نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر57 عورت ، عورتوں کی امامت کراسکتی ہے

 اعتراض نمبر ٤٧

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں ۔ مسئله ٤٧: 

عورت ،عورتوں کی امامت کراسکتی ہے

حدیث نبوی ﷺ

عن ام ورقة ان رسول اللہ ﷺ امرها ان توم اهل دارها 

ترجمہ: ام ورقہ رضی اللہ عنہا اسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرائیں ۔ 

دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

(ابوداودج 1كتاب الصلوة باب امامة النساءص94-95رقم الحديث 592)

 عن عائشة انها كانت توم النساء وتقوم وسطهن

 ترجمہ: سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا امام بن کر عورتوں کو نماز پڑھاتیں اور صف کے بیچ میں کھڑی ہوتیں تھیں ۔

(مستدرك حاكم ج 1ص320رقم الحديث 731 طب دارالکتب العلمية بيروت) (السنن الكبري للبهيقي ج 1ص3,408ص131 رقم الحدیث 1781 ) (مصنف عبدالرزاق ج3ص141 رقم الحديث5087)

فقه حنفی 

يكره للنساء ان يصلين وحدهن جماعة 

(هداية اولين ج 1کتاب الصلاة باب الامامة ص123)

عورتوں کا آپس میں جماعت کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ 

(فقہ وحدیث ص 86 )

جواب:

راشدی صاحب نے جو دو احادیث نقل کی ہیں پہلے ہم ان کا جواب یہاں نقل کرتے ہیں

ملاحظہ فرمائیں۔

پہلی حدیث

اس کے کئی جواب ہیں ۔ پہلا جواب حدیث نقل کرنے میں خیانت ۔ راشدی صاحب نے ابوداؤد امامتہ النساء سے حضرت ام ورقہ کی جو حدیث نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ بھی آتے تھے ۔ جوراشدی صاحب نے نقل نہیں کئے ۔

و جعل لها موذنا يوذن لها وامرها ان تومر اهل دارها قال عبدالرحمن فانار ايت موذنها شيخا كبيرا . 

اور ان کے لئے ایک موذن مقرر کر دیا تھا جو اذان کہا کرتا اور وہ امامت کرتی تھیں، اپنے گھر والوں کی رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ۔عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے ان کے موذن کو دیکھا بہت بوڑھے تے ۔ ( تر جمہ علامہ وحید الزمان غیر مقلد ) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے لئے ایک مردموذن مقرر کیا گیا تھا غیر

مقلدین کو چاہئے کہ اگر وہ اس مسئلہ پر عمل کروانا چاہتے ہیں تو پھر پہلے ایک بوڑھا موذن بھی مقررکریں پھر عورتوں کو امامت کی اجازت دیں۔

دوسراجواب

اس حدیث میں صرف عورتوں ہی کی امامت کا ذکر نہیں جیسا کہ راشدی صاحب نے ترجمہ کیا ہے بلکہ اس کا صحیح ترجمہ وہ ہے جو علامہ وحید الزمان نے کیا ہے۔ گھر والوں میں مرد اور عورتیں اور بچے سب ہی شامل ہیں ۔ اور خاص کرمؤذن کا ذکر موجود ہے اور خاص کر موذن کا ذکر موجود ہے اور وہ مرد ہے لازمی بات ہے کہ وہ بھی ام ورقہ بنا کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ علامہ وحید الزمان نے اس کی تشریح میں لکھا ہے:

 ف: یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ عورت کو امامت کرنا اپنے گھر والوں کی درست ہے،اگرچہ اس میں مرد بھی ہوں کیونکہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کا موذن تھا اورغلام انہی کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔

(ابو داؤد مترجم ج 1 ص 250)

غیر مقلد بھی عورتوں کو اجازت دیں کہ وہ مردوں کی امامت کرایا کریں ۔ 

تیسرا جواب 

راشدی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ یہ حدیث صحیح نہیں اس کی سند میں ایک راوی محمد بن فضیل ہے جوسچا تو ہے مگر مذہبا شیعہ ہے۔ دوسراراوی ولید بن عبداللہ بن جمیع جوسچا تو ہے مگر وہم کا مریض اور مذہبا شیعہ ہے۔ 

تیسرا راوی عبدالرحمن بن خلاد ہے جو مجہول ہے۔

چوتھا جواب

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کا امر موجود ہے ۔ تو غیر مقلدین کا فرض ہے کہ اپنے ہر گھر میں عورت کی امامت کو واجب قرار دیں۔

 پانچوان جواب

اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے امام عورت کو مقتدیوں سے آگے کھڑے ہونے سے منع نہیں فرمایا۔

الغرض یہ حدیث نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی اس حدیث کے تمام ظاہری الفاظ پر امت میں سے کسی کامل ہے کہ ہر گھر میں مستقل موذن ہواورمستقل طور پر عورت اپنے گھر والوں کو جماعت کرایا کرے۔

راشدی صاحب کو مندرجہ ذیل احادیث کا جوکلیہ قاعدہ کی حیثیت رکھی ہیں نظر کیوں نہیں آئیں۔

حدیث نمبر :1

عن عائشة رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ ﷺ قال لا خير في جماعة النساء الافي المسجد: وفى جنازة قتيل رواه أحمد والطبراني.

( مجمع الزوائد ج 1 ص 155)

حدیث نمبر :2

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لا توم المراة 

(المدونة الكبرى ج 1 ص 86)

حدیث نمبر :3

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خیر صفوف الرجال اولها وشرها اخرها وخير صفوف النساء اخرها وشرها اولھا۔ 

(مسلم ج1 ص182) 

عورت کے لئے تو مقتدی بن کر بھی اگلی صف میں کھڑے ہونا منع ہے پھر اس کی امامت کیسے جائز ہوگی۔ 

راشدی صاحب جب گھر کے مردعورت کے مقتدی بنیں گے تو ان پر امام صاحبہ کی اطاعت واجب ہوگی یا نہیں اگر وہ اطاعت کریں گے تو حضرت ﷺ کا فرمان ہے:

 هلكت الرجال حين اطاعت النساء رواه أحمد والحكم وقال صحیح الاسناد.

راشدی صاحب کے حواری یہ کہیں کہ ہم تو صرف اس کے قائل ہیں کہ صرف عورت عورتوں کی جماعت کراۓ تو ان کی پیش کردہ حدیث میں یہ ذکر نہیں بلکہ سب گھر والوں کی امامت کا حکم ہے اور گھر میں مرد بھی ہوتے ہیں اور ہماری پیش کردہ حدیث سے پتہ چلا کہ عورت کی جماعت میں کوئی خیر سے نہیں اور خیر سے خالی ہونا ہی دلیل کراہت ہے۔

دوسری حدیث کا جواب 

1 ۔ راشدی صاحب نے حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اولا تو وہ صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہے جوضعیف ہے۔

(میزان الاعتدال)

2 ۔ جماعت کی نماز میں امام مقتدیوں کے آگے کھڑا ہوتا ہے دو یا دو سے زیادہ متقتدیوں کے ہوتے ہوئے امام کا آگے کھڑا ہونا اسلام میں سنت متواترہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آنحضرت می خلفائے راشدین اور تمام امت کا عمل یہی ہے ۔ اس لئے دو یا دو سے زیادہ مقتدیوں کے ہوتے ہوئے امام کا مقتدیوں کے درمیان کھڑے ہو کر جماعت کرانا اس سنت متواترہ کی مخالفت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے۔

3 ۔ اس حدیث میں ہے کہ امام صف کے درمیان کھڑا ہو۔ اس طریقہ کی تائید آنحضرت ﷺ سے ہر گز ثابت نہیں اور جماعت کے وقت مقتدیوں کے درمیان کھڑا ہونا بالاتفاق مکروہ ہے ہاں ایسے مکروہ کا ارتکاب کسی ضرورت کے تحت کیا جاسکتا ہے مثلا کسی کو نماز کا طریقہ سکھانے کے لئے جیسے ظہر وعصر میں امام کا بلند آواز سے قرآن پڑھنا خلاف سنت ہے اور مکروہ ہے مگر صیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ بغرض تعلیم بھی کبھار کوئی آیت اونچی آواز سے پڑھ دیتے تھے۔ایسی ضرورت کے وقت کراہت نہیں رہتی لیکن اس کو جواز کا قاعدہ بنالینا یقینا مکروہ ہے۔ راشدی صاحب نے دوضعیف حدیثیں لکھیں اور باقی صحیح حدیثوں کو چھپایا۔ اور بالکل یہی دھوکا ہدایہ کے ساتھ کیا اس کی عبارت بھی مکمل نہیں لکھی ۔ 

ہدایہ کی مکمل عبارت

و يكره للنساء ان يصلين وحدهن الجماعة لانها لا تخلو عن ارتکاب محرم و هو قيام الامام وسط الصف فيكرة كاالعراة وان فعلن قامت الامام لان وسطهن عائشة فعلت كذلك و حمل فعلها الجماعة على ابتداء الاسلام ولان في التقدم زيادة الكشف

(ہدایہ ص 123 )

راشدی صاحب نے ہدایہ کی عبارت نامکمل پیش کی صاحب ہدایہ نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہی ثابت کر دیا کہ اس سے ہی کراہت نکلتی ہے کیونکہ امام کا مقتدیوں کے درمیان کھڑا ہونا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...