اعتراض نمبر٥٧
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : رضاعت کے متعلق اکیلی عورت کی گواہی کا حکم ۔
حدیث نبوی ﷺ
عن عقبة بن حارث انه تزوج البنة لابى اهاب عزیز فاتت امراة فقالت قدار ضعت عقبة والتي تزوج بها فقال لها عقبة ما اعلم انك ارضعتنى ولا اخبر تنى فأرسل الى الى ابى اهاب فسألهم فقالوا ما علمنا ارضعت صاحبتا فركب الى النبى ﷺ بالمدينة فسأله فقال رسول اللهﷺ كيف وقد قيل ففارقها عقبة ونكحت زوجها غیرہ
(ترجمہ) سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے ابواہاب کی بیٹی سے نکاح کیا پھر اس کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا میں نے تم دونوں (میاں بیوی کو دودھ پلایا ہے پھر عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے کہا مجھے معلوم نہیں ہے کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہو اور نہ ہی تو نے مجھے پہلے خبر دی، پھر عقبہ رضی اللہ عنہ نے سسرال کی طرف یہ ہی معلوم کرنے کے لیے پیغام بھیجا لیکن انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے پھر عقبہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی طرف مدینہ میں آئے اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اب کیسے تم اکٹھے رہ سکتے ہو؟ جب کہ تمہارے متعلق یہ بات کہی گئی ہے پس عقبہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺکےحکم سے اپنی بیوی کو الگ کر دیا اور اس نے دوسرے شوہر سے شادی کر لی۔
(رواه البخاري في كتاب الشهادات باب اذ اشهد شاهدا وشهود بشتي رقم الحدیث ۲۶۴۰ج ١ ص ۳۶۰) (صحیح ابن حبان ۱۰ صفحه ۳۲ ، رقم الحدیث ۲۲۱۸، طبع مؤسة الرساله يروت)
فقه حنفی
ولا يقبل فى الرضاع شهادة النساء منفردات انما يثبت بشهادة رجلین اور جل و امراتين
(هدایه اولین ج١کتاب الرضاء صفحه ۳۵۴)
صرف عورتوں کی گواہی رضاعت کے بارے میں قبول نہیں کی جائے گی رضاعت ثابت ہوگی دو مردوں کی گواہی سے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ہے۔
( فقه و حدیث ٩٦)
جواب:
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید نے عام معاملات میں جہاں گواہ! اپنی مرضی سے مقرر کیے جا سکتے ہیں اور جن کی اطلاع پانا مرد و عورت دونوں کے لیے ممکن ہوتا ہے گواہی کا نصاب دو
مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں مقرر کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
واستشهدوا شهيدين من رجالكم فإن لم يكونا رجلين فرجل و امراتن ممن ترضون من الشهداء
( ترجمہ ) اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں۔
(بقرہ آیت نمبر ۲۸۲)
قرآن مجید کے اس واضح حکم سے صرف ایسی ہی صورتیں مستثنی ہو سکتی ہیں جن میں مردوں کے لیے اطلاع پانا ناممکن ہو ( جیسے مثلاً حیض، بچے کی ولادت اور عورتوں کے دیگر خاص منفی معاملات ) جبکہ بچے کو دودھ پلانا ان معاملات میں سے نہیں ہے، کیونکہ اس کی اطلاع عام طور پر دودھ پلانے والی کے باپ، بھائی ، شوہر یا خادم وغیرہ اور بچے کے والدین یا اعزہ کو بھی ہوتی ہے۔ اس لیے دودھ پلانے والی کے کہنے یا اس پر محض عورتوں کے گواہی دینے پر حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی اور قرآن مجید کا عام حکم برقرار رہے گا۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا صلاح الدین یوسف غیر مقلد لکھتے ہیں۔
نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں (سعودی تفسیر ص ۱۲۵)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فیصلہ
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسے ہی ایک مقدمے میں جس میں ایک عورت نے دعوی کیا تھا کہ اس
نے میاں بیوی کو دودھ پلایا ہے، اپنے قاضی کو ہدایت کی کہ
اگر یہ عورت اس پر گواہ (یعنی شرعی نصاب کے مطابق دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) لے آئے تو میاں بیوی میں تفریق کر دو ۔ ورنہ ان کا نکاح بحال رہنے دو الا یہ کہ وہ خود ایک شہبے والی بات سے بچنا چاہیں۔ اگر ہم اس طرح کے دعوؤں سے میاں بیوی کے درمیان تفریق کا دروازہ کھول دیں تو جو عورت چاہیے گی اٹھ کر کسی میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دے گی ۔
(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج ۵ ص ۳۶۹ مصنف عبدالرزاق . ج ۸ ص ۳۳۲)
(۲) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
ان عمر بن الخطاب اتى فى امرأة شهدت على رجل وامراته انها
ارضعتها فقال لا حتى شهدر جلان اور جل و مراتان
(ترجمہ) نہیں (ہم تمہارا دعویٰ نہیں مانیں گے مگر یہ کہ دومرد، یا ایک مرد اور دوعورتیں اس پر گواہی دیں ۔
(سنن الکبری بیہقی باب شہادت النساء فی الرضاع جلد ٧)
(۳) اس طرح کے فیصلے حضرت علی رضی اللہ عنہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہیں دیکھئے۔
(محلی ابن حزم، ج ۹ ص ۴۰۳. فتح الباری ج ۵ ص ۲۶۹)
راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے اس کا جواب
اس حدیث میں جو حضور اکرم ﷺ نے انہیں اپنی بیوی کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں دیا تھا کہ اس لونڈی کے کہہ دینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوگئی تھی ۔ بلکہ جیسا کہ اس ہی روایت سے واضح ہے اس لیے دیا تھا کہ اس عورت کے ایسا کہنے سے میاں بیوی کے دل میں ایک قسم کے شبہ اور تنگی کا آ جانا لازمی تھا۔ نیز ایسے مواقع پر لوگ بھی باتیں بنانے میں پیچھے نہیں رہتے اور اس سے ظاہر ہے، ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں رہ سکتی وگرنہ اس قصہ کی تفصیلات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا ایسا فرمانا، قانونی فیصلہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک حکیمانہ ہدایت کے طور پر تھا۔ چنانچہ روایات میں بیان ہوا ہے کہ یہ لونڈی عقبہ بن حارث کے نکاح کے بعد ان کے گھر آئی اور ان سے کچھ صدقہ خیرات کا سوال کیا ، انہوں نے تاخیر کی تو اس کہا ” مجھ پر صدقہ کرو، خدا کی قسم میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔“
(دارقطنی ج ٤ ص ٧٧ اوسکت علیہ ابن حجرفی الفتح ج ۵ ص ۲۶۹) اس سے واضح ہے کہ اس کا یہ دعوی کر کے ان کو شبہے میں ڈالنا ، غصے اور کہنے کی بنا پر تھا۔ پھر اس کے اس دودھ پلانے کی خبر نہ عقبہ بن حارث کو تھی نہ لڑکی کو اور نہ ان کے گھر والوں کو اور نہ اس عورت نے اس سے پہلے کبھی ان کو اس کی خبر دی تھی (فتح الباری ) اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دعوی محض جھوٹا تھا۔ پھر جب عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺکی خدمت میں جا کر صورت حال عرض کی تو حضور اکرم ﷺ نے مسئلہ بتانے سے اعراض کیا، پھر تین یا چار مرتبہ پوچھنے پر آپ نے جواب دیا (دار قطنی ج ۴، ص ۱۷۷) اگر اس عورت کی گواہی پر حرمت رضاعت ثابت ہوتی تو حضور اکرم ﷺ پہلی مرتبہ ہی انہیں حکم دیتے کہ اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے ان کو جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ بھی یہی بتلاتے ہیں کہ آپ ﷺ کا ان کو اپنی بیوی کو چھوڑ دینے کے
لیے کہنا محض مصلحت کے طور پر تھا، نہ کہ بطور قانون حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” کیسے تم اس کو پاس رکھو گے ) ؟ جب کہ ایسی (جیسے والی ) بات کہہ دی گئی ہے اب تم اس کو اپنے سے جدا کر دو۔ (فتح الباری ج ۵ ص ۲۶۸)
نیز شمس الائمہ سرخی نے مبسوط میں فرمایا کہ اس عورت کی یہ شہادت کسی کے مذہب میں بھی قانوناً قابل قبول نہیں تھی کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے اس عورت کی کوئی رنجش پیدا ہو گئی تھی اور اس رنجش کے پیدا ہوتے ہی اس نے یہ شہادت دی۔ ظاہر ہے کہ یہ شہادت الضخن ، تھی جو کسی کے نزدیک بھی مقبول نہیں۔
(مبسوط سرخی ج ۵ ص ۱۳۸ کتاب النکاح)
حدیث کا صحیح مطلب یہ ہی ہے کہ آپ ﷺ کا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو بیوی چھوڑنے کا حکم دینا بطور احتیاط کے تھا۔ ہماری بات کی تائید خود امام بخاری کے طرز سے ہوتی ہے۔ چنانچہ امام بخاری اللہ نے یہ حدیث ( بخاری ج١ ص ۲۷۵٫۲۷۶) کتاب البیوع باب تفسیر المشتبہات میں بھی ذکر کی ہے۔ جو احتیاط پر عمل کرنے کے لیے اور شک شبہ کو چھوڑنے کے لیے امام بخاری نے قائم کیا ہے۔ علامہ وحید الزمان صاحب کا حوالہ
علامہ صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہاں امام بخاری اس لیے لائے کہ گواکثر علماء کے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہو سکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے شبہ کی بنا پر عقبہ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے معلوم ہوا اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہادت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیز گاری ہے۔
(تیسر الباری جلد ۲ ج ۳۵۳ کتاب البیوع )
ہم حنفی بھی یہ ہی کہتے ہیں۔ کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہی ہے۔ اس مسئلہ میں اصل حکم قرآن مجید کا قابل عمل ہے اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم بھی یہ ہی ہے۔ اور حدیث کا جو مفہوم ہم نےبیان کیا ہے اس سے حدیث پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں