نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر60 مسئله : کسی کے لیے بھی نماز عید سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔

 اعتراض نمبر٦٠

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :

مسئله : کسی کے لیے بھی نماز عید سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔

حدیث نبویﷺ

عن جندب بن سفیان قال شهدت الاضحى يوم النحر مع رسول الله ﷺ فلم يعدان صلى وفرغ من صلاته وسلم فأذا هويري لحم اضاحی قد ذبحت قبل أن يفرغ من صلوته فقال من كان ذبح قبل ان یصلی او نصلی فلیذبح مكانه الاخرى 

( ترجمہ ) سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عید الاضحی کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا آپ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے قربانی کا گوشت دیکھا ( جو نماز سے قبل ذبح کی گئی تھی) تب آپﷺ نے فرمایا جس نے نماز سے پہلے قربانی (ذبح) کی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے۔

(بخاري ج ٢ كتاب الاضاحي باب من ذبح قبل الصلوة اعاده صفحه ۸۳۴، رقم الحدیث ۵۵۶۲) (مسلم ج ۲ کتاب الأضاحي وقتها صفحه: ۱۵۳ واللفظ له، رقم الحدیث ۵۰۶۴)

فقه حنفی

فاما اههل السواء فيذبحون بعد الفجر ....... وحيلة المصرى اذا اراد

التعجيل ان يبعث بها الى خارج مصر فيضحى بها لما طلع الفجر -

(هدایه آخرین ج٤ کتاب الاضحية ص ۴۴۶،۴۴۵)

یعنی دیہات والے فجر کے بعد قربانی کر سکتے ہیں ... اور شہریوں کے لیے یہ حیلہ ہے کہ اگر وہ جلد قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں وہ شہر سے باہر جانور بھیج دیں تاکہ اس کو فجر طلوع ہوتے ہی ذبح کیا جاسکے۔ ( فقه و حدیث ص ۹۹)

جواب:

راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے اس پر احناف کا عمل ہے۔

چنانچہ ہدایہ ہی میں لکھا ہے۔ يوم النحر (بقرہ عید کے دن) کے طلوع فجر سے قربانی کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ البتہ شہریوں کے لیے امام کے نماز پڑھ لینے سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں۔ (ہدایہ کتاب الاضحیۃ )

ہدایہ کا یہ مسئلہ اس حدیث کے مطابق ہے جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے مگر ہدایہ کے اس مسئلے کو راشدی صاحب نے ذکر نہیں کیا۔ اس مسئلہ کو ذکر کرنے کے بعد صاحب ہدایہ آگے گاؤں کے لوگوں کے متعلق لکھتے ہیں۔ رہے دیہاتی تو وہ فجر کے بعد ذبح کر سکتے ہیں فرماتے ہیں اور اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ

کا فرمان مستدل ہے کہ جس شخص نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے ذبیح کا اعادہ کرنا چاہیے اور جس نے نماز کے بعد زبح کیا تو اس کی قربانی مکمل ہو گئی۔

(بخاری کتاب الاضی باب من ذبح قبل الصلاة ) اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ اپنالیا۔

( نوٹ : ہدایہ کی یہ عبارت مختلف احادیث کا مفہوم اور خلاصہ ہے کسی حدیث کا مکمل ترجمہ نہیں ہے۔)

پھر حدیث کا حوالہ دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ

آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس دن ہماری پہلی عبادت نماز ہے پھر قربانی۔

ہدایہ کے علاوہ اور بہت کی کتب میں یہ مسئلہ لکھا ہے۔


(۲) احسن الہدایہ جلد ۱۳ ص ۳۰۳ میں ہے۔

( بخاری باب الذبح بعد الصلوة )

ہزاروں مقامات جہاں عیدین اور جمعہ مشروع ہیں۔ وہاں کے باشندوں کو نماز عید سے پہلےقربانی کرنا جائز نہیں ہے۔

(۳) مولانا مجیب اللہ ندوی اسلامی فقه جلد ص ۵۲۱ میں لکھتے ہیں اسی طرح قربانی کا نماز کےبعد کرنا ضروری ہے۔

(۴) الفلاح الضروری ترجمه لتسھیل الضروری ص ۴۹۲ قربانی کا بیان میں ہے

سوال قربانی کے وقت کی ابتدا کیا ہے؟

جواب: نحر کے دن (یعنی دس ذو الحجہ) کو فجر ثانی (یعنی صبح صادق) کے طلوع سے قربانی کا وقت داخل ہوتا ہے مگر تحقیق شان یہ ہے کہ شہر والوں کے لیے نماز عید سے پہلے ان کو زبح کرنا جائزنہیں۔

سوال: اگر ان میں سے کوئی نماز عید سے پہلے زبح کرے تو کیا کرے؟

جواب: قربانی کو لوٹائے۔

(۵) مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں مسئلہ بقر عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے جب لوگ نماز پڑھ چکیں تب کرے۔

(بہشتی زیور حصہ ۳ قربانی کا بیان ص ۲۳۱)

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ حنفی مسلک حدیث کے مطابق ہے۔ اب رہی گاؤں میں نماز سے قبل اجازت تو ایسی کوئی دلیل قرآن یا حدیث میں موجود نہیں جو خاص گاؤں میں منع کرنے کی ہو۔ اگر ہو تو پیش کریں۔ حدیث میں آتا ہے کہ نماز عید کے بعد قربانی کریں جب گاؤں میں نماز عید ہی نہیں ہوتی تو وہ پھر انتظار نماز کا کس طرح کریں گے۔ یہاں پر مسئلہ اقتضاء النص کے طور پر گاؤں کے لیے طلوع فجر کے بعد قربانی کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے۔

نوٹ : فقہ حنفی یہ نہیں کہتی کہ ضرور ضرور اس طرح کروفقہ حنفی میں صرف جواز ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...