اعتراض نمبر ١٠٠پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :مسئلہ: نماز میں سینے پر ہاتھ باندھناسنت نبویہ ﷺ ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن وائل بن حجر رضی الله عنه قال صليت مع النبيﷺ فوضع يده
اليمنى على اليسرى على صدرة
(ترجمہ) سیدنا وائل بن حجر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر نہیں اپنے سینے پر رکھ لیا۔
(راوه ابن خزيمه في كتاب الصلاة باب وضع اليمين علي الشمال في الصلاة رقم الحدیث۴۷۹، جلد١صفحه ۳۴۳، طلبة المكتب الاسلامي بيروت)
فقه حنفى
ويعتمد بيده اليمنى على اليسرى تحت سرة - (هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب صفة الصلوة ص۱۰۲)
(ترجمہ ) نمازی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھے۔
( فقه وحدیث ۱۳۹)
جواب:
اس مسئلہ میں روایات مختلف ہیں کسی میں آ تا ہے تحت السرۃ یعنی ناف کے نیچے کسی میں آ تا ہے فوق السرۃ یعنی ناف کے اوپر کسی میں آتا ہے علی صدرہ یعنی سینے کے اوپر فقہاۓ احناف رحمۃاللہ علیہ نے اس مسئلہ میں وارد ہونے والی تمام روایات کی تحقیق کر کے مردوں کے لیے تحت السرہ والی روایات کو ترجیح دی ہے اس لیے فقہ حنفی میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
فقہ حنفی کے دلائل
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ احادیث سے ثابت ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبرا:
حجاج بن حسان فرماتے ہیں کہ میں نے ابومجلز ( تابعی ) سے سنا، یا ان سے پوچھا کہ نماز میں ہاتھ کیوں کر باندھے جائیں؟ انہوں نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر کے حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اوپر کے حصہ پر رکھے اور دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج ۱ص ۳۹۱)
حدیث نمبر ۲: حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نمازی نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے( مصنف ابن ابی شیبہ ج اول س ۳۹۱)
حدیث نمبر ۳:
تابعی کبیر حضرت امام ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔
حدیث نمبر ۴:
ابو جحیفہ سے روایت کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔
(١) سنن الکبری بہیقی ج ۲ ص۳۱(۲) مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۰( ۳) مصنف ابن ابی شیبہ ج ۱ص ۳۹۱( ۴ ) سنن دارقطنی ج ۱ ص ۲۸۶( ۵) سنن ابوداؤ نسخه ابن الاعرابی ۔
حدیث نمبر ۵:
حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے
(مصنف ابن ابی شیبہ ج اول ص۳۹۰)
حدیث نمبر٦:
حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ نماز میں ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پرناف کے نیچے رکھا جائے( محلی ابن حزم ج ۳ ص۳۰)
حدیث نمبر ٧:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں (۱) افطار جلدی کرنا ( ۲ ) سحری دیر سے کھانا (۳) اور دوران نماز دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا
(۱) محلی ابن حزم ج ۳ ص ۳۰(۲)الخلافیات البہیقی قلمی ج ۱ ص ۷ ۳ (۳ مختصر الخلافیات لابن فرح الشبلی جلد نمبر اول ص ۳۴۲)
حدیث نمبر ۸:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے اخلاق میں سے ہیں (۱) افطار جلدی کرنا ( ۲ ) سحری دیر سے کھانا (۳) ہتھیلی کو تھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔
(منتخب کنز العمال برمسند احمد ج ۶ ص۳۵۰)
ہم نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی جوروایات نقل کی ہیں ان میں نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعین تابعین عظام سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چائیں ۔ان روایات کا ذکر فقہ حنبلی کی مشہور زمانہ کتاب لغنی ابن قدمه ( جوغیر مقلدین کے ہاں بھی سند کا درجہ رکھتی ہے علامہ احسان الہی ظہیر رحمۃاللہ علیہ کے بھائی ڈاکٹر فضل الہی صاحب غیر مقلد اپنی کتابوں میں اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اکثر اس کے حوالہ جات اپنی کتب میں نقل کرتے ہیں دیکھئے مسائل قربانی وغیرہ۔ ) ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں ۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی روایت حضرت علی رضی اللہعنہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت ابومجلز، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری اور اسحق بن راہویہ سے مروی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سنت میں سے ہے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا ناف کے نیچے ، روایت کیا اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابوداؤد نے اور سنت سے مراد نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے۔ (المغنی ج اول ص ۴۷۲ )
ان روایات سے حنفی مذہب ثابت ہوتا ہے محدثین میں سے امام ترمذی رحمۃاللہ علیہ کا اپنی کتاب ترمذی شریف میں یہ طریقہ ہے کہ وہ حدیث نقل کرنے کے بعد فقہاء کے مذاہب بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس کس محدث کا کیا کیا مذہب ہے اور کون کون سی حدیث ان کے مذہب کی ہے ۔ صحاح ستہ جو احادیث کی کچھ معتبر کتا ہیں تصور کی جاتی ہیں ان میں ترمذی شریف ایک بلند مقام رکھتی ہے اس مسئلہ میں یعنی نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے چائیں یا سینے کے اوپر امام ترمذی نے صرف دو مذہب نقل کئے ہیں ایک تحت السرہ والا اور دوسرا مذہب فوق السرہ والا ملاحظہ فرمائیں ۔ امام ترمذی ابواب الصلاة باب ما جاء في وضع اليمين على الشمال في الصلوۃ ج ۱ ص ۳۴ میں حضرت قبیصۃ بن مھلب کی حدیث کے تحت لکھتے ہیں ۔ ۔
اور کہا بعضوں نے کہ رکھے ان دونوں کو ناف کے اوپر اور کہا بعضوں نے رکھے ناف کے نیچے اور میں سب جائز ہے ان کے نزدیک ۔
( ترمذی مترجمہ علامہ بدیع الزمان غیر مقلد برادر علامہ وحید الزمان غیر مقلد ج ۱ص ۱۳۵) یہ بات یاد رہے کہ امام ترمذی کی وفات ۲۷۹ھ میں ہوئی ۔ آپ اگر پوری ترمذی پڑھ جائیں تو آپ کو کہیں بھی نماز کے اندر ہاتھ باندھنے والے مسئلہ کے متعلق دو مذاہب کے علاوہ کوئی تیسرامذہب نظر نہ آئے گا۔ اگر علی صدرہ والی روایت کے مطابق کسی محدث کا مذہب ہوتا تو امام ترمذی تیسرا مذہب بھی ضرور نقل کرتے ۔
انہوں نے بھی ایک مذہب ناف کے نیچے والانقل کیا جو حنفی مذہب ہے اور دوسرا جونقل کیا وہ بھی حنفی مذہب ہی کے قریب ہے کیونکہ جو ناف کے اوپر ہاتھ رکھیں گے ان کے ہاتھ کا کچھ حصہ ضرور ناف کے نیچے آ جا تا ہے ۔ المغنی ابن قدامہ اور ترمذی کی عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حنفی مذہب کی روایات قابل عمل ہیں اور حنفی مذہب کو حدیث کا مخالف بتانا غلط ہے ۔
علامہ وحید الزماں غیر مقلد کا حوالہ:
علامہ وحید الزماں لکھتے ہیں: ابوداؤد میں حضرت علی کا قول مذکور ہے کہ سنت ہے ایک کف کا دوسرے کف پر رکھنا ناف کے نیچے اور ابن ابی شیبہ نے وائل بن حجر سے مرفوعا تحت السرۃ کونقل کیا ہے ۔ (موطا امام مالک مترجم علامہ وحید الزماں ص ۱۳۲ مطبوعہ مکتبہ رحمانی اردو بازارلاہور ) رہی وہ روایت جو پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں ۔
پہلا جواب :
یہ روایت بخاری مسلم ،ترمذی ، ابوداؤد،نسائی ، ابن ماجہ جوحدیث کی مشہور کچھ کتابیں ہیں جن کو صحاح ستہ کہتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی نہیں ۔ غیر مقلد اکثر ہر مسئلہ میں کہا کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ بخاری میں دیکھاؤ مگر جب اپنی باری آتی ہے تو پھر سب اصول ختم ہو جاتے ہیں ۔
دوسرا جواب: یہ روایت را شدی صاحب نے ابن خزیمہ سے نقل کی ہے مگر سند نقل نہیں کی ہم یہاں پر پہلے اس کی سندنقل کرتے ہیں ۔
اخبرنا ابو طاهرنا ابوبکر نا ابو موسی نامؤمل بن اسماعیل ناسفيان عن
عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ قال اس سند میں پہلا راوی مومل بن اسماعیل ہے جو انتہائی ضعیف ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔ دوسراراوی سفیان ہے تیسرا راوی عاصم بن کلیب ہے چوتھا راوی کلیب ہے یہ تینوں راوی کوفی ہیں اور غیر مقلدین کے نزدیک کوفی اور عراقی راویوں کی حدیث معتبر نہیں ہوتی ۔جیسا کہ مولانا محمد یوسف جے پوری غیر مقلد حقیقۃ الفقہ ص ۱۳۵ مطبوعہ اسلامک پبلشنگ ہاوس شیش محل روڈ لاہور میں لکھتے ہیں ۔ عراق والا آدمی اگر ہزار حدیثیں سنادے تو نوسونوے کو تو چھوڑ ہی دو اور جو دس باقی ہیں ان میں بھی شک رکھو۔
نیز سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ کو یہ لوگ آہستہ آمین والی حدیث میں غلط کارقرار دے چکے ہیں اور عاصم بن کلیب کو ترک رفع یدین والی حدیث میں ضعیف کہہ چکے ہیں کلیب کو بھی ضعیف کہتے ہیں ان راویوں میں سے ایک بھی کسی سند میں آ جاۓ تو یہ لوگ اس حدیث کوضعیف کہتے ہیں۔ تو جس حدیث کی سند میں یہ تینوں جمع ہو جائیں تو ان کی نزدیک کیسے صیح ہوسکتی ہے۔
تیسرا جواب :
اس حدیث کا مرکزی راوی مومل بن اسماعیل ہے اس روایت کو سفیان سے نقل کرنے میں متفرد ہے جیسا کہ امام بیہقی لکھتے ہیں ۔
رواه الجماعة عن الثوري لم يذكر واحد منهم على صدره غير مؤمل بن اسماعیل
( الخلافیات بیہقی ص ۳۷ ق )
یعنی ایک جماعت نے امام سفیان ثوری سے اس روایت کو بیان کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی علی صدرہ کے الفاظ نقل نہیں کیے سواۓ مومل بن اسماعیل کے۔ امام بیہقی کی اس عبارت سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اس روایت کو امام سفیان ثوری سے ایک جماعت روایت کرنی والی ہے لیکن سواۓ مومل بن اسماعیل کے کوئی بھی علی صدرہ ذکر نہیں کرتا۔
(بحوالدالستة الغرة)
چوتھا جواب :
مومل بن اسماعیل ضعیف ہے:
امام بخاری بخاری رحمۃاللہ علیہ اس کو منکر الحدیث کہتے ہیں ۔
(لسان المیزان جلد۷ص۴۰۶ تہذیب التہذ یب جلدنمبر ١۰ ص۳۳۹ تهذیب الکمال جلد نمبر١۷٨/۲۹ میزان الاعتدال جلدنمبر ۲۲۷/٤)
پانچواں جواب:
خودغیر مقلدین بھی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں غیر مقلدین کے حافظ محمد ادریس سلفی نے صحیح ابن خزیمہ کا ترجمہ کیا ہے جو چار جلدوں میں کراچی سے شائع ہوا ہے اس کی جلد اول ص ۵۴ ۴ میں اس حدیث کے متعلق حاشیہ میں ناصر صاحب لکھتے ہیں اس کی اسناد ضعیف ہے، کیونکہ مومل بن اسماعیل ہیں جو کہ بڑے حافظ والے ہیں ۔
اس راوی پر بہت سے محدثین نے جرح کی ہے ہم نے صرف امام بخاری کی جرح نقل کی ہے تفصیل کے لیے دیکھئے(ا)السنةالغرة في وضع اليدين تحت السرة ( ٢)الدمرة الغره في وضع اليدين تحت السرة (۳) نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا تالیف مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃاللہ علیہ قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ حنفی مذہب الحمد اللہ حدیث کے مطابق ہے نہ کے مخالف ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں