اعتراض نمبر ٥٩
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : بسم اللہ جہر ا پڑھنا
حدیث نبوی ﷺ
عن نعيم المجمر قال صليت وراء ابي هريرة رضی اللہ عنہ فقر بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرابام القرآن حتى اذا بلغ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال: امین فقال الناس امين ويقول كلما سجد االله اكبر واذا قام من الجلوس فى الاثنتين قال: الله اكبر واذا سلم قال: والذي نفسي بيده إنى لاشبهكم صلاة برسول الله ﷺ
( ترجمہ ) نعیم الجمہر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر سورہ فاتحہ کی قرآت کی جب ثم غير المغضوب عليهم ولا الضالین پر پہنچے تو آمین کہی لوگوں نے بھی آمین کہی جب سجدہ کرتے تھے تو اللہ اکبر کہتے تھے اور جب دوسری رکعت سے( تیسری کیلئے ) اٹھے تو اللہ اکبر کہا سلام پھیر کر کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ نماز پڑھتا ہوں۔ ( یعنی میری یہ نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز سے بالکل مشابہہ ہے)
(سنن النسائي كتاب الافتتاح باب قرأة بسم الله الرحمن الرحيم ج١ صفحه١٤٢، رقم الحدیث ۹۰۶) (بدیع التفاسیر جلد ١ صفحه ۱۲۳)
فقه حنفی
جہری نماز میں بسم اللہ جہراً ( بلند آواز سے پڑھنے کے متعلق خود صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
قال الشافعي يجهر بالتسمية عند الجهر بالقراءة لما روى ان النبي ﷺ جهر في صلوته بالتسميه.
امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ جہری نماز میں بسم اللہ جہری پڑھی جائے گی اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے بسم اللہ جہراً پڑھی ہے۔
لیکن باوجود یہ حدیث ذکر کرنے کے اسی صفحہ پر ایک لائن پہلے لکھا ہے کہ :
يسر بهما (التسمية والتعوذ)
هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب صفة الصلوة ص ١٠٣)
تعوذ اور بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی۔
(فقہ وحدیث ص ۹۸)
جواب:
امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ شریف آہستہ پڑھے امام صاحب کا یہ
مسلک کئی احادیث سے ثابت ہے ملاحظہ فرمائیں۔
دلائل احناف:
نماز میں بسم اللہ آہستہ پڑھنا چاہیے:
(۱) عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول الله ﷺ كان يسر بسم الله الرحمن الرحيم وابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ
( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۰۸)
(ترجمہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سب بسم اللہ آہستہ آواز سے پڑھتے تھے۔
(۲) عن انس قال صليت خلف رسول الله ﷺ وابی بکر و عمرو عثمان رضی اللہ عنہم فلم اسمع احدا منهم يجهر بسم اللہ الرحمن الرحيم ( نسائی ج ١ص ۱۰۵)
(ترجمہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم الله الرحمن الرحیم اونچی آواز میں اونچی آواز سے پڑھے ہوئے نہیں سنا۔
(٣) عن انس قال صليت مع رسول الله ﷺ وابى بكر و عمر و عثمان فلم اسمع احدا منهم يقرأ بسم الله الرحمن الرحيم
(مسلم ج ١ص ۱۷۲)
(ترجمہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی بسم الله الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
(٤) عن انس بن مالك انه حدثه قال صليت خلف النبي ﷺ وابی بکر و عمر و عثمان فکانو ایستفتحون بالحمد الله رب العلمين لا یذکرون بسم الله الرحمن الرحيم فى أول قراءة ولا فى اخرها .
( مسلم ج ١ ص ۱۷۲)
(ترجمہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد اللہ رب العلمین سے ( قرآت) شروع کرتے تھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ذکر نہیں کرتے تھے نہ قرآت کے شروع میں نہ آخر میں۔
(۵) عن انس رضی اللہ عنہ ان النبي ﷺ و ابابکر و عمر كانوا يفتتحون
الصلوة بالحمد الله رب العلمین
(بخاری ج ١ص ۱۷۲) .
(ترجمہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نماز الحمد اللہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔ (٦) عن ابى وائل قال كان على وابن مسعود لا يجهر ان بسم الله الرحمن الرحيم ولا بالتعوز ولا بأمين۔
(معجم طبرانی کبیر ج ٩ ص ۲۶۳) ( ترجمہ ) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ، بسم اللہ اعوذ بااللہ اور آمین اونچی آواز سے نہیں کہتے تھے۔
(٧) محمد قال اخبرنا ابو حنيفة عن ابراهيم قال قال ابن مسعود في الرجل يجهر بسم الله الرحمن الرحيم انها اعرابية وكان لا يجهر بها هو ولا احد من اصحابه
(کتاب ال آثار للامام ابي حنیفة ص ۲۲)
( ترجمہ ) حضرت امام محمد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے بروایت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ نے یہ خبر دی کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کے بارے میں جو بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھتا ہے فرمایا کہ یہ گنوار پن ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خوداور ان کے اصحاب میں سے کوئی بھی بسم اللہ اونچی آواز سے نہیں پڑھتا تھا۔
(۸) عن عكرمة عن ابن عباس فى الجهر بسم الله الرحمن الرحيم قال ذلك فعل الاعراب
(طحاوی ج ١ ص ۱۴۰) .(ترجمہ) حضرت عکرمہ رحمۃاللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کے متعلق فرمایا کہ یہ توگنواروں کا فعل ہے۔
(۹) عن ابن عبد الله بن مغفل قال سمعنى ابي وانا في الصلوة وقول بسم الله الرحمن الرحيم فقال لى اى بنى محدث اياك والحدث قال ولم ارا احدا من اصحاب رسول الله ﷺ كان ابغض اليه الحدث في الاسلام یعنی منه و قال قد صلیت مع النبي ﷺ ومع ابى بكر و عمر و عثمان فلم اسمع احدا منهم يقولها فلا تقلها اذا انت صليت فقل الحمد الله رب العلمين قال ابو عیسی حدیث عبد الله بن مغفل حدیث حسن والعمل عليه عند اکثرا هل العلم من اصحاب النبي ﷺ منهم ابوبکر و عمر و عثمان و علی و غيرهم و من بعد هم من التابعين وبه يقول سفيان الثورى وابن المبارك واحمد و اسحق لا يرون ان يجهر بسم الله الرحمن الرحيم قالوا ويقولها فى نفسه
(ترمذی ج ١ ص ۵۷)
(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد صاحب نے نماز میں بسم الله الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے سنا تو مجھ سے فرمایا۔ بیٹا یہ بدعت ہے اور بدعت سے بچو، فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کے نزدیک اسلام میں بدعت ایجاد کرنے سے زیادہ کوئی چیز مبغوض کہو اور فرمایا کہ میں نے نبی علیہ الصلاة والسلام، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ(سب) کے ساتھ نماز پڑھی ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ کہتے ہوئے نہیں سنا، لہذا تم بھی نہ ہو ، جب تم نماز پڑھو تو کہو الحمد للہ رب العلمین
امام ترمزی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے اکثر اہل علم صحابہ کا عمل اسی پر ہے جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین بھی ہیں۔ حضرت سفیان ثوری حضرت عبداللہ مبارک ، امام احمد بن حنبل،اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے یہ لوگ اونچی آواز سے بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنے کو صحیح نہیں سمجھتے ، البتہ ان کا کہنا ہے کہ نمازی بسم اللہ اپنے جی میں کہہ لے۔
(۱۰) عن ابراهيم قال جهر الامام بسم الله الرحمن الرحيم بدعة
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ۴۱۱)
(ترجمہ) حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام کا بسم الله الرح الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا بدعت ہے۔
(۱۱) قال (سفیان الثوری) یا شعيب لا ينفعك ما كتبت حتى ترى المسح على الخفين وحتى ترى ان اخفاء بسم الله الرحمن الرحيم افضل من الجهر به الخ
( تذكرة الحفاظ ج ١ص ۲۰۶)
(ترجمہ) حضرت سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا اے شعیب جو کچھ تو نے (مجھ سے سن کر ) لکھا ہے یہ تجھے اس وقت تک فائدہ نہیں دے گا جب تک کہ تو موزوں پر مسح کرنے کو صحیح نہ سمجھے، اور جب تک کہ تو یہ عقیدہ نہ رکھے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ آواز سے پڑھنا اونچی آواز سے پڑھنے کی نسبت افضل ہے۔
(۱۲) قال وكيع والجهر بأبسملة بدعة - ( تذكرة الحفاظ ج ١ص ۳۰۹)
امام وکیع فرماتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا بدعت ہے۔
رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔
پہلا جواب :
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اس حدث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں حافظ زیلعی رحمۃاللہ علیہ نے اس روایت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اولاً تو یہ روایت شاذ اور معلول ہے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کئی شا گردوں نے یہ واقعہ بیان کیا۔۔ لیکن سوائے نعیم المحجر کے کوئی بھی قرآہ تسمیہ کا جملہ نقل نہیں کرتا اور اگر بالفرض اس کو معتبر مان بھی لیا جائے تب بھی یہ روایت شافعیہ کے مسلک پر صریح نہیں کیونکہ قرآت کے لفظ سے بسم اللہ کی نفس قرآت ثابت ہوتی ہے، نہ کہ اس کا جہر اس لئے کہ قرآہ کے لفظ میں قرآت بالسر کا بھی احتمال ہے، لہذا اس روایت سے شافعیہ کا
استدلال تام نہیں۔
(درس ترمذی جلد اول ص ۵۰۱،۵۰۰)
دوسرا جواب:
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
علامہ زیلعی رحمۃاللہ علیہ نصب الرایہ ج ١ ص ۳۳۶ میں لکھتے ہیں
کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آٹھ سو شاگرد تھے مابین صاحب و تابع‘ان میں سے صرف نعیم مجمری رحمۃاللہ علیہ ہی یہ روایت کرتے ہیں اور کوئی بھی نہیں کرتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت شاذ ہے۔
تیسراجواب:
شیخ الحدیث رحمۃاللہ علیہ صاحب فرماتے ہیں:
حافظ ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ فتاوی ج١ ص ٨٠ میں لکھتے ہیں کہ جھگڑا تو جہر کا ہے۔ اس روایت میں
فقرأ کے لفظ ہیں۔ قرآت کا تو جھگڑا ہی نہیں۔ لہذا یہ جہر کے لیے ناکافی ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
اگر سر ا پڑھی تو پھر سنی کیسے
جواب:
ممکن ہے کبھی کوئی آیت جہر سے پڑھتے ہوں۔ بخاری ج ١ ص ۱۰۵ اور ص ۷ ۱۰ میں ۔ ويسمعنا الآية احيانا، قال ابن القيم رحمۃاللہ علیہ في الزاد ص ٦٣، ج١ ، وترك النبي ﷺ الجهر بالسملة وكان يجهر بها احيانا والمقصود انه كان ال يفعل في الصلوة شيئا احيانا العارض لم يكن من فعله الراتب
حافظ ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ نے یہ اعتراض بھی پیش کیا ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ظہر اور عصر کی نماز میں قرآت کا ذکر کیا ہے تو ان کو کیسے پتہ چلا ؟ جواباً کہتے ہیں کہ شاید سری میں بھی کوئی جملہ سن لیا ہو، اور ممکن ہے کہ نماز ختم کر کے بتلایا ہو۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت بخاری ج ١ص ۱۰۵ میں ہے۔
چوتھا جواب:
( خزائن السنن ج ۲ ص ۷۰ - ۷۱ )
نعیم بہت قریب ہوں ابو ہریرہ سے کہ ان کے آہستہ بسم اللہ کہنے سے بھی یہ واقف ہو گئے ہوں الغرض ان کے اس قول سے کہ ابو ہریرہ نے بسم اللہ پڑھی ہرگز یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بلند آواز سے پڑھی ایسی بہت سی نظیریں موجود ہیں جن میں صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعین فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز عصر و ظہر
میں فلاں فلاں سورت پڑھتے تھے یا درمیان دو سجدہ کے قعدہ میں یہ دعا پڑھتے تھے یا بعد سبحانك اللهم کے اور رکوع میں اور بعد رکوع کے اور قعدہ اخیرہ میں یہ دعائیں پڑھتے تھے اذکار امام نووی و عمل الیوم والليله لابن السنی و کتب حدیث صحاح ستہ وغیرہ کو جوشخص دیکھے گا اس قسم کی روایات بہت پائیگا حالنکہ بالیقین آنحضرتﷺ سے یہ اذکار اور ادعیہ اور قرآت سور ظہر و عصر وغیرہ میں آہستہ ادا ہوتی تھی نہ بلند آواز سے۔ پس اگر صرف ذکر کرنا مقتدی کا کہ ہمارے امام نے یہ لفظ ادا کیا یا یہ دعا پڑھی مستلزم ثبوت خبر ہووے لازم آتا ہے کہ ان سب روایات سے آنحضرت ﷺ کا بلند کرنا آواز ساتھ ان از کار اور قرآت کے ثابت کیا جاوے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں