نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 58 مسئلہ : ایک ساتھ دی گئیں تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔

 اعتراض نمبر ٥٨

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : 

مسئلہ : ایک ساتھ دی گئیں تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔

حدیث نبوی ﷺ

ان ابا الصهباء قال لابن عباس اتعلم انما كانت الثلاث تجعل واحدة على عهد رسول الله ﷺ وابى بكر وثلاثا من امارة عمر فقال ابن عباس نعم .

( ترجمہ ) ابوالصباء نے سید نا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے تین سال تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں۔

(مسلم ج١کتاب الطلاق باب الطلاق الثلاث ص ۲۷۸ رقم الحدیث (۳۶۷۴)

فقه حنفی

و طلاق البدعة ان يطلقها ثلاث بكلمة واحد و ثلاث في طهر واحد فاذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا

(هدایه اولین ج١کتاب الطلاق باب طلاق السنة ص ۳۵۵)

اور طلاق بدعی یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاقیں ایک کلمے یا تین کلمات کے ساتھ دی جائیں اگر ( طلاق ) اسی طریق پر دی جائے گی وہ تینوں واقع تو ہو جائیں گی لیکن طلاق دینے والا گنہگار ہوگا۔ 

(فقہ وحدیث ص ۹۷)

جواب:

راشدی صاحب نے ان احادیث کا بالکل ذکر نہیں کیا جو فقہ حنفی کی مستدل تھیں ۔ اور جو حدیث نقل کی ہے وہ بھی پوری نقل نہیں کی۔ اس مسئلہ پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں قارئین تفصیل تو ان میں دیکھ لیں خاص کر عمدة الاثاث فی حکم الطلاقات الثلاث ، عمدۃ الابحاث في وقوع طلاق الثلاث ، اکٹھی تین طلاق کا شرعی حکم ،تین طلاق کا ثبوت ہم پہلے کچھ وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن سے حنفی مذہب ثابت ہوتا ہے پھر اس حدیث کا جواب دیں گے جو راشدی صاحب نے ادھوری نقل کی ہے۔ 

فقہ حنفی کے دلائل پہلی حدیث :

سہل بن سعد سعدی کہتے ہیں کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور کہنے

لگے بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو (اعتراض کی حالت میں) دیکھے تو کیا کرے؟ اگر اسے مار ڈالے تو تم اسے بھی قصاص میں مارڈالو گے۔ لہذا کیا کرے؟ آپ یہ مسئلہ میرے لیے آنحضرت ﷺ سے دریافت فرمائیے۔ چنانچہ عاصم نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا آپ ﷺ کو اس قسم کے سوال برے معلوم ہوئے اور برا کہا عاصم رضی اللہ عنہ کو آنحضرت ﷺ کے فرمان سے گرانی محسوس ہوئی (یعنی وہ شرمندہ ہوئے کہ میں نے ناحق ایسی بات پوچھی جس سے آنحضرت ﷺ ناراض ہوئے ) جب عاصم اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے کہنے لگے کہیے حضور ﷺ نے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا آپ خواہ مخواہ میرے لیے ایک الجھن لے کر آئے آنحضرتﷺ اس سوال ہی کو نا پسند فرماتے ہیں، عویمر نے کہا مگر میں بغیر اس سوال کا جواب لیے چین سے نہ بیٹھوں گا۔ غرض عویمر رضی اللہ عنہ نے خود حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو اعتراض کی حالت میں) دیکھے تو کیا کرے؟ اگر اسے قتل کرے تو آپ لوگ بھی اسے قتل کر دیں گے۔ بتائیے کوئی اور صورت بھی ہے؟

آنحضرت ﷺ نے فرمایا اب اللہ تعالیٰ نے تیرے اور تیری بیوی کے لیے وحی نازل کی ہے جا اپنی بیوی کو لے آ سہل کہتے ہیں پھر میاں بیوی دونوں نے امان کیا ( یعنی قسمیں اُٹھائی ) میں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا جب دونوں امان سے فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ اگر میں اس عورت کو گھر میں رکھوں تو گویا میں جھوٹا ثابت ہوں گا۔ آنحضرت ﷺ کے حکم دینے سے قبل ہی اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی۔

(بخاری کتاب الطلاق باب من اجاز طلاق الثلاث )

دوسری حدیث:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی آنحضرت ﷺ کے پاس آکر کہنے لگی یا رسول اللہﷺ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ ( یعنی طلاق بائنہ ) دے دی ہے اور اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے نکاح کر لیا ہے لیکن اس کے پاس گویا کپڑے کا پھندنا ہے ( یعنی وہ نامرد ہے ) آنحضرتﷺ نے فرمایا شائد تو پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے؟ یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم دوسرے شوہر سے ہم بستری کر کے لطف نہ اٹھا لو اور وہ تم سے لطف نہ اٹھا لے۔ 

( بخاری کتاب الطلاق پاره ۲۲ ، باب من اجاز طلاق الثلث )

تیسری حدیث:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ مگر دوسرے نے بھی ( جماع سے پہلے ) اسے طلاق دے دی۔ تو رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے شخص کے لیے (صرف نئے نکاخ کے ساتھ ) حلال ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ دوسرا شخص بھی پہلے ہی کی طرح اس کی مٹھاس چکھ نہ لے ( یعنی اس سے ہم بستری نہ کرلے) 

( بخاری باب من اجاز طلاق الثلث ) امام بخاری نے اس حدیث کو بیک لفظ دی ہوئی تین طلاق کے واقع ہو جانے کو ثابت کرنے کی غرض سے پیش کیا ہے نیز اس کے علاوہ دو مزید حدیثیں بھی اس سلسلے میں بطور ثبوت پیش کی ہیں۔

چوتھی حدیث:

نافع بن عجیر بیان کرتے ہیں حضرت رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سیمہ مزنیہ کو طلاق بتہ دے دی پھر وہ نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ دے دی ہے اللہ تعالیٰ کی قسم میرا ارادہ صرف ایک طلاق دینے کا تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے رکانہ سے فرمایا اللہ تعالیٰ کی قسم تم نے صرف ایک طلاق مراد لی تھی ؟ تو رکانہ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم ﷺ نے اس خاتون کو اس صاحب کے ساتھ بھیج دیا اس کے بعد انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں اس

عورت کو دوسری طلاق دی۔ 

( مسند الامام الشافعی مترجم ج ۱۳۸۳ باب الرجعة في الواحد والاثنتين )

یہ روایت مسند امام شافعی کے علاوہ

(۱) سنن دارمی مترجم کتاب الطلاق باب فی طلاق البتة 

(۲) ابو داود باب فی البته ج ١ ص ۳۰

میں ہے

ان ركانة بن عبد يزيد طلق امراته سهيمة البتة

رکانہ عبدیزیز کے بیٹے سے روایت ہے کہ اس نے اپنی جورو کو جس کا نام سہیمہ تھا طلاق بتہ دی۔ اس روایت کے متعلق امام ابوداود فرماتے ہیں: قال ابو داؤد وهذا اصح من حديث ابن جريج ان ركانة طلق امراته ثلاثا لانهم اهل بيته و هم اعلم به الخ ( ترجمہ ) حضرت رکانه رضی اللہ عنہ کی یہ روایت (جس میں بتہ کا لفظ موجود ہے ) ابن جریج رحمۃاللہ علیہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نی تین طلاقیں دی تھی کیونکہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس(واقعہ ) کو زیادہ جانتے ہیں۔ 

(۳) ترمذی ابواب الطلاق باب ماجاء فی الرجل طلق امراء ته البته (۴) ابن ماجہ ابواب الطلاق باب طلاق البته (۵) دار قطنی ج ۲ ص ۳۹ (۶) مستدرک حاکم ج ۲، ص ۱۹۹ (۷) موارد الظمان ص ۳۲۱ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔

یہ حدیث رکانہ مختلف اسناد ومختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے لیکن امام ابوداؤد نے جس روایت کو زیادہ صحیح قرار دیا ہے وہ یہ ہی روایت ہے جو ہم نے نقل کی ہے جس میں آتا ہے انت طالق البتہ یعنی حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی۔ بت کا معنی کاٹنا ہے یعنی تجھے ایسی طلاق ہے جو میرے اور تیرے درمیان تعلق نکاح کو کاٹ دے۔ اور فوری طور پر تعلق نکاح تین طلاقوں سے بھی کٹ جاتا ہے۔ اور ایک طلاق بائن سے بھی۔ لہذا یہ لفظ طلاق بائن کے بھی مشتمل ہے اور تین طلاقوں کا بھی۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ نے حضرت رکانہ سے نیت پوچھی کہ اس لفظ سے تمہاری کیا مراد تھی ۔ جب انہوں نے قسم اُٹھا کر اپنی نیت بتائی کہ میں نے یہ لفظ ایک طلاق کی نیت سے بولا ہے۔ تو آپ ﷺ نے ایک طلاق ( بائن) قرار دے کر دوبارہ نکاح کا حکم فرمایا جسے رجوع بالنکاح بھی کہتے ہیں۔

پانچویں حدیث : 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی بیوی کو حیض ( یعنی ماہواری کے ایام) کی حالت میں ایک طلاق دے دی پھر چاہا کہ اس کے بعد دو ماہواریوں میں مزید دو طلاقیں اور دے دوں گا۔ یہ خبر جب آنحضرت ﷺکو پہنچی تو آپ نے فرمایا اے عمر کے بیٹے اللہ تعالیٰ نے تجھے اس طرح طلاق دینے کا حکم نہیں دیا ۔ تم نے سنت کے خلاف کیا اور سنت یہ ہے کہ شوہر طہر کا انتظار کرے اور ہر طہر میں ایک طلاق دے۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے مجھے رجوع کا حکم فرمایا اور میں نے رجوع کر لیا۔ پھر فرمایا جب وہ پاک ہولے تو چاہو تو طلاق دے دینا اور چاہو تو روک رکھنا۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر میں اسے تین

 (۳) طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے رجوع کرنا حلال ہوتا ؟ آپ نے فرمایا ایسے میں تیرے لیے رجوع حلال نہ ہوتا اور وہ تیرے نکاح سے نکل جاتی اور یہ گناہ کی بات ہوتی۔ (سنن دار قطنی صفحه ۳۱. ج ۴)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا نا جائز ہے۔ مگر طلاق پھر بھی ہوجاتی ہے۔

(۲) اس حدیث میں تین طلاقیں اکٹھی واقع ہونے کا کتنا صریح ثبوت موجود ہے۔

چھٹی حدیث :

عام شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ آپ اپنی طلاق کا واقعہ بیان کیجئے۔

انہوں نے فرمایا کہ مجھے میرے شوہر نے یمن جاتے وقت تین طلاقیں دی تھیں ۔ تو حضور ﷺنے یہ طلاقیں نافذ فرمادیں۔

(ابن ماجه ص ١۴۵ باب من طلق ثلاثانی مجلس واحد )

راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔

پہلا جواب:

راشدی صاحب نے حدیث مکمل نقل نہیں کی اگر مکمل نقل کر دیتے تو بات کافی حد تک صاف ہو جاتی اور عوام کو مسئلہ جلدی سمجھ آ جاتا۔ اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لیےمہلت تھی۔ کاش ہم ان پر نافذ کر دیں چنانچہ پھر آپ نے اس کو ان پر نافذ کر دیا۔

