نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 51 : سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی


اعتراض نمبر 51 : سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی 

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں 

مسئله : سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی

حدیث نبوی ﷺ

عن عبادة بن الصامت قال ان رسول اللہ ﷺ قال لا صلوة لمن لم يقرء بفاتحة الكتاب

( ترجمہ ) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا جس آدمی نے (نماز میں ) سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔

(بخاري ج1كتاب الاذان باب وجوب القرائة للامام و المشموم في الصلوت كلها في الحضر والسفر وما يجهر فيها و ما يخافت ص ۱۰۴، رقم الحدیث (۷۵۶) (مسلم : ج1کتاب الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة الخ صفحه: ۱۶۹ رقم الحدیث ۸۷۴)

جواب:

فقه حنفی 

وهو مخير في الاخيرين معناه ان شاء سكت وان شاء قرء وان شاء سبح كذا روى عن ابي حنيفة .

(هدایه اولين ج ١ کتاب الصلوة باب النوافل فصل القرائة ص۱۴۸)

(ترجمہ) آخری دو رکعتوں میں نمازی کو اختیار ہے یعنی اگر چاہے خاموش رہے، اگر چاہے قرآت کرے اگر چاہے سبحان اللہ کہے ابوحنیفہ سے اسی طرح مروی ہے۔

(فقہ وحدیث ص ۹۰)

جواب:

یہاں پر اصل مسئلہ یہ ہے کہ چار رکعت والی فرض نماز میں آخری دورکعتوں میں قرآہ کرنے کا حکم کیا ہے۔ غیر مقلدین کے نزدیک ان رکعتوں میں بھی پہلی دو رکعتوں کی طرح قرآت کرنی فرض ہے۔ اور فقہ حنفی میں مستحب ہے اور بعض حنفی فقہاء سنت کے بھی قائل ہیں۔ کیونکہ جتنی قرآت نماز میں لازی تھی وہ تو پہلی دو رکعتوں میں ادا ہو گئی۔ اور پچھلی دو رکعتوں میں قرآۃ کے فرض یا واجب ہونے کی

کوئی واضح دلیل موجود نہیں۔ جن دلائل سے پچھلی دورکعتوں میں قرآہ کا ذکر ملتا ہے حنفی حضرات کے نزدیک ان سے صرف استحباب یا زیادہ سے زیادہ سنت ہی ثابت ہوتی ہے۔ فرض یا واجب ثابت نہیں ہوتی ۔ فقہ حنفی صرف فرض یا واجب ہونے کی نفی کرتی ہے۔ مستحب کے تو حنفی بھی قائل ہیں۔

 فقہ حنفی کے دلائل ملاحظہ فرمائیں

حدیث نمبر1:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قرآت نہیں کرتے تھے۔ نہ جہری میں نہ سری

میں نہ پہلی دو رکعات میں نہ آخری دورکعات میں۔ لیکن جب تنہا نماز پڑھتے اور آخری رکعات میں کچھ نہیں پڑھتے تھے۔

(موطا امام محمد باب القرآة في الصلوۃ خلف الامام)

حدیث نمبر ۲:

عبداللہ بن ابی رافع نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی سورت پڑھتے تھے اور دوسری دو رکعتوں میں

بالکل قرآن نہیں پڑھتے تھے۔

(مصنف عبدالرزاق باب كيف القراءة في الصلوة ج ۲ ص ۶۵ شرح معانی ال آثارج ١ص ۱۵۲ مصنف ابن ابی شیبہ  ج١ ص۳۲۷)

حدیث نمبر ۳:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھتی تھی اور فرماتی تھی ان دو رکعتوں

میں دعا ہے 

(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر ۲۶۶۵ مشکل الا ثار طحاوی ج ۱ ص ۵۳)

حدیث نمبر ۴ :

جابر بن سمرہ فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کوفیوں نے تیری ہر طرح کی شکایت کی ہے۔ حتی کہ نماز تک کی ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں تو پہلی دورکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھتا ہوں اور پچھلی دو میں حذف کرتا ہوں۔ میں تو آنحضرت ﷺ کی پیروی میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا تو سچا ہے یہی تجھ سے گمان ہے۔ یا میرا گمان تجھ سے یہی ہے۔

( بخاری کتاب الاذان باب يطول في الاولين و يحذف في الاحریين )

حدیث نمبر ۵:

عن ابراهيم قال اما قر علقمة في الركعتين الاخريين حرف اقط

(مصنف عبدالرزاق باب كيف القراءة في الصلوة جلد نمبر ۲ ص ۶۵ حدیث نمبر ۲۶۶۰) 

(مصنف ابن ابی شیبہ باب من كان يقول يسبح في الاخر بين ولا یقرأ ج اول ص ۳۲۷ حدیث ۳۷۴۲)

حدیث نمبر ٦:

حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ (فرض کی ) پہلی دورکعتوں میں قرآن پڑھو اور پچھلی دورکعتوں میں تم تسبیح پڑھتے رہو۔ 

(مصنف ابن ابی شیبہ ج ص ۳۷۲)

ابن قدامہ فرماتے ہیں:

امام احمد سے روایت ہے کہ نماز کی پچھلی دورکعتوں میں قراءت واجب نہیں ہے اور اسی جیسا نظریہ نخعی ، ثوری ابوحنیفہ کا ہے اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں پہلی دور کعتوں میں قراءت کرتا ہوں اور پچھلی دو میں تسبیح پڑھتا ہوں۔

ان دلائل سے امام ابوحنیفہ کا نظریہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ کہ آخری دوکعتوں میں قرآۃفرض نہیں باقی رہا قراۃ کا سنت یا مستحب ہونا تو امام صاحب اس کے قائل ہیں ۔ اور احناف کا مسلک یہ ہے کہ پڑھنازیادہ بہتر ہے اور ہدایہ میں بھی یہ لکھا تھا مگر راشدی صاحب نے نقل نہیں کیا۔

 الا ان الافضل ان يقرا ،مگر افضل یہ ہے کہ قراءۃ کرے ( یعنی سورۃ پڑھے ) مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی حنفی لکھتے ہیں۔

مسئلہ : تمام فرائض کی پہلی دورکعات میں قرآۃ فرض ہے اور مغرب کی تیسری رکعت میں اور ظہر، عصر، عشاء کی آخری دورکعات میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے ۔ اور اگر اس کی بجائے تسبیح وتحمید کرتا رہے، تب بھی درست ہے، اگر بالکل سکوت کرے تب بھی نماز درست ہوگی۔ لیکن افضل یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے۔ نماز مسنون کلاں ۴۲۸ بحوالہ ہدایہ ج ١ ص ۹۶ شرح نقایہ ج ١ ص ۸۱ کبیری ص ۲۷۷)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...