نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر67 : مسئله : دوران مدت حمل گر جانے والے بچے کی نماز جنازہ پڑی جائے گی۔


 اعتراض نمبر٦٧

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :

مسئله : دوران مدت حمل گر جانے والے بچے کی نماز جنازہ پڑی جائے گی۔

حدیث نبوی ﷺ

عن المغيرة بن شعبة ان النبي لا قال والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة.

(ترجمہ) سیدنا مغیرہ بن شعبه رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا جو بچہ دوران مدت حمل گر جائے ( حمل ضائع ہو جائے تو ) اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے گی ۔

(ابوداؤد ج١کتاب الجنائز باب المشي امام الجنازةص رقم الحديث ٣١١٠: فقه حنفی

و من لحد يستبل ادرج في خرقة كرامة لبنى ادم واحد يصلى علية.

جواب:

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوة باب الجنائز فصل في الصلوة علي الميت ص۱۸۱)

اور جو بچہ مردہ پیدا ہو اس کی آواز نہ آئی اس کو بنی آدم کے احترام کی وجہ سے صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹا جائے گا اور اس کی جنازہ نماز نہیں پڑھی جائے گی۔

( فقه و حدیث ص ۱۰۶)

جواب:

اس مسئلہ میں روایات مختلف ہیں راشدی صاحب نے اپنے مطلب کی حدیث نقل کر دی اورجس حدیث پر احناف کا عمل تھا اس کا ذکر تک نہ کیا۔ ہم یہاں پر وہ احادیث نقل کرتے ہیں جس پراحناف کا عمل ہے۔

پہلی حدیث :

عن جابر ان النبي ﷺ قال الطفال لا يصلى عليه ولايرث ولا يورث حتى يستهل .

( ترجمہ ) روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بچے پر نہ نماز پڑھی جائے نہ وہ وارث ہو اور نہ موروث حتی کہ چیخے ۔ اس روایت کو ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے۔ مگرابن ماجہ نے اپنی روایت میں لایواث نقل نہیں کیا ہے۔ ( رواه الترمذی و ابن ماجه الا ان لم یز کم ولا ور ) ( مشکوۃ باب المشی کتاب الجنائز) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ترمذی ابواب الجنائز باب ماجاء في ترك الصلوةعلى الطفل حتى يستهل میں موجود ہے۔ ( ترمذی مترجم جلد اول ص ۳۸۰) علامہ بدیع الزمان غیر مقلد نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔

روایت ہے جابر سے کہ نبی ﷺ نے فرمایا لڑکے کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ لڑکا کسی کا وارث ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہوتا ہے جب تک وہ بعد پیدا ہونے کے رووے چلا دے نہیں۔ 

ابن ماجه باب ماجاء فی الصلوة على الطفل میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ 

(طحاوی مترجم جلد اول ص ۷۵۲ باب الطفل يموت ایصلی علیه ام لا میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سنن دارمی کتاب الفرائض باب میراث الصبی میں اس طرح ہے۔ اخبر نأيزيد بن هارون اخبرنا الاشعت عن ابى الذبير عن جابربن عبد الله قال اذا استهل الصبى ورث وصلى عليه 

(ترجمہ) حضرت جابر بن عبد الله بیان کرتے ہیں : جب بچہ ( پیدائش کے وقت ) چلا کر روئے تو اس کی وراثت تقسیم ہوگی اور اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

دوسری حدیث:

حدثنا ابو نعيم حدثنا شريك عن ابى اسحق عن عطاء عن ابن عباس قال اذا استهل الصبى ورث وورث و صلی علیه 

( ترجمہ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب بچہ ( پیدائش کے وقت ) چلا کر روئے تو وہ وارث بنے گا اور اس کی وراثت ہوگی اور اس کی نمازجنازہ ادا کی جائے گی۔

(سنن دارمی باب میراث الصبی )

تیسری حدیث:

حدثنا مالك بن اسمعيل حدثنا اسرائيل عن سماك عن عكرمة عن ابن عباس قال ليس من مولود الا استهل

و استهلاله بعصر الشیطن بطنه فیصیح الا عیسی ابن مریم 

(ترجمہ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بچے کی پیدائش کا حکم، چلا کر رونے سے ثابت ہوتا ہے اور شیطان اس کے پیٹ میں کچھ چبھوتا ہے جس کی وجہ

سے وہ روتا ہے البتہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا۔ 

(سنن دارمی باب میراث الصبی )

چوتھی حدیث:

حدثنا يحيى بن حسان حدثنا يحيى هو ابن حمزة عن زيد بن واقد عن مكحول قال قال رسول الله ﷺ لا يرث المولودحتى يستهل صار خاوان وقع حيا

(ترجمہ) مکحول بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: پیدا ہونے والا بچہ اس وقت تک وارث نہیں بن سکتا جب تک وہ چلا کر نہ روئے اگر چہ وہ زندہ ہی باہر آیا ہو۔

(سنن دارمی باب میراث الصبی )

پانچویں حدیث :

حدثنا يعلى حدثنا محمد بن اسحق عن عطاء عن جابر قال اذا استهل المولود صلى عليه وورث

(ترجمہ) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب بچہ چلا کر روئے تو اس کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی اور اس کی وراثت کا حکم بھی لاگو ہوگا۔

( سنن دارمی باب میراث الصبی )

چھٹی حدیث :

حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا معن عن ابن ابی ذئب عن الزهرى قال ارى العطاس استهلاة

(ترجمہ) زہری بیان کرتے ہیں: میرے خیال میں چیخنا بھی چلا کر رونے کےمترادف ہے۔

(سنن دارمی باب میراث النصبی )

ساتویں حدیث :

حدثنا ابو النعمان حدثنا أبو عوانة عن مغيرة عن ابراهيم لا يورث المولود حتى يستهل ولا يصلى عليه حتى يستهل فاذا استهل صلى عليه وورث وكملت الدية 

(ترجمہ) ابراہیم بیان کرتے ہیں: نو مولود شخص کی وراثت کا حکم اس وقت تک جاری نہیں ہو گا جب تک وہ چلا کر نہ روئے اور جب تک وہ چلا کر نہ روئے تو اس کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ روئے تو اس کی نماز جنازہ بھی ادا کی جائے گی اور اس کی وراثت کا بھی حکم جاری ہوگا اور اس کی دیت بھی مکمل ہوگی۔

(سنن دارمی باب میراث الصبی )

آٹھویں حدیث:

حدثنا عبدالله بن صالح حدثني الليث حدثني يونس عن ابن شهاب و سألناه عن السقط فقال لا يصلى على مولود حتى يستهل صارخاً 

(ترجمہ) یونس بیان کرتے ہیں: ہم نے ابن شہاب سے ( پیٹ سے گر جانے والے بچے کے بارے میں دریافت کیا ( یعنی مردہ پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں دریافت کیا ) تو انہوں نے جواب دیا: اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی چونکہ جب تک بچہ چلا کر نہ روئے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جاتی۔

 (سنن دارمی باب میراث الصبی )

امام شوکانی کا حوالہ:

جمہور فقہاء کا اس بارے میں مسلک یہ ہے کہ حمل کے ساقط ہو جانے کے بعد اس میں زندگی کے آثار پائے جانے لازمی ہیں اگر اس میں یہ آثار نہیں ہوں گے تو پھر اس کی نماز جنازہ ادا کرنےکی ضرورت نہیں۔

(نیل الاوطار اردو جلد دوم ص ۲۵۳)

علامہ وحید الزماں غیر مقلد کا حوالہ:

کچا بچہ وہ ہے جس کی مدت حمل پوری نہ ہوئی ہولیکن جان پڑ گئی ہو اور زندہ پیدا ہوا ہو،اس پر نماز پڑھنا چاہیے اور جو جان نہ پڑی ہو یا مردہ پیدا ہو، تو نماز جنازہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ یوں ہی دفن کر دینا چاہیے۔

(سنن ابوداؤدمترجم جلد نمبر ۲ ص ۵۶۶)

ناظرین ان روایات سے امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا مسلک ثابت ہوتا ہے جس کو راشدی صاحب نے

حدیث کے خلاف کہا ہے باقی رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے وہ ان دلائل کے مقابلہ میں مرجوع کے حکم میں ہے۔ اس سے قابل عمل نہیں اور نہ امت کا اس پر عمل ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...