(صحیح مسلم جلد اول جس ۴۷۷) ناظرین آپ نے مکمل حدیث ملاحظہ فرمائی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف تین طلاق کو تین ہی کیوں شمار کیا۔ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو کیوں قبول کیا۔ یہ مسئلہ کوئی معمولی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ حرام حلال کا مسئلہ ہے۔ جسے نکاح سے قبل عورت مرد پر حرام ہوتی ہے نکاح ہونے سے حلال ہو جاتی ہے اسی طرح تین طلاقیں دینے سے عورت مرد پر حرام ہو جاتی ہے۔ اہلسنت والجماعت کے. علاوہ دیگر فرقے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جو بھی نظریہ رکھتے ہیں وہ رکھیں۔ کل قیامت کے روز خود جواب دیں گے ۔ مگر ہم اہل سنت و جماعت کبھی یہ بات سوچ بھی نہیں سکتے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اکرم ﷺ کے خلاف کریں گے یا آپ کے حلال کو حرام کریں گے یا آپ کی شریعت کو بدلیں گے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کوئی عام آدمی نہیں امیر المومنین ہیں ،خلیفہ راشد ہیں خلیفہ وقت کی اطاعت کرنا قرآن سے ثابت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ بے شمار احادیث آپ کے مرتبہ اور مقام کو واضح کرتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

حدیث نمبر١:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

اے ابن خطاب: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے شیطان جب تجھے چلتا ہوا راستے میں دیکھتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چل پڑتا ہے۔

(مشکوۃ ص ۵۵۷)

حدیث نمبر ۲:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

پہلی اُمتوں کے کچھ لوگ ایسے ہوتے نے جن کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتا تھا اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو یقینا وہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔ (مشکوۃ)

حدیث نمبر ۳:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

بے شک اللہ نے حق عمر کی زبان اور ان کے دل پر جاری کر دیا ہے۔ (مشکوۃ)

حدیث نمبر ۴:

نبی کریمﷺ نے فرمایا

اگر میر ے بعد کوئی نبی ہوتا تو یقیناً وہ عمر بن خطاب ہوتے۔

(مشكوة ، ترمذی ص ۲۰۹، ج ۲)

حدیث نمبر ۵:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا

علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدين المهدیین میری سنت اور میرے خلفاءراشدین مہدیین کی سنت لازم پکرو۔

حدیث نمبر ۶ :

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا۔

مجھے معلوم نہیں کہ میں تم میں کتنا عرصہ زندہ رہوں گا۔ اور آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ان دونوں کی اقتداء ( پیروی ) کرنا اور عمار رضی اللہ عنہ کی سیرت اپناؤ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ تمہیں جو بھی بتائیں اسے سچا ماننا۔ 

ناظرین ان احادیث کے ہوتے ہوئے ہم کسے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ ﷺ کی سنت کو بدل دیا۔ لہذا اس حدیث کا ایسا مفہوم اور مطلب لیا جائے گا جو قرآن اور دیگر احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاص کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم کے مطابق ہو۔ اور احادیث کا آپس میں جو تعارض نظر آ رہا ہے وہ بھی ختم ہو جائے۔

جواب نمبر ۲:

یہ روایت اس عورت کی طلاق سے مخصوص ہے کہ جس کو قبل دخول و صحبت کے طلاق دے دی جاتی تھی اور اس کی تین طلاق کو آنحضرت ﷺ اور عہد ابوبکر میں ایک طلاق خیال کیا جاتا تھا چنانچہ

سنن ابوداؤد میں وہی روایت باین الفاظ مروی ہے:

عن طاؤس ان رجلا يقال له ابوا الصهباء كان كثير السوال لابن عباس قال اما علمت ان الرجل كان اذا طلق امراته ثلاثه قبل ان يدخل بها جعلوها واحدة على عهد رسول الله ﷺ و ابي بكر و صدرا من امارة عمر قال ابن عباس بلى كان الرجل اذا طلق امراته ثلاثا قبل ان يدخل بها جعلوها واحدة على عهد رسول اللهﷺ و ابي بكر وصدر من امارة عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فلما راى الناس قد تتابعوا فيها قال اجز وهن عليهم 

یعنی طاؤس سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوالصباء ابن عباس سے بہت سوال کیا کرتا تھا اس نے ابن عباس سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب کوئی شخص اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیا کرتا تھا تو زمانہ رسول خداﷺ و ابی بکر اور ابتدائے خلافت حضرت عمر میں ان کو ایک طلاق جانا کرتے تھے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاق دیتا تھا تو ان کو زمانہ رسول ﷺ و ابی بکر صدیق اور ابتدائے خلافت حضرت عمر میں ایک طلاق جانا کرتے تھے لیکن جب حضرت عمر نے لوگوں کو ایسا پے در پے طلاق دیتے دیکھا تو کہا جائز رکہو ان پر۔ ابوداؤد کی یہ مفصل حدیث صحیح مسلم کی مجمل حدیث کی تفصیل ہے اور اس نے ان تین طلاق کو جو ایک شمار کی جاتی تھی صرف اس عورت کی نسبت مقید کر دیا ہے جس کو دخول و صحبت سے پہلے طلاق دی جاتی تھی تو پھر صحیح مسلم کی حدیث کو عام عورتوں کی نسبت خیال کر کے مدخولہ عورت کی ایک دفعہ تین طلاق کو ایک طلاق سمجھ لینا اور عام طور پر ایسا حکم جاری کر دینا روایت و درایت کی صریح برخلاف ہے۔

جواب نمبر ۳:

قطع نظر اس سے اگر صحیح مسلم کو حدیث کی صرف غیر مدخولہ عورت کے ہی متعلق نہ سمجھا جائے اگر بلکہ عام عورتوں کی طلاق کی نسبت قرار دیا جائے تاہم اس حدیث کا ہرگز وہ مطلب نہیں ہے جو راشدی صاحب سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ بلحاظ و رعایت نصوص قرآنیہ وارشادات نبویہﷺ اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً اسی حدیث کے اس آخری فقره ان الناس قد استعجرانا في امركانت لهم فيه اناة فلوامضیناہ علیہم فامصناہ علیہم کے اس کا صحیح مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ آنحضرت ﷺ اور ابوبکر کے عہد میں جب کوئی شخص اپنی عورت کو ایک طلاق تین بار کہتا تھا تو غالبا اس کی غرض ایک کی ہوتی تھی نہ استیناف کی جسے ان کا قول غالب پر حمل کر کے ایک طلاق شمار کی جاتی تھی اور جب زمانہ حضرت عمر میں لوگ استیناف کا ارادہ کرنے لگے تو حضرت عمر نے ان کو غالب ارادہ پر استیناف پر حمل کر کے تین طلاق شمار کیں چنانچہ امام نووی نے شرح صحیح مسلم جلد اول کے صفحہ ۴۷۸ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے

فالا صح ان معناه انه كان في اول الامر اذا قال لها انت طالق انت طالق انت طالق ولم ينو الا تأكيد الا استينافا يحكم بوقوع طلقة طلقة ارادتهم الاستيناف بذلك فحمل على عد الشدة الغالب الذى موازادة التأكيد فلما كان في زمن عمر الى اللين

وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستيناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق الى الفهم منها في ذلك العصر . انتهى 

یعنی اصح یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ ابتداء میں جب عورت کو تین بارانت طالق انت طالق انت طالق کہا جاتا تھا تو اس تکرار سے صرف طلاق کی تاکید کا ارادہ رکھا جاتا تھا نہ استیناف کو جس کے تکرار سے بسبب ان کی قلت ارادہ استیناف کے صرف ایک طلاق کے واقع ہونے کا حکم کیا جاتا تھا اور ان کے غالب ارادہ پر جو طلاق کی تاکید کا ہوتا تھا حمل کیا جاتا تھا لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں کثرت سے لوگ اس صیغہ کا استعمال کرنے لگے اور ان سے استیناف کے ارادہ کا ظہور غالب ہوا تو اس صیغہ کے اطلاق کے وقت تین طلاق پر اس کا حمل کیا گیا عمل کرنے کو ساتھ اس غالب امر کے جو اس زمانہ میں اسے سمجھا جاتا تھا۔

اور کشف الغمہ عن جمیع الامہ کی جلد دوم کے صفحہ ۱۰۲ میں امام شرانی نے حدیث مذکور کی نسبت اس طرح پر لکھا ہے۔

واختلف العلماء فى تأويل هذا الحديث فذهب بعض التابعين الى ظاهره في حق من لم يدخل بها وذهب بعضهم الى ان المرادبه تكرير لفظ الطلاق فيقول انت طالق انت طالق انت طالق فأنه يلزم واحدة ذا قصدا التوكيد وثلاث ان قصد تكرير الايقاع قال العلماء فكان الناس في عهد رسول الله صلى ال ام وابى بكر على صدقهم وسلامتهم وقصد هم فى الغالب الفضيلة والاختيار ولم يظهر فهيم افساد ولا خداع فكانوا يصدقون في ارادة التوكيد وعدمه فلما راء عمر الله فی زمانه امور اظهرت و احوالا تغيرت وفشا ايقاع الثلاث جملة بلفظ لا يحتمل التاويل الزمهم الثلاث في صورة التكرير انصار الغالب عليهم قصدهاكم اشار اليه والتلوين يقوله انفا ان الناس قد استعجلوا في امر كانت لهم فيه اناة . انتهى

یعنی علماء نے اس حدیث کی تاویل میں اختلاف کیا ہے چنانچہ بعض تابعین تو اس حدیث کی ظاہر کی طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث اس عورت کے حق میں ہے کہ جس کو صحبت سے پہلے تین طلاق دے دی گئی ہوں۔ اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ اس کی مراد تکریر یعنی بار بار لفظ طلاق بولنا کی ہے جیسے کوئی عورت کو کہے انت طالق انت طالق انت طالق پس اس تکرایر سے اگر وہ طلاق کی تاکید کا قصد کرتا ہے تو ایک طلاق واقع ہوتی ہے اور اگر بار بار طلاق واقع کرنے کا قصد کرتا ہے تو تین واقع ہیں اور علما نے کہا ہے کہ رسول خداﷺ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں لوگ صدق و سلامتی پر تھے اور غالب قصد او نکا بزرگی اور بہتری کا تھا اور انہیں فساد اور حیلہ بازی ظاہر نہ ہوئی تھی اور تاکید اور غیر تاکید کے ارادہ کے اظہار میں سچ کہہ دیتے تھے لیکن جب حضرت عمر نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ نئی باتیں ظاہر ہو گئی ہیں اور حالات بدل گئے ہیں اور تین طلاق کا اکٹھا واقع کرنا ایسے لفظ سے شایع ہوا ہے جو تاویل کا احتمال نہیں رکہتا تو آپ نے تکریر کی صورت میں طلاق کو لازم کردیا کیونکہ اس وقت غالب ہوا ان پر تین طلاقوں کا قصہ جیسا کہ خود آپ نے اپنے قول ان الناس قد استعجلوا فی امرکانت لهم فيه اناۃ میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔

سوم اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ پہلے زمانہ میں لوگوں کی عادت ایک طلاق دینے کی تھی اور حضرت عمر کے زمانہ میں جب لوگ تین طلاق ایک دفعہ ڈالنے لگے تو حضرت عمر نے ان کو ان پر نافذ کر دیا پس اس صورت میں یہ حدیث صرف ایک اخبار اختلاف عادة الناس سے ہے نہ ایک ہی مسئلہ میں تغیر حکم سے چنانچہ اس معنی کو بھی امام نووی ہی نے اس طرح لکھا ہے۔

وقيل المراد ان المعناد فى الزمن الاول كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر الا الله يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا ايكون اخبار ا عن اختلاف عادة الناس لا عن

تغير حكم في مسئلة واحدة. انتهى یعنی بعض نے کہا ہے کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں لوگوں کی ایک طلاق دینے کی عادت تھی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں انہوں نے تین طلاق ایک دفعہ دینی شروع کر

دیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں کو جاری کر دیا۔ سو اس صورت میں یہ حدیث صرف ایک اخبار ہےاختلاف عادۃ الناس سے نہ ایک ہی مسئلہ میں حکم کے بدلنے سے۔

اور اسی معنی کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کی کتاب الطلاق کے صفحہ ۱۹۴ میں کچھ

زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح سے بیان کیا ہے۔

تأويل قوله واحدة وهوان معنى قوله كان الثلاث واحدة ان هذا الله الناس في زمن النبي ﷺ كانوا يطلقون واحدة فلما كان زمن عمر كانوا يطلقون ثلاثة و محصله ان المعنى ان الطلاق الموقع في عهد عمر ثلاثة كان يوقع قبل ذلك واحدة لا هم كانوالا يستعملون الثلات اصلا وكانوا يستعملونهانا درا و اما فی عصر عمر فكثر استعمالهم لها ومعنى قوله فأمضاه عليهم واجازه وغير ذلك انه صنع فيه من الحكم بإيقاع الطلاق ما كان يضيع قبله ورحج هذا التأويل ابن العربي ونسبه الى ابي زرعة الرازي و كذا اورده البيهقى باسناده الصحيح الى ابي زرعة انه قال معنى هذا الحديث عندى ان ماتطلقون انتم ثلاثا كانوا يطلقون واحدة قال النووى وعلى هذا فيكون الخبر وقع عن اختلاف عادة الناس خاصة لا عن تغير الحكم في انو احدة انتهى

 یعنی اس حدیث میں کان الثلاث واحدۃ کا معنی یہ ہے کہ رسول خدا کے زمانہ میں لوگ صرف ایک طلاق دیا کرتے تھے اور جب حضرت عمر کا زمانہ ہوا تو تین طلاقیں دینے لگے اور حاصل اس معنی کا یہ ہے کہ جو تین طلاقیں حضرت عمر کے عہد میں دی جانے لگیں وہ اسے پہلے صرف ایک طلاق کہتے تھے ۔ کیونکہ وہ تین طلاق کا استعمال ہرگز نہیں کرتے تھے۔ اور صرف شاذ و نادر ان کو استعمال میں لاتے تھے لیکن حضرت عمر کے زمانہ میں تین طلاق کے استعمال کی کثرت ہوئی اور قول فامضاہ علیہم اور اجازہ وغیرہ کا معنی یہ ہے کہ حضرت عمر نے طلاق کے واقعہ کرنے میں وہی حکم دیا جو اسے پہلے دیا جاتا تھا اور اس تاویل کو ابن عربی نے بحوالہ ابی زرعہ الرازی کے ترجیح دی ہے جیسا کہ بیہقی نے اسناد صحیحہ کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے کہ ابی زرعہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی میرےنزدیک یہ ہیں کہ جو تین طلاقیں تم دیتے ہو پہلے صرف ایک طلاق لوگ دیا کرتے تھے۔ نووی نے کہا ہے کہ اس صورت پر یہ حدیث صرف ایک خبر لوگوں کے اختلاف عادت کی نسبت واقع ہوئی ہے نہ یہ کہ ایک ہی مسئلہ میں حکم بدلا گیا ہو۔ الغرض حسب بیان متذکرہ بالا جبکہ قرآن شریف و احادیث اور اکابرین صحابہ کے اجماع و فتاوی سے تین طلاق ایک دفعہ کا تین ہی واقع ہو جانا آفتاب نصف النہار کی طرح روشن و ثابت ہے اور اس پر ائمہ مجتہدین اور علمائے سلف و خلف کے مذہب کا اتفاق ہے تو پھر اس کے برخلاف صحیح مسلم کی حدیث مذکور سے جبکہ وہ خود ہی کئی معنی کا احتمال رکھتی ہے صرف اس کے ایک ایسے احتمال کو جو خود اس حدیث کے اصل راوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے فتاوی کے بھی جو متعدد واقات ہیں ان سےظہور میں آئے۔ بالکل منافی ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...