اعتراض نمبر ٦١
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے تکبیرات کہنی ہوں گی۔
حدیث نبویﷺ
عن ابن عمر انه قال اذا قدم يوم العيد ويوم الاضحى جهر بالتكبير .
( ترجمہ ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے جاتے ہوئے جہری
تکبیریں کہتے تھے۔
(سنن الدارقطني ج ۲ صفحه ۱۷۵، کتاب العيدين رقم الحدیث ۱۶۹۸۱۸) (سنن البيهقي مرفوعا عن النبي ﷺ كتاب العيدين باب التكبير عيد الفطر ويوم الفطر وانا غدا الي صلاة العيدين ج ۳ صفحه ۲۷۹ طبع نشر السنه)
اس بارے میں قرآن مجید میں بھی ہے کہ
ولتكبروا الله على ما هداكم ...
(الحج آیت ۱۸۵)
یعنی تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے لیے تکبیر بیان کرو۔
فقه حنفی
ولا يكبر عند ابي حنيفة في طريق المصلی۔
(ھدایہ اولین ج١کتاب الصلوة باب العيدين صفحه ۱۷۳)
عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں تکبیرات نہیں کہی جاسکتیں۔ ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے
( فقه و ہدیث ص ۱۰۰)
جواب:
پیر بدیع الدین شاہ راشدی نے ہدایہ کی عبارت کا مفہوم غلط لیا ہے جس سے امام ابوحنیفہ کا سر سے عیدین میں تکبیرات کا انکار لازم آتا ہے۔ حالانکہ اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ عید الفطر کے دن عید گاہ جاتے ہوئے بقرہ عید کی طرح بلند آواز سے تکبیر نہ کہے آہستہ آواز سے کہہ۔ مولانا سید امیر علی غیر مقلد نے یہ ہی مفہوم لیا ہے۔ ہدایہ کی اس عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے
آپ لکھتے ہیں۔ ولا یکبر اور تکبیر کی آواز بلند نہ کرے عند ابی حنیفة في طريق المصلی ابوحنیفہ کے نزدیک عید گاہ کے راستہ ہیں۔
(عین الہدایہ ترجمہ و شرح اردو ہدایه جلد اول ص ۸۴۶ ناشر مکتبہ رحمانید، لاہور)
اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ اور آپ کے بعد احناف کا صحیح مسلک یہ ہی ہے کہ عید الفطر میں عید گاہ جاتے وقت تکبیر کہنا چاہئے مگر آہستہ۔
حنفی مسلک کی تمام کتب میں اسی طرح لکھا ہوا ہے کچھ عبارات ملاحظہ فرمائیں
(١) بہشتی زیور حصہ نمبر ۱۱ ص ۴۹ میں ہے۔
عید الفطر کے دن تیرہ چیزیں مسنون ہیں۔ پر آگے نمبر ۱۳ میں لکھتے ہیں
اور راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لا اله الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر والله الحمد
آہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا چاہیے۔
(۲) احسن المسائل اردو ترجمہ کنز الدقائق ص ۷ ۵ باب نماز عیدین میں ہے۔ پھر عید گاہ جائے راستہ میں آواز سے تکبیر نہ کہے (بلکہ آہستہ آہستہ کہے ) اور نہ عید کی نماز
سے پہلے نفل پڑھے
(۳) اشرف الوقایہ ترجمه و شرح اردو شرح وقایه جلد اول ص ۲۴۰ باب العیدین میں ہے عید الفطر کے روز مستحب یہ ہے کہ نماز سے قبل کچھ کھائے اور مسواک کرے اور غسل کرے۔ اور خوشبو لگائے اور جو سب سے اچھا کپڑا اپنا ہو وہ پہنے اور صدقہ فطر ادا کرے اور عیدگاہ کے راستے میں آہستہ آہستہ تکبیر کہتاہوا عید گاہ کی جانب جائے ۔
(۴) مولانا عبدالحمید خان سواتی حنفی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں
اور پھر عید گاہ کی طرف روانہ ہو، راستہ میں تکبیرات کہے تو آہستہ آواز سے کہے جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں نماز عید سے پہلے کوئی نفل نہ پڑھے اور عید گاہ میں نماز کے بعد بھی نفل پڑھنے مکروہ ہیں۔
(ہدایہ ج ١ اشرح نقایہ ج١ص ۱۲۱ کبیری ۵۶۶ ) ( نماز مسنون کلاں ص ۶۹۳)
(۵) مولانا مفتی محمد عاشق الہی مدنی حنفی لکھتے ہیں۔
فتاوی شامیہ، جوہرہ نیرہ اور ہندیہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مختار
مسلک یہ ہے کہ عید الفطر کے دن پوشیدہ آواز سے تکبیر کہنا مستحب ہے تو گویا امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کاصاحبین سے نفس تکبیر میں اختلاف نہیں البتہ جہر میں اختلاف ہے۔ فافهم
الفلاح الضروری اردو ترجمہ التسھصیل الضروری السائل قدوری ص ۷۵. حاشیه١ )
(٦) مولانا مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں :
عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی اور میٹھی چیز کھانا سنت ہے۔
(۲) صدقہ فطر ادا کر کے نماز کے لیے جانا چاہیے صدقہ فطر کا ذکر روزہ کے بیان میں آئے گا.
عیدگاہ کے راستہ میں آہستہ آہستہ تکبیر کہتے جانا۔ (شرح التنویر ١۱۳، ج۱) (اسلامی فقه جلد نمبر١ص ۳۰۶) حوالہ تو بہت ہیں مگر ہم ان ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان جوابات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ اور حنفی حضرات عید الفطر کے دن عید گاہ جاتے ہوئے تکبیرات کے قائل ہیں۔ اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ تکبیریں آہستہ کہنی چاہئے یا بلند آواز سے امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ عید الفطر کے دن آہستہ اور بقرہ عید کے روز بلند آواز سے کہنا چاہیے کیونہ یہ اصل میں اللہ کا ذکرہے اور ذکر میں اخفاء اصل ہے۔
آہستہ کہنے کے دلائل:
قرآن مجید میں ہے:
پہلی آیت:
ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين
پکارو اپنے رب کو عاجزی کرتے ہوئے اور چپکے بیشک وہ محبت نہیں کرتا حد سے بڑھنے والوں کے ساتھ۔
(پارہ نمبر۸اعراف رکوع ۷ )
دوسری آیت:
واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ودون الجهر من القول
اور ذکر کر اپنے رب کا اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے اور جہرسے کم آواز میں ۔
(پ ٩اعراف. رکوع نمبر ۲۴)
حدیث:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
انہوں نے کہاجب آنحضرت ﷺنے خیبر پر جہاد کیا یا خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو ( راستے میں ) لوگ ایک بلند جگہ پر چڑھے انہوں نے پکار کر تکبیر کہی اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے اوپر آسانی کرو تم کیا اس کو پکارتے ہو جو بہرہ ہے یا تم کو نہیں دیکھتا تم تو ایسے خدا کو پکارتے ہو جو سب کی سنتا ہے اور نزدیک ہے وہ تمہارے ساتھ ہے۔
بخاری ج ۲ ص ۶۰۵ کتاب المغازی مسلم ج ۲ ص ۳۴۶ مسند احمد، ج ۴ (۳۹۴
ان دلائل کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ ذکر میں اصل اخفا ہے۔ باقی بقرہ عید کے روز جہرا پڑھنے کے دلائل احادیث میں موجود تھے اس لیے وہاں پر جہر کو اختیار کیا گیا۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے وہ صرف حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عمل ہے
اور قرآن مجید اور مرفوع حدیث کے مقابلہ میں اس پر عمل نہیں ہو سکتا کہ عید الفطر کے روز بھی جہر کیا جائے۔ دوسرے وہ اس لیے نقل نہیں کی کہ آہستہ اور جہر کو ثابت کیا جائے بلکہ اس لیے نقل کی ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ سرے سے تکبیر پڑھنے کے قائل ہی نہیں ہیں اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عمل بتا رہا ہے۔ کہ تکبیر ثابت ہے۔ لہذا ہم نے ثابت کر دیا کہ امام صاحب کا مذہب اس حدیث کے خلاف نہیں ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں