے کے عوض، چاندی کو چاندی کے عوض ،نمک کو نمک کے عوض برابر برابر دست بدست (بیچو) پس جب یہ قسمیں مختلف ہوجائیں (مثلاً سونے کے عوض چاندی یا گندم کے عوض جو وغیرہ) تو جیسے چاہو بیچو بشرطیکہ دست بدست ہو ۔
پس نبی کریم ﷺان چھ چیزوں کو ذکر فرمایا اور حکم دیا کہ ان چیزوں کو ان کی جنس میں سے بعض کو بعض کے عوض نہ بیچا جائے الا یہ کہ برابر برابر دست بدست ہو اور بیان فرمایا کہ جو زائد ہو جائے پس وہ سود ہے جس جانب سے بھی ہو۔ اور فرمایا کہ (سود) لینے والا اور دینے والا اس ( جرم) میں برابر ہیں اور خلاف جنس کا عوض ان قسموں کی فروخت کو برابری اور زیادت کے طور پر جائز قرارد یا بشرطیکہ دست برس ہو۔ (الفلاح الضروری ص ۱۷۸)
(9) مولانا حبیب اللہ حنفی لکھتے ہیں
سودی کاروبار
اسلامی شریعت میں سود قطعی حرام ہے اور ہر طرح کا سودی کاروبار بھی حرام ہے۔
(اسلامی فقه جلد ۲ ص ۳۴۵)
(۱۰) مفتی محمد شفیع حنفی لکھتے ہیں۔
اسلام میں سودوربوا کی خدمت کوئی مخفی چیز نہیں کہ اس کے لیے رسالے یا کتابیں لکھیں جائیں۔ جو شخص کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسلام میں سود حرام ہے۔ (مسلہ سود ص ۷ )
ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ فقہ حنفی میں سود قطعی طور پر حرام ہے۔ اس پر بے شمار حوالہ جات نقل کئے جاسکتے ہیں۔ بلکہ سود کی حرمت پر حنفی علماء نے عربی ، انگریزی، اور اردوزبان میں کئی کتابیں شائع کی ہیں ۔ اور اب بھی سب سے زیادہ سود کے خلاف دنیا میں حنفی علماء ہی کی تحقیقات شائع ہو رہی ہیں۔ آپ صرف مفتی شفیع صاحب اور ان کے لائق فرزند گرامی۔ مولانا مفتی رفیع عثمانی۔ اور خاص کر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی تصانیف ہی دیکھ لیں۔ آنکھیں کھل جائیں گی۔ اگر زیادہ نہیں تو صرف مسئلہ سود مفتی شفیع صاحب کی اور تجارتی سود مفتی تقی عثمانی کی پڑھ لیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ حنفی کیا کہتے ہیں مفتی شفیع صاحب نے اپنے رسالہ میں قرآن مجید کی آٹھ (۸) آیات اور ۴۷، احادیث مبارکہ نقل کر کے سود کی حرمت ثابت کی ہے۔ جس سے راشدی کا الزام غلط ثابت ہوتا ہے کہ احناف سود کی حرمت کے قائل نہیں۔
ہدایہ کی عبارت کی وضاحت
راشدی صاحب نے پوری عبارت نقل نہیں کی ہم پہلے ہدایہ کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں
ملاحظہ فرمائیں۔
قال ولا بين المسلم والحربى فى دار الحرب خلافا لابي يوسف رحمة
ا الله عليه والشافعي لهما الاعتبار بالمستا من منهم في دارنا فرماتے ہیں کہ دار الحرب میں مسلمان اور حربی کے مابین ربوا نہیں ہے، امام ابو یوسف اور امام شافعی کا اختلاف ہے ان حضرات کی دلیل امن لے کر دار سلام میں آئے میں آئے ہوئے حربی پر قیاس ہے۔ (ہدایہ باب الربا)
یہ ہے ہدایہ کی پوری عبارت۔ راشد صاحب نے فی دار الحرب تک عبارت نقل کی ہے آگے خلافا لابی یوسف سے آگے تک عبارت چھوڑ دی۔ یہ کیوں کیا۔ یہ اس لیے کیا کہ عوام کو پتہ لگ جائے گا کہ اس مسئلہ میں امام ابویوسف خلاف نہیں امام ابو یوسف کے نزدیک دار الحرب میں بھی سود جائز نہیں ہے اور بہت سارے محدثین اور فقہاء احناف کا بھی یہ ہی مذہب ہے اور ہمارا بھی اس وقت نظریہ امام ابو یوسف والا ہی ہے۔
باقی جن فقہاء نے امام ابو یوسف کے خلاف نظریہ قائم کیا ہے۔ وہ کمزور ہے۔ اس لیے فقہ حنفی کا فتوی امام ابو یوسف کے قول پر ہے۔
جو لوگ جائز قرار دیتے ہیں ان کے پاس بھی دلائل موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ ہم نقل کرتے ہیں تا کہ دونوں طرف کے دلائل سامنے آجائیں۔
دلیل نمبر 1 :
حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو کر کافروں سے سود کا معاملہ کرتے رہے۔ حضور اکرم ﷺ نے عرفہ کا دن حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا۔
وربا الجاهلية موضوعة واول ربا امنع ربانار با عباس ابن عند المطلب اسی طرح زمانہ جاہلیت کے تمام سود پامال ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے سود کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں اور وہ حضرت عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ان کا تمام سود چھوڑ دیا گیا ہے۔
(مسلم کتاب الحج باب حجة النبي ﷺ الرحیق المختوم ص ۶۱۶ سیرت مصطفی ج ۳ ص ۳۰۲)
اس حدیث کی شرح علامہ ترکمانی حنفی سے
علامہ ترکمانی جو ہر انتقی جلد ۲ ص ۲۰۳ میں فرماتے ہیں۔
کہ ربا حرام ہو چکا تھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ مکہ میں فتح مکہ تک ربا کا معاملہ کیا کرتے تھے۔
اس حدیث کی شرح امام طحاوی سے
امام طحاوی فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کا حضرت عباس کے ربا کو موقوف کرنا اس امرپر دلالت کرتا ہے کہ مسلمان اور مشرک میں دار الحرب میں ربا جائز ہے ابوحنیفہ سفیان ثوری اور ابراہیم نخعی بھی جائز کہتے ہیں رسول کریم ﷺ کایہ فرمانا کہ جاہلیت کاربا موقوف ہے اس امر پر دلیل ہے
کہ اس وقت تک ربا قائم تھی یہاں تک کہ مکہ فتح ہو کر جاہلیت جاتی رہی حضرت عباس کاربا موقوف کرنا
اس بات پر دلیل ہے کہ اس وقت بھی وہ جائز تھا کیونکہ موقوف وہی ہوتا ہے جو قائم ہو۔
فقیہ ابوالولید فرماتے ہیں:
کہ یہ استدلال صحیح ہے ۔ کیونکہ کہ مشرکین و مسلمین میں دارالحرب میں ربا حلال نہ ہوتا توحضرت عباس رضی اللہ عنہ کاربا اسی وقت موقوف ہو جاتا جس وقت وہ مسلمان ہوئے تھے۔ اور اسلام کے بعد جوکچھ نیا ہوتا واپس کیا جاتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَإِن تُبْتُهُ فَلَكُمْ رُوس أموالكم اگر تم توبہ کرو تو اصل مال تمہارے لیے حلال ہے۔ حجتہ الوداع میں حضور علیہ اسلام نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کاربا موقوف کیا تو اسلام لانے کے بعد جو کچھ وہ لے چکے تھے اگرنا جائز ہوتا تو واپس کرایا جاتا بہ چوں کہ ایسا نہیں ہوا اس لیے معلوم ہوا کہ دارالحرب میں رہامسلمان اور حربیوں میں متحقق نہیں ہوتا ۔
دلیل نمبر ۲: ہدایہ میں ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لاربا بين المسلم والحربي في دار الحرب
دار الحرب میں مسلمان اور حربی کے مابین ربوا نہیں ہے۔
(بہیقی فی معرفت السنن والاثار باب بيع الدرهم بالد رحمین فی ارض حدیث نمبر ۵۶۶۳) نصب الرایہ
یہ حدیث گو ضعیف ہے لیکن حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی موید ہوسکتی ہے نواب صدیق
حسن خاں بھوپالی غیر مقلد لکھتے ہیں۔
ثم نقول اموال اهل الحرب على اصل الاباحة يجوز لكل احد اخذ ما شاء منها كيف شاء قبل التامين بهم
(ترجمہ) اہل حرب کے اموال مباح ہیں۔ ان کو امان دینے سے پہلے ہر شخص کو جائزہے کہ ان اموال سے جو چاہئے جس طرح چاہیے لے لے۔ (روضتہ الندیہ ص ۱۴۰)
ناظرین ہم نے یہ بحث لمبی کر دی ہے صرف اس لیے کہ یہ سود کا مسئلہ ہے۔ جس میں دونوں گروہوں کے دلائل کا کچھ ذکر کر دیا ہے۔ مگر ہمارا نظریہ پہلے والا ہے دار الحرب میں بھی سود لینا جائز نہیں اس کی حرمت وہاں بھی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں