اعتراض نمبر ٥٦
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : حلالہ حرام ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن عباس قال لعن رسول الله ﷺ المحلل والمحلل له .
( ترجمہ ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے (حلالہ ) کرایا جائے دونوں پر لعنت کی ہے۔
(ابن ماجه ابواب النكاح باب المحلل والمحلل له ص ١۳۹ رقم الحدیث ۱۹۳۳)
فقه حنفی
فان طلقها بعد وطيها حلت للاول.
(هدایه اولین ١کتاب الطلاق باب الرجعة صفحه ۴۰۰)
جواب:
اگر دوسرا شوہر وطی کرنے کے بعد طلاق دے دے تو وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔
( فقه و حدیث ۹۵)
جواب:
پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے صرف لفظ حلالہ پر اعتراض کیا ہے حالانکہ حلالہ کا مطلب ہے حلال ہونا ۔ یعنی وہ عورت جس کو تین طلاقیں دی گئی اب وہ اپنے خاوند کے لیے حرام ہوگئی ہے۔ اگر پھر دوبارہ وہ نکاح کرنا چاہے تو اس کا کیا طریقہ ہے اور وہ عورت پہلے خاوند کے لیے کس طرح حلال ہوسکتی ہے اس کا حکم قرآن میں موجود ہے:
حلالہ کا حکم قرآن میں
فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره فإن طلقها فلا جناح عليهما ان يتراجعا إن ظنا ان يقيما حدود الله وتلك حدود الله يبين بالقومٍ يعلمون
(پ ۲ سورة بقرہ آیت نمبر ۲۳۰)
(ترجمہ) پھر اگر اس نے طلاق دے دی عورت کو ( یعنی تیسری مرتبہ ) پس اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہے یہاں تک وہ اس کے علاوہ کسی خاوند کے ساتھ نکاح کرنے۔ پھر اگر اس نے بھی طلاق دے دی اس عورت کو تو کوئی گناہ نہیں ہے ان دونوں پر کہ رجوع کریں اگر وہ گمان کریں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھیں گے۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس قوم کے لیے بیان کرتا ہے۔ جو علم رکھتے ہیں۔ اس آیت میں فلا تحل لو۔ کے الفاظ سے حلالہ کا لفظ ماخوز ہے کہ وہ عورت پہلے خاوندکے لیے حلال ہو جاتی ہے۔
حلالہ کی دو قسمیں
نمبر ١: غیر مشروط اور نمبر ۲: مشروط
پہلی قسم۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کی ہے اور یہی ہمارا اہلسنت والجماعت کا مسلک ہے۔
دوسری قسم: یعنی مشروط غیر مقلدین صرف اس کو حلالہ تصور کرتے ہیں۔
یہ غیر مقلدین کی بددیانتی ہے حالانکہ حلالہ کا لفظ عام ہے۔ پہلی صورت بھی حلالہ ہے اور دوسری صورت بھی حلالہ ہے مگر غیر مقلدین عوام کو دھوکہ دینے کے لیے صرف دوسری صورت ہی کو حلالہ فرما رہے ہیں
اور اس مشروط حلالہ کو حنفی مذہب قرار دے رہے ہیں جو سراسر جھوٹ ہے۔
حنفی مسلک ملاحظہ فرمائیں مشہور عالم دین حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی حنفی اپنی مشہور زمانہ کتاب بہشتی زیور حصہ چہارم باب تین طلاق دینے کا بیان ص ۵۶ مطبوعہ ناشران قرآن لمیٹڈ اردو بازار میں لکھتے ہیں۔
مسئلہ نمبر ۴: اگر دوسرے مرد سے اس شرط پر نکاح ہوا کہ صحبت کر کے چھوڑ دے گا تو اس اقرار لینے کا کچھ اعتبار نہیں۔ اس کو اختیار ہے چھوڑے یا نہ چھوڑے اور جب جی چاہے چھوڑے اور یہ اقرار کر کے نکاح کرنا بہت گناہ اور حرام ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے لیکن نکاح ہو جاتا ہے تو اگر اس نکاح کے بعد دوسرے خاوند نے صحبت کر کے چھوڑ دیا یا مر گیا تو پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی۔
(شامی ج ۲ ص ۸۸۹)
ناظرین کرام یہ ہے حنفی مسلک - راشدی صاحب کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ صحیح بات نقل کرتے۔ ہم نے صرف ایک حوالہ ہی پیش کیا ہے اس پر ہم کافی حوالے پیش کر سکتے ہیں مگر انصاف کے لیے اتنا بھی کافی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں