اعتراض نمبر٧٢
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں: مسئله : ظہر وعصر کا افضل و اول وقت
حدیث نبوی ﷺ
عن ابن عباس قال قال رسول اللهﷺ امنی جبریل عند البيت مرتين فصلى بي الظهر حين زالت الشمس وكانت قدر الشراك وصلى بي العصر حين صار ظل كل شيء مثله.
( ترجمہ ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کہ جبرائیل نے دو مرتبہ مجھے امامت کرائی ، ظہر سورج ڈھلنے کے وقت اور عصر ہرچیز کا سایہ برابر ہو جانے کے وقت پڑھائی۔
(ابوداؤدج ١کتاب الصلوة باب المواقيت صفحه ٦۳ واللفظ به، رقم الحدیث ۳۹۳)
(ترمذي ج١ ابواب الصلاة باب ماجاء في مواقيت الصلاة عن النبي ﷺ صفحه : ۳۸، رقم الحدیث ۱۴۹)
فقه حنفی
واخر وقتها (اى الظهر ) عند ابي حنيفة اذا صار ظل كل شيء مثليه
.... و اول وقت العصر اذا خرج وقت الظهر -
(هداية اولين ج١كتاب الصلاة باب المواقيت صفحه : ۸۱)
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ظہر کا آخری وقت یہ ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے ڈبل ہوجائے اور عصر کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے۔
(فقہ وحدیث ۱۱۱)
جواب:
یہ کوئی نیا اعتراض نہیں اس سے پہلے بھی غیر مقلدین کرتے رہے اور احناف کی طرف سے اس کے مفصل اور مدلل جوابات بھی شائع ہوتے رہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی (وکیل اہلحدیث ) نے بھی اپنے اشتہار میں یہ مسئلہ ذکر کیا تھا اور اس کا جواب شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃاللہ علیہ نے ادلہ کاملہ میں دیا تھا۔ ہم یہاں پر اس مسئلہ کو تو ذرا تفصیل سے لکھتے ہیں تا کہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے ۔ کیونکہ اس مسئلہ کے متعلق احادیث بہت مختلف ہیں احادیث نقل کرنے سے پہلے ہم ائمہ اربعہ کا اختلاف نقل کرتے ہیں بعد میں احادیث نقل کریں گے۔
اس مسئلہ میں ائمہ اربعہ کا اختلاف
ظہر کا اول وقت بالا تفاق زوال سے شروع ہوتا ہے اور استواء شمس کے وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ فی زوال (اصلی سایہ ) کہلاتا ہے اس کے پہچانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہموار زمین میں کوئی سیدھی لکڑی یا کیل گاڑ دی جائے۔ زوال سے پہلے اس کا جو سایہ ہوگا وہ تدریجا گھٹتارہے گا پھر یا تو بالکل ختم ہو جائے گا یا کچھ باقی رہے گا
[خط استواء سے قرب و بعد کی وجہ سے فی زوال مختلف ہوتا ہے۔]
اب اور گھٹنا بند ہو جائے گا یہی باقی ماندہ سایہ فی زوال (اصلی سایہ ہے پھر وہ دوسری جانب بڑھنا شروع ہوگا ، جوں ہی بڑھنا شروع ہو سمجھ لینا چاہیے کہ زوال شمس ہو گیا ، اور ظہر کا وقت شروع ہو گیا۔ اور ظہر کا وقت کب تک باقی رہتا ہے اور عصر کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے، ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک رحمۃاللہ علیہ، امام شافعی رحمۃاللہ علیہ اور امام احمد رحمۃاللہ علیہ اور صاحبین یعنی امام ابو یوسف رحمۃاللہ علیہ اور امام محمد رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک ظہر کا وقت ختم ہوتا ہے، جب ہر چیز کا سایہ فی زوال کو منہا کرنے کے بعد اس چیز کے بقدر ہو جائے۔ اصطلاح میں اس کو ایک مثل (مانند )کہتے ہیں اور اسکے بعد فورا عصر کا وقت شروع ہوتا ہے دونوں وقتوں کے درمیان مشہور قول کے مطابق نہ تو کوئی حد فاصل ہے نہ وقت مشترک۔
اور امام اعظم سے اس سلسلہ میں چار روایتیں منقول ہیں۔
(1) ظاہر روایت میں ظہر کا وقت دو مثل پر ختم ہوتا ہے، اور اس کے بعد فورا عصر کا وقت شروع ہوتا ہے یہی مفتی بہ قول ہے علامہ کاسانی رحمۃاللہ علیہ نے بدائع الصنائع ( بدائع ج ١ ص ۱۲۲) میں لکھا ہے کہ یہ قول ظاہر روایت میں صراحت مذکور نہیں ہے امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے صرف یہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے نزدیک عصر کا وقت دومثل کے بعد (یعنی تیسرے مثل سے) شروع ہوتا ہے، ظہر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اس کی تصریح امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے نہیں کی ہے۔
(2) امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کا دوسرا قول وہی ہے جو ائمہ ثلاثہ اور صاحبین کا ہے، امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ نے اس کو اختیار کیا ہے اور صاحب در مختار نے لکھا ہے کہ آج کل لوگوں کا عمل اسی پر ہے اور اس پر فتوی دیا جاتا ہے اور سید احمد دحلان شافعی نے خزانۃ المفتین اور فتاویٰ ظہیریہ سے امام صاحب کا اس قول کی طرف رجوع نقل کیا ہے۔ (فیض الباری) مگر ہماری کتابوں میں یہ رجوع ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اس قول کو حسن بن زیاد لولوی کی روایت قرار دیا گیا ہے اور سرخسی رحمۃاللہ علیہ نے مبسوط میں اس کو بروایت امام محمد رحمۃاللہ علیہ ذکر کیا ہے، اور صاحب در مختار نے جو اس قول کو مفتی بہ کہا ہے۔ اس کو علامہ شامی نے رد کر دیا ہے۔
(3) امام اعظم رحمۃاللہ علیہ سے تیسری روایت یہ ہے کہ مثل ثانی مہمل وقت ہے یعنی ظہر کا وقت ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہے، اور عصر کا وقت دومثل کے بعد شروع ہوتا ہے اور دوسرامثل نہ ظہر کا وقت ہے نہ عصر کا ،یہ اسد بن عمرو کی روایت ہے امام اعظم رحمۃاللہ علیہ ۔
(4) اور چوتھا قول عمدۃ القاری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل سے کچھ پہلے ختم ہو جاتا ہے، اور عصر کا وقت دومثل کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ امام کرخی رحمۃاللہ علیہ نے
اس قول کی تصحیح کی ہے۔
( فیض الباری ج ۲ ص ۹۵)
راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے اس میں ذکر ہے کہ ظہر کی نماز زوال ہوتے ہی پڑھائی تھی اور عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھائی تھی ، اور دوسرے دن ظہر کی نماز ایک مثل پر پڑھائی تھی یعنی ٹھیک اسی وقت جس وقت پہلے دن عصر کی نماز پڑھائی تھی، (لوقت العصر بالامس) اور عصر کی نماز دومثل پر پڑھائی تھی۔
یہ روایت متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے، ابوداؤد ، ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو روایت مروی ہے اس میں لوقت العصر بالامس کا لفظ ہے، یہ روایت ترمذی و نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور ابن راہویہ نے اپنی مسند میں حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے نیز یہ روایت صحیین میں بھی ہے مگر مجمل ہے یعنی اوقات صلوۃ کی اس میں تفصیل نہیں ہے، نیز اس روایت کو بزار رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور عبد الرزاق نے اپنے مصنف میں حضرت عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے۔ (کمافی نصب الرایۃ ج ١ ص ۲۲۱ - ۲۳)
روایت کا مفاد
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثل تک ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے ، اور دونوں وقتوں کے درمیان نہ تو کوئی مہمل وقت ہے، نہ مشترک، اس روایت کو ائمہ ثلثہ اور صاحبین نے لیا ہے، البتہ امام مالک علیہ الرحمۃ مثل اول کے آخر میں مقیم کے لیے چار رکعت کے بقدر، اور مسافر کے لیے دو رکعت کے بقدر مشترک وقت مانتے ہیں۔ یعنی اس میں ظہر کی نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے، اور عصر کی نماز بھی، کیونکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلے دن جس وقت عصر کی نماز پڑھائی ٹھیک اسی وقت میں دوسرے دن ظہر کی نماز پڑھائی تھی علامہ دردیر کی شرح صغیر میں ہے۔
واشتركت الظهر والعصر فى اخر القامة بقدر اربع ركعات . فيكون
اخر وقت الظهر، واول وقت العصر
ظہر اور عصر شریک ہیں مثل اول کے آخر میں چار رکعت کے بقدر ( شرح صاوی میں ہے کہ یہ حالت حضر میں ہے اور حالت سفر میں دورکعت کے بقدر ہے ) لہذا مثل اول کا آخر ظہر کا آخری وقت اور عصر کا اول (ابتدائی ) وقت ہے۔
(بلغۃ السالک ج ١ص ۸۳)
مگر ابن حبیب مالکی اشتراک کے قائل نہیں ہیں، اور ابن العربی مالکی تو فرماتے ہیں کہ
تا الله ما بينهما اشتراك ولقد ذلت فيه اقدام العلماء
(حواله سابق)
( ترجمہ ) خدا کی قسم دونوں وقتوں کے درمیان مشترک وقت نہیں ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء (مالکیہ ) کے پیر پھسل گئے ہیں۔
اور جمہور لوقت العصر بالامس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ بات راوی نے تقارب زمانین کی وجہ سے کہی ہے ورنہ حقیقت میں پہلے دن جس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی ، دوسرے دن اس سے ذرا پہلے ظہر کی نماز پوری کر دی تھی، دونوں دن دونوں نماز میں ایک ہی وقت میں نہیں پڑھی تھیں، کیونکہ آیت کریمہ ان الصلوة كانت على المؤمنين كتبا موقوتا( یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے) سے یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کا وقت الگ الگ ہے اشتراک نہیں ہے۔
دوسری روایت
یہ ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ سے نماز کے اوقات دریافت کئے ، آپ ﷺ نے اس شخص کو ہرایا، اور دودن نماز پڑھا کر عملی طور پر اوقات نماز کی تعلیم دی، اس روایت میں ہے کہ پہلے دن حضوراکرمﷺ نے ظہر کی نماز زوال ہوتے ہی پڑھائی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج سفید اور بلند تھا، اور دوسرے دن ظہر کی نماز بہت زیادہ ٹھنڈی کر کے پڑھائی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج آخر وقت میں پہنچ گیا تھا۔
(مسلم شریف ج ١ص ۱۲.۲۲۳)
یہ روایت مسلم شریف میں حضرت بریدة رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مسلم شریف ہی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا سایہ اس کے برابر ہو جائے، پھر ظہر کا وقت باقی رہتا ہے عصر کا وقت آنے تک،اور عصر کا وقت باقی رہتا ہے سورج کے زرد ہونے تک ۔
(مسلم ج ص ۲۲۳)
روایت کا مفاد
اس روایت سے اوقات صلوۃ کی کوئی واضح حد بندی نہیں ہوتی البتہ اس میں یہ جملہ ہے کہ دوسرے دن حضور اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز بہت زیادہ ٹھنڈی کر کے پڑھائی ، اس سے کچھ ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ شاید مثل ثانی میں پڑھائی ہو۔ کیونکہ مشاہدہ یہ ہے کہ مثل اول کے ختم تک موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اس حدیث کے جو الفاظ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ ظہر کا وقت
شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے ، اور آدمی کا سایہ اس کے برابر ہو جائے اس سے تو یہ بات صاف سمجھ میں آئی ہے کہ مثل ثانی بھی ظہر کا وقت ہے۔
تیسری روایت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گشتی فرمان ہے جو آپ نے اپنے گورنروں کے نام جاری کیا تھا اس میں آپ نے لکھا تھا کہ ظہر کی نماز پڑھو جب سایہ ایک ہاتھ ہو جائے یہاں تک کہ وہ سایہ ایک مثل ہو جائے ، اور عصری نماز پڑھو در آں حالیکہ سورج بلند، چمکدار اور صاف ہو ، اور عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے سوار دو یا تین فرسخ کا سفر کر سکے۔
(موطا مالک ص ۱۳)
روایت کا مفاد
یہ روایت بھی اس بات میں صریح نہیں ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل پر ختم ہو جاتا ہے، بظاہر روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مستحب اوقات کا بیان ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم اس وقت دیا ہے جب کہ سایہ ایک ہاتھ ہو جائے ، حالانکہ ظہر کا وقت زوال ہی سے شروع ہو جاتا ہے، نیز عصر جس وقت میں پڑھنے کا حکم دیا ہے وہ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو مستحب اوقات کی تعلیم دی ہے حقیقی اوقات نہیں بتائے۔
چوتھی روایت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے کہ ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ سے نماز کے اوقت پوچھے تو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔
انا اخبرك صل الظهر اذا كان ظلك مثلك ، والعصر اذا كان ظلك
مثليك الخ
یہ روایت موطا مالک ص ١۳ اور موطا محمد ص٤۲ میں ہے، یہ دونوں کتابیں در حقیقت ایک ہی ہیں، یحیی بن یحیی حمودی کی روایت موطا مالک کے نام سے مشہور ہے اور امام محمد بن حسن شیبانی کی روایت موطا محمد کے نام سے مشہور ہے۔
( ترجمہ ) سن میں تجھے بتاتا ہوں ! ظہر کی نماز پڑھ جب تیرا سایہ تیرے برابر ہوجائے اور عصر کی نماز پڑھے جب تیرا سایہ تیرے دو مثل ہو جائے۔
روایت کا مفاد
یہ روایت صریح ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد بھی باقی رہتا ہے کیونکہ جب ظہر کو ایک مثل پر پڑھنے کا حکم دیا، اور عصر کو دومثل پر تو اب مثل ثانی عصر کا وقت تو ہوہی نہیں سکتا، لا محالہ ظہر ہی کا وقت ہوگا یہ اگر چہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے، مگر چونکہ مقادیر مدرک بالعقل نہیں ہے اس لیے اس کولا محالہ حکما مرفوع ماننا ہوگا۔
پانچویں روایت
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحیحین میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھے جب ظہر کا وقت ہوا تو مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ابھی وقت کو ٹھنڈا ہونے دو کچھ دیر بعد پھر مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے پھر ارشاد فرمایا کہ ابھی وقت کو ٹھنڈا ہونے دو حتی راینا فی التلول ( یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا) پھر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ گرمی کی شدت جہنم کے پھیلاؤ سے ہے۔ لہذا جب گرمی سخت ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھا کرو۔
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے کتاب الاذان میں بھی ذکر کیا ہے وہاں یہ الفاظ ہیں کہ
حتی ساوى الظل التلول ( یہاں تک کہ سایہ طول میں ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔)
روایت کا مفاد
اس روایت سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اس سفر میں ظہر کی نماز بالیقین مثل ثانی میں بلکہ مثل ثانی کے بھی آخر میں پڑھی ہے، کیونکہ ٹیلوں کے سایہ کا ظاہر ہونا بلکہ ٹیلوں کے سایہ کا طول میں ٹیلوں کے برابر ہونا مثل اول میں ممکن ہی نہیں ہے جس کو تردرد ہو وہ مشاہدہ کر کےاپنا شک دور کر سکتا ہے۔
چھٹی روایت
بخاری شریف کی ہے، جو مشکوۃ شریف کے بالکل آخری باب باب ثواب هذه الامتہ کے بالکل شروع میں ہے، جس میں حضور اکرم نے اپنی امت کی مدت عمر اور یہود و نصاری کی مدت عمر مثال سے سمجھاتی ہے کہ
ایک شخص نے صبح سے دوپہر تک ایک ایک قیراط طے کر کے مزدور رکھے اور دوپہر میں ان کو ان کی اُجرت دے کر رخصت کر دیا، پھر دوپہر سے عصر تک کے لیے ایک ایک قیراط طے کر کے دوسرے مزدور رکھے۔ عصر کے وقت ان کو بھی ان کی اجرت دے کر رخصت کر دیا۔ پھر عصر سے غروب آفتاب تک کے لیے اور مزدور رکھے اور ان کی اجرت دو دو قیراط طے کی، جب انہوں نے کام پورا کیا تو ان کو ان کی ڈبل اجرت دی گئی ۔ یہ مثال بیان کر کے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ وہ مزدور ہو جنہوں نے عصر سے مغرب تک کام کیا ہے لہذا تمہیں ڈبل مزدور ملے گی ، اس پر یہودونصاری ناراض ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ کام ہم نے زیادہ کیا اور مزدوری ہمیں کم ملی، اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ کیا میں نے تمہارا کچھ حق مارا ہے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : تو میں اپنی مہربانی جس پرچاہوں کروں۔۔۔ روایت کا مفاد
اس روایت کے اشارہ سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے، کیونکہ اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ واسلام کی مدت عمل کم ہے اور یہودو نصاری کی مدت عمل زیادہ ہے، یہود کی مدت عمل کا زیادہ ہونا تو بد یہی ہی، کیونکہ وہ صبح سے دوپہر تک ہے، اسی طرح نصاری کی مدت عمل امت محمدیہ کی مدت عمل سے بدیہی طور پر زیادہ اس وقت ہو سکتی ہے جب عصر کا وقت مثل ثالث سے شروع ہو اور مثل ثانی کے ختم تک ظہر کا وقت رہے، اگر ظہر کا وقت مثل اول کے ختم تک مانا جائے تو نصاری اور امت محمدیہ دونوں کی مدت عمل میں کوئی واضح تفادت نہیں رہتا۔ الغرض یہ روایت اگر عقل سلیم ہو تو اس بات کی صاف دلیل ہے کہ ظہر کا وقت مثل ثانی کے ختم تک رہتا ہے۔
امام اعظم کی مختلف روایات کے سلسلہ میں احناف کے مختلف نقطہ ہائے نظر:
بحث کے شروع میں امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کی چار روایتیں بیان کی گئی ہیں۔
(1) ظہر کا وقت مثل ثانی کے ختم تک رہتا ہے، اور عصر کا وقت مثل ثالث کی ابتداء سے شروع ہوتاہے. یہ ظاہر روایت ہے۔
(۲) ظہر کا وقت مثل اول کے ختم تک رہتا ہے، اور عصر کا وقت مثل ثانی کی ابتداء سے شروع ہوتا ہے. یہی جمہور کا بھی مذہب ہے۔
(۳) مثل ثانی پورا مہمل وقت ہے۔
(۴) مثل ثانی کے اخر میں تھوڑا وقت مہمل ہے۔
امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کی ان مختلف روایتوں کے سلسلہ میں احناف کے تین نقطہ نظر ہیں۔
پہلا نقطہ نظر:
یہ ہے کہ یہ تمام روایات باہم متعارض ہیں، لہذا غور کر کے آخری روایت متعین کی جائے، اور مقدم روایات کو منسوخ قرار دیا جائے ، صاحب خزانہ المتین اور صاحب فتاوی ظہیریة نے یہی صورت اختیار کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے دوسرے قول کی طرف امام صاحب کا رجوع کرنا نقل کیا ہے، اور اس کو آخری قول قرار دیا ہے مگر کتب مذہب میں یہ رجوع معروف نہیں ہے، اس لیے عام طور پر یہ نقطہ نظر تسلیم نہیں کیا جاتا۔
دوسرانقطه نظر:
یہ ہے کہ موافقت جمہور یا قوت دلیل کی بناء پر کسی ایک قول کو ترجیح دی جائے ۔ چنانچہ امام طحاوی رحمۃاللہ علیہ اور صاحب در مختار نے موافقت جمہور کے پیش نظر دوسرے قول کو ترجیح دی ہے، اور یہ فرمایا ہے کہ اس پر لوگوں کا عمل ہے، اور اسی پر فتوی دیا جاتا ہے اور شارح منیہ علامہ ابراہیم حلبی ، اور علامہ ابن عابدین شامی ، اور مفتیان دارالعلوم دیوبند نے وقت دلیل کی بناء پرپہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ جو ظاہر روایت ہے، علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ صاحب درمختار پر رد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ
صاحب در مختار نے جو فرمایا ہے کہ امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کی دوسری روایت اظہر ہے۔ حدیث جبرائیل کی وجہ سے اور حدیث جبرائیل اس مسئلہ میں نص ہے، یہ فرمانا صحیح نہیں ہے، کیونکہ امام اعظم رحمۃاللہ کے قول کے کافی دلائل موجود ہیں۔ اور امام اعظم رحمۃاللہ علیہ کی دلیل کی کمزوری ظاہر نہیں ہوئی ہے، بلکہ امام صاحب کے دلائل قوی ہیں جیسا کہ مطلولات اور شرح منیہ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم کی جاسکتی ہے، اور علامہ ابن نجیم مصری نے البحر الرائق میں یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ امام صاحب کا
قول چھوڑ کر صاحبین کا قول ، یا ان میں سے کسی ایک کا قول کسی ضرورت ہی کی وجہ سے اختیار کیا جاسکتا ہے، مثلاً امام صاحب کی دلیل کمزور ہو یا تعامل امام صاحب کے قول کے خلاف ہو، جیسے مزارعت کا مسئلہ محض مشائخ کے یہ کہہ دینےسے کہ فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے امام صاحب کا قول نہیں چھوڑا جا سکتا۔
(شامی ج ١ص ۲۶۴)
تیسرا نقطہ نظر:
یہ ہے کہ امام صاحب کے اقوال میں تطبیق دی جائے ، اور یوں کہا جائے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک تو بالیقین رہتا ہے اور مثل ثانی کے ختم تک رہنے کا احتمال ہے اور عصر کا وقت مثل ثالث سے بالیقین شروع ہوتا ہے، مگر مثل ثانی سے شروع ہونے کا احتمال ہے، لہذا احتیاط اس میں ہے کہ ایک مثل ختم ہونے سے پہلے ظہر کی نماز نہ پڑھ سکے تو پھر مثل ثانی میں پڑھ لے، اس سے تاخیر نہ کرے، اور اس کو ادا کہا جائے گا، قضا نہیں کہا جائے گا، اسی طرح اگر کسی مجبوری میں جیسا کہ حاجیوں کو حرمین شریفین میں یہ مجبوری پیش آتی ہے کوئی شخص مثل ثانی میں عصری نماز پڑھ لے تو اسکو بھی صحیح کہا جائے گا یعنی ذمہ فارغ ہو جائے گا مگر ظہر اور عصر دونوں کو مثل ثانی میں پڑھنا شریعت کے منشاء کے خلاف ہے، شریعت کا منشاء یہ ہے کہ دونوں نمازوں کے درمیان فصل ہونا چاہیے اور یہ فصل عام حالات میں کم از کم ایک مثل کے بقدر ہونا چاہیے ، اور مخصوص حالات میں اس سے کم بھی ہو سکتا ہے اور وقت مہمل سے امام صاحب کی مراد یہی عملی اجمال ہے یعنی دونوں نمازوں سے درمیان فصل کرنا۔ حضرت قدس سرہ کا نقطہ نظر غالباً یہی ہے، چنانچہ ایضاح الادلة میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ وقت مابین المسلمین (یعنی مثل ثانی) کو بوجہ تعارض روایات نہ بالیقین وقت ظہر میں داخل کر سکتا ہیں، نہ وقت عصر میں یا یوں کہیئے کہ ایک وجہ سے ظہر میں داخل ہے تو دوسرے طور سے عصر میں، تو اب بوجہ احتیاط حضرت امام صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ظاہر الروایت میں وقت مذکور ( مثال ثانی ) وقت ظہر میں شامل کر دیا ، تا کہ کوئی صلوٰۃ عصر وقت مذکورہ ( مثل ثانی ) میں ادا کر کے ادائے صلوٰۃ قبل الوقت کے احتمال میں نہ پڑ جائے ، اور وقت یقینی کو ترک کر کے وقت محتمل میں صلوٰۃ عصر کو ادا نہ کرے۔ رہی صلوٰۃ ظہر، اس کا وقت یقینی گو ایک مثل تک ہے لیکن اگر کسی ضرورت یا غفلت کی وجہ سے کسی کو صلوٰۃ مذکور ( ظہر کی نماز ) وقت یقینی میں ادا کرنے کا اتفاق نہ ہوا تو اب یہی چاہیے کہ مابین المثلین (مثل ثانی) ہی میں اس کو ادا کرلے، کیونکہ یہ وقت گو وقت محتمل ہے تا ہم اور اوقات سے تو عمدہ ہے، یہاں احتمال ادا تو ہے اور اوقات میں تو یہ بھی نہیں بلکہ بالیقین قضاء محض ہے۔
بالجملہ مطلب ظاہر الروایت یہ ہے کہ وقت مابین المثلین کا بوجہ معروضه (مذکورہ وجہ کی بناء پر) وقت ظہر میں شمار کرنا مناسب ہے، کیونکہ وقت عصر میں داخل کرنے سے اداء صلوۃ قبل الوقت کا احتمال باقی یہ مطلب نہیں کہ وقت مذکور ( مثل ثانی) بالیقین وقت ظہر میں داخل ہے اور جیسا بقاء ظہر ہے۔ مثل تلک یقینی ہے بعینہ ایسا ہی مشکلین تلک وقت ظہر باقی رہتا ہے، بلکہ وقت ظہر یقینی تومشکل تلک ہے، اور ابتداء عصر بالیقین مثلین سے ہوتا ہے، اور درمیان کا وقت بوجہ روایات مختلفہ دونوں امر کا متحمل ہے“۔ (ص ۱۵۵ تاص ۱۵۶ فخریه )
حضرت قدس سرہ نے یہ نقطہ نظر دو وجہ سے اپنایا ہے، ایک اس وجہ سے کہ مثلین تک وقت ظہر کے باقی رہنے کی کوئی صریح روایت نہیں ہے، اس لئے احتمال ہے کہ مثل ثانی عصر کا وقت ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ امامت جبرئیل والی وحدیث کی تاریخ معلوم ہے وہ اس وقت کی روایت ہے جب پانچ نمازیں فرض ہوئی تھیں یعنی اسلام کے بالکل دور اول کی روایت ہے اور باقی تمام روایتیں مابعد کی ہیں اس لیے احتمال ہے کہ مثل اور مثلین کے معاملہ میں نسخ ہوا ہو، یعنی عصر کا وقت کٹ کر مثلین سے کر دیا گیا ہوا اور ظہر کا وقت بڑھا کہ مثلین تک کر دیا ہو، لہذا مثل ثانی میں شک پیدا ہو گیا کہ وہ عصر کا وقت رہا یا نہیں ؟ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ عصر کی نماز مثل ثانی کے بعد پڑھی جائے تا کہ بالیقین ذمہ فارغ ہو جائے اگر مثل ثانی میں عصر کی نماز پڑھی جائے گی تو آخری تین روایتوں کی بناء پر کھٹکا ر ہے گا کہ شاید نماز وقت سے پہلے پڑھی گئی ہو اور ذمہ فارغ نہ ہوا ہو۔
رہا ظہر کا معاملہ تو اگر وہ مثل اول میں ادا کی گئی ہے تب تو وہ بالیقین ادا ہوگئی ، اور اگر مثل ثانی میں پڑھی گئی ہے تب بھی ذمہ فارغ ہو جائے گا۔ کیونکہ امامت جبرئیل والی حدیث کے پیش نظر اگر ظہر کی نماز ادا نہ ہوگی تو قضاء ہو جائے گی۔ اور قضاء سے بھی ذمہ فارغ ہو جاتا ہے۔
الغرض جمہور نے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ اولاً تو مبنی بر احتیاط نہیں، اور ثانیا ان کے مذہب کے مطابق آخری تین روایتوں کو ترک کرنا لازم آتا ہے اور امام اعظم رحمۃاللہ علیہ نے ایسا طریقہ اختیار فرمایاہے کہ اس میں احتیاط بھی ہے اور تمام روایتوں پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ فجزاه الله تعالی خیرا و اثا به بما هو اهله (امین)
جمہور کے پاس بھی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے:
جمہور کا مستدل یعنی امامت جبرئیل والی حدیث قلعی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں نسخ کا احتمال ہے، اور یہ احتمال بے دلیل نہیں ہے بلکہ آخری تین روایتوں کی بناء پر یہ احتمال پیدا ہوا ہے، دلیل کے قطعی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی نص پیش کی جائے جس سے دائما حضور اکرم ﷺکامثل ثانی میں عصر پڑھنا ثابت ہوتا ہو، یا کم از کم ایسی تصریح پیش کی جائے کہ حضور اکرم ﷺ کا آخری عمل مثل ثانی میں عصر پڑھنے کا تھا اور ایسی تصریحات جمہور کے پاس نہیں ہے۔
احناف کے دلائل
پہلی حدیث :
عن عبد الله بن رافع مولى ام سلمة زوج النبي ﷺانه سال ابأهريرة عن وقت الصلوة فقال ابو هريرة انا اخبرك صل الظهر اذا كان ظلك مثلك والعصر اذا كان مثليك
( ترجمہ ) عبد اللہ بن رافع جو آنحضرت ﷺ کی بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے مولیٰ ہیں انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نماز کا وقت پوچھا کہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے میں بتاؤں تجھ کو نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ تیرا تیرے برابر ہو جائے اور عصر کی جب سایہ تیرا تجھ سے دونا ہو۔
(موطا امام مالک مترجم علامہ وحید الزمان غیر مقلد ص ۲۰-۲۱)
دوسری حدیث:
عبد الله بن رافع مولى ام سلمة زوج النبى ﷺ عن ابى هريرة انه سأله عن وقت الصلوة فقال ابو هريرة انا اخبرك صل الظهر اذا كان ظلك مثلك والعصر اذا كان ظلك مثليك.
