نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر70: مسئله : سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہیں۔


 اعتراض نمبر٧٠
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہیں۔

حدیث نبوی ﷺ

عن عائشة قالت كل ذالك قد فعل رسول الله ﷺ قصر الصلاة واتم. ( ترجمہ ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سفر میں ہر طرح سے نمازپڑھتے تھے قصر (۲ رکعتیں) بھی کرتے تھے اور اتمام (۴ رکعتیں ) بھی کرتے تھے۔

(شرح السنة للبغوي ج ٤ ص ١٦٦ رقم الحديث ۱۰۲۳ ابواب صلاة السفر باب قصر الصلاة طبع المكتب الاسلامي بيروت) (سنن الدارقطني ج ۲ ص ۲۰۷، رقم الحدیث ۲۲۶۵-۲۲۶۶، طبع دار المعرفه بيروت) (سن الكبري للبيهقي ج۳ ص ۱۴۲ طبع نشر السنه ملتان رقم الحدیث (۱۹۹۲)

فقه حنفی

فرض المسافر في الرباعية ركعتان لايزيد عليهما .

(هدایه اولین ج١کتاب الصلوۃ باب صلاة المسافر صفحه : ۱۶۵)

مسافر دورکعت سے زیادہ رکعات نہیں پڑھ سکتا۔

( فقه و حدیث ص ۱۰۹)

جواب:

فقہ حنفی کا یہ مسئلہ احادیث کے مطابق ہے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) عن عیسی بن حفص بن عاصم قال حدثى ابى انه سمع ابن عمر يقول صحبت رسول الله ﷺ فكان لا يزيد في السفر على رکعتین و ابابكر وعمر وعثمان كذالك. 

(بخاری ج١ص ۱۴۰۹ (ترجمہ) حضرت عیسی رحمۃاللہ علیہ بن حفص فرماتے ہیں کہ میرے والد حفص رحمۃاللہ علیہ نے حدیث بیان کی کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا۔ آپﷺ سفر میں دورکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور میں حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا وہ بھی ایسے ہی کرتے تھے۔

(۲) عن عبد الله بن عمر (في حديث طویل انی صحبت رسول الله ﷺ فى السفر فلم يزدعى الركعتين حتى قبضه الله و صحبت ابابکر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله و صحبت عمر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وقد قال الله تعالى لقدكان لكم في رسول الله ﷺاسوة حسنة 

(مسلم ج ص ۲۴۲) 

(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا آپﷺ نے نماز دورکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلالیا اور میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دورکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں حتی کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے بلالیا۔ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دورکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھیں حتی کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے بلالیا میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں حتی کہ انہیں بھی اللہ نے بلالیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

بے شک تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اچھا نمونہ ہے۔ 

(۳) عن ابن عمر قال قال رسول الله ﷺ صلوة السفر ركعتان من ترك السنة فقد كفر 

( رواه ابن حزم بسند صحیح ( عمدة القاری ج ۷ ص ۱۳۳) 

( ترجمہ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر کی نماز دورکعتیں ہیں جس نے سنت ( یعنی اس طریقہ ) کو چھوڑا تحقیق اس نے کفر کیا۔

(۲) عن مورق قال سألت ابن عمر عن الصلوة في السفر فقال ركعتين ركعتين من خالف السنة كفر - 

(مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۴) 

(ترجمہ) حضرت مورق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دوران سفر نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا دو۔ دو رکعتیں ہیں جس نے سنت (اس طریقے ) کی مخالفت کی اس نے کفر کیا۔ 

(ه) عن ابي الكنود قال سألت ابن عمر عن صلوة السفر فقال ركعتان نزلتا من السماء فان شئتم فردوهما - ( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۴) (ترجمہ) حضرت ابوالکنود رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا دورکعتیں ہیں جو آسمان سے اتری ہیں چاہو تو ان کو رد کر دو۔

(٦) عن السائب بن يزيد الكندي ابن اخت النمر قال فرضت الصلوة

ركعتين ركعتين ثم زيد فى صلوة الحضر واقرت صلوة السفر۔ 

(مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۴)

(ترجمہ) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نمر کے خواہر زادے فرماتے ہیں کہ نماز دودو رکعت فرض ہوئی تھی پھر حضر کی نماز میں اضافہ ہو گیا اور سفر کی نماز یونہی برقرار رکھی گئی۔

(4) عن عائشة زوج النبى قالت الصلوة اول مافرضت رکعتان فاقرت صلوة السفر و اتممت صلوة الحضر، الحديث

( بخاری ج ١ص ۱۴۸)

( ترجمہ ) نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نماز ابتداء دورکعتیں ہی فرض ہوئی تھیں سفر کی نماز برقرار رکھی گئی اور حضرکی نمازپوری کر دی گئی۔

(۸) عن عمر قال صلوة السفر ركعتان وصلوة الجمعة ركعتان والفطر والاضحى ركعتان تمام غیر قصر على لسان محمدﷺ

( ابن ماجہ ص ۷۶ ، نسائی ج ۱ص ۱۶۲)

(ترجمہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعات ہیں جمعہ کی نماز دو رکعات ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز دو دو رکعات ہیں جو پوری ہیں کم نہیں محمد ﷺکی زبانی۔

(٩) عن يعلى بن امية قال قلت لعمر بن الخطاب ليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلوة ان خفتم ان يفتنكم الذين كفروا فقد امن الناس فقال عجبت حما عجبت منه فسألت رسول الله ﷺ عن ذالك فقال صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته (مسلم ج ١ ص ۲۴۱) 

(ترجمہ) حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آیت کریمہ لیس علیکم جناح ال آیتہ کے بارے میں عرض کیا کہ اب تو لوگ امن میں ہو گئے ہیں، آپ نے فرمایا تمہیں عجیب لگی ہے وہ بات جو مجھے عجیب لگی تھی ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔ آپﷺنے فرمایا تھا کہ یہ اللہ نے تم پر صدقہ کیا ہے لہذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو۔ 

(۱۰) عن ابن عباس قال فرض الله الصلوة على لسان نبیکم ﷺ فى الحضراربعا وفى السفر ركعتين وفي الخوف ركعة 

(مسلم ج ١ ص ۲۴۱)

(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کی زبانی حضر میں چار رکعتیں ، سفر میں دورکعتیں ، اور خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض کی ہے۔

(۱۱) عن ابن عباس قال صلی ﷺ حين سافر رکعتین رکعتین وحين اقام اربعا قال وقال ابن عباس فمن صلى في السفر اربعا كمن صلى في الحضر ركعتين الحدیث 

(مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۵) 

(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سفر کیا تو دو دو رکعتیں پڑھیں اور جب آپﷺ مقیم ہوئے تو چار پڑھیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو شخص دوران سفر چار رکعتیں پڑھتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ شخص جو حضر میں دورکعت پڑھے۔ 

(۱۲) عن موسى بن سلمة الهذ لى قال سألت ابن عباس کیف اصلی اذا كنت بمكة اذالم اصل مع الامام فقال ركعتين سنة ابی القاسم ﷺ ۔ 

( مسلم ج١ص ۲۴۱) 

(ترجمہ) حضرت موسیٰ بن سلمة هذلی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ جب میں مکہ مکرمہ میں ہوں اور میں نے امام کے ساتھ نماز نہ پڑھی ہو تو کیسے نماز پڑھوں آپ نے فرمایا دورکعتیں یہی سنت ہے ابو القاسم ﷺ کی۔

(۱۳) عن ابن عباس ان النبى ﷺخرج من المدينة الى مكة لا يخاف الارب العلمین فصلى ركعتين . 

(ترمذی ج ١ص۱۲۲) 

(ترجمہ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ گئے اس حال میں کہ آپ سوائے رب العلمین کے کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں۔ 

(۱۴) عن ابى هريرة قال سافرت مع رسول الله ﷺلا ومع ابي بكر وعمر كلهم صلى من حين يخرج من المدينة الى ان يرجع اليهاركعتين فى المسير والمقام بمكة 

( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۶) 

(ترجمہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر کیا ہے سب نے مدینہ طیبہ سے جاتے اور واپس مدینہ طیبہ آنے تک دور کعتیں ہی پڑھیں سفر کے دوران. بھی اور مکہ مکرمتہ اقامت کے دوران بھی۔

(۱٥) عن خلف بن حفص عن انس انطلق بنا الى الشام الى عبد الملك ونحن اربعون رجلا من الانصار ليفرض لنا فلما رجع وكنا بفج الناقه . صلى بنا الظهر ركعتين ثم دخل فسطاطه وقام القوم يضيفون الى ركعتيهم ركعتين اخريين فقال قبح الله الوجوه فوا الله ما اصابت السنة ولا قبلت الرخصة فاشهد السمعت رسول اللہ ﷺ یقول ان قوم يتعمقون في الدين يموقون كما يمرق السهم من الرمية. 

( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۱۵ ) (ترجمہ) حضرت خلف رحمۃاللہ علیہ بن حفص حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (انہوں نے فرمایا ) ہمیں ملک شام عبدالملک بن مروان کے پاس لے جایا گیا ہم چالیس انصاری مرد تھے، مقصد یہ تھا کہ وہ ہمارا وظیفہ مقرر کر دے،

جب ہم واپس ہوئے اور حج الناقہ پہنچے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں اور اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے لوگ اُٹھے اور ( پڑھی ہوئی) دو رکعتوں کے ساتھ دوسری دورکعتوں کا اضافہ کرنے لگے، آپ نے فرمایا خدا ان کا برا کرے اللہ کی قسم یہ سنت کو نہ پہنچے نہ انہوں نے رخصت کو قبول کیا، گواہ رہو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے کہ بہت سے لوگ دین میں خوب گہرائی میں جائیں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ان سے نکلتا ہے۔

(١٦) عن عطاء بن یسار قال ان سا قالوا يا رسول الله ﷺ كنا مع فلان في السفر فابي الا ان يصلى لنا اربعا أربعا فقال رسول الله ﷺ اذا والذی نفسی بیده تضلون 

( المدونۃ الكبرى ج١ ص۱۲١) 

(ترجمہ) حضرت عطاء بن یسار رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ ﷺہم فلاں صاحب کے ساتھ سفر میں تھے انہوں نےہمیں نماز پڑھانے سے انکار کیا بجز اس صورت کے کہ وہ چار چار رکعت

پڑھائیں گے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ایسی صورت میں تم گمراہ ہو جاؤ گے۔

(١٧) عن ابراهيم ان ابن مسعود قال من صلى في السفرار بعا اعاد الصلوة - 

( معجم طبرانی کبیر ج ۹ ص۲۸۹) (ترجمہ) حضرت ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے سفر میں چار رکعتیں پڑھیں وہ اپنی نماز لوٹائے۔ مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ دوران سفر نماز میں قصر کرنا عزیمت ہے نہ کہ رخصت، نیز قصر کرنا واجب اور ضروری ہے نہ کہ افضل۔

رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے۔ اس کے کئی جواب ہیں۔

جواب نمبر ١ : اس روایت میں قصر سے مراد وہ نمازیں ہیں جن میں قصر ہوتی ہے مثلاً ظہر، عصر، عشاء کہ آپ ﷺ ان میں سفر کے اندر قصر کرتے تھے یعنی دو۔ دو رکعات پڑھتے تھے۔ اور پوری پڑھنے سے مراد وہ نمازیں ہیں جن میں قصر نہیں ہوتی مثلا مغرب اور صبح کی نماز تو اب مطلب یہ ہوگا کہ جن نمازوں میں

قصر ہوتی تھی آپ قصر کرتے تھے اور جن میں قصر نہیں ہوتی تھی اس کو سفر میں پوری پڑھتے تھے۔

جواب نمبر ۲:

یہ روایت ہے بھی ضعیف اس کی سند میں ایک راوی ہیں ابراہیم بن یحیی جوضعیف ہیں۔

جواب نمبر ۳:

صاحب سفر سعادت علامه مجددالدین فروز آبادی شافعی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں

کہ یہ حدیث صحت کی حد کو نہیں پہنچی لہذا حالت سفر میں پوری چار رکعتیں پڑھنا ثابت نہیں ہے۔

جواب نمبر ۴:

حضرت عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سب سے پہلے نماز دو رکعت

فرض کی گئی۔ پس سفر کی نماز برقرار رہی اور حضر کی نماز پوری پڑھی گئی۔ امام زہری نے کہا: میں نے عروہ سے پوچھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(منی میں نماز پوری پڑھتی تھیں اس کا کیا سبب تھا؟ انہوں نے کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی تھی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تاویل کی تھی۔

( بخاری کتاب تقصیر الصلوة باب يقصر اذا خرج من موضعه )

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اجتہاد سے ایسا کرتی تھیں اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جواز اتمام میں کوئی حدیث مرفوع ہوتی تو حضرت عروہ نہ فرماتے کہ وہ تاویل کرتی تھیں بلکہ اس حدیث کا حوالہ دیتے۔ حضرت عروہ کے قول سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس بارے میں کوئی مرفوع حدیث نہ تھی بلکہ ان کا اپنا اجتہاد تھا لہذا مذکورہ روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کی گئی ہے یا تو صحیح نہیں ہے یا اس کا مطلب کچھ اور ہے۔

اس لیے علامہ ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ (دیکھئے معارف السنن ج ٤ ص ۴۵۹)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...