(ترجمہ) عبد اللہ بن رافع جو حضور اکرم ﷺ کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکےآزاد کردہ غلام ہیں۔ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نماز کے وقت کےبارے میں دریافت کیا۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ میں تمہیں بتلاتا ہوں۔ ظہر کی نماز ادا کرو جب تمہارا سایہ تمہارے برابر ہو جائے اور نماز عصر جب تمہارا سایہ تم سے دو گنا ہو جائے۔
(موطا امام محمد مترجم ص ۲۷ ) .
تیسری حدیث:
عن ام سلمة رضی اللہ عنہما قالت كان رسول الله ﷺ الشد تعجيلا للظهر منكم وانتم اشد تعجيلا للعصر منه ( ترمذى ص ۵۱ مسند احمد ج ۶ ص ۲۸۹)
(ترجمہ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ تو ظہر کی نماز تم سے جلدی پڑھتے تھے اور تم لوگ عصر کی نماز کو آنحضرت ﷺ سےجلدی پڑھتے ہو۔
چوتھی حدیث:
رافع بن خدیج ان رسول الله ﷺ كان يامرهم بتلخيرا العضر -
(بیہقی ج ٣٣٤:١ و هامشه الجوہر النقی ج ١ ص ۴۴۱)
( ترجمہ ) حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ لوگوں کو حکم دیتے تھے وہ عصر کی نماز کومؤخر کر کے پڑھیں۔
پانچویں حدیث:
عن الاعمش قال كان اصحاب عبدالله بن مسعود يعجلون الظهرويوخرون العصر -
(مصنف عبد الرزاق ج ١ص ۵۴۰)
( ترجمہ ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھی اور شاگرد ظہر کی نماز جلدی پڑھتے تھے اور عصر کی نماز تاخیر سے پڑھتے تھے۔
چھٹی حدیث :
عن ابي هريرة رضی اللہ عنہ انه كان يؤخر العصر حتى اقول قد اصفرت
الشمس-
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ص ۳۲۷)
( ترجمہ ) سوار بن شبیب رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ عصر کو اتنامؤخر
کر کے پڑھتے تھے کہ میں یہ خیال کرتا تھا شاید سورج زرد ہو گیا ہے۔
ساتویں حدیث :
علی بن شيبان رضی اللہ عنہ قال قدمنا على رسول الله ﷺ المدينة
فكان يؤخر العصر مادامت الشمس بيضاء نقية
(ابو داؤد دج ١ص ۵۹ ، ابن ماجه ص ۸ ،٤)
(ترجمہ) علی بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ میں آنحضرت ﷺکے پاس آئے تو آپ عصر کی نماز مؤخر کر کے پڑھتے تھے جب تک سورج سفید اور صاف ہوتا ہے ( زرد ہونے سے پہلے)
آٹھویں حدیث :
عن ابراهيم قال كان من قبلكم اشد تعجيلا للظهر واشد تأخيراللعصر منكم
(مصنف عبد الرزاق ج ١ ص ۵۴۰)
(ترجمہ) حضرت ابراہیم نخعی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں تم نے پہلے لوگ ظہر کی نماز کو تمہاری بہ نسبت جلدی پڑھتے اور عصر کی نماز کو تم سے زیادہ مؤخر کرتے تھے۔ رہی وہ حدیث جو بیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔
(1) اس حدیث کی سند نہیں ایک راوی عبد الرحمن بن الحارث ضعیف۔
( میزان الاعتدل ج ۲ ص ۵۵۴)
(۲) راشدی صاحب نے حدیث مکمل نقل نہیں کی اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں۔
ثم التفت الى فقال يا محمد هذا وقت الانبياء من قبلك والوقت
مابين هذين الوقتين
( ترجمہ ) پھر میری طرف متوجہ ہوئے (حضرت جبرائیل علیہ السلام) اور کہااے محمدﷺ یہی وقت ہے تجھ سے پہلے اور پیغمبروں کا اور نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان میں ہے۔
راشدی صاحب نے یہ سارے الفاظ چھوڑ دیئے۔
(۳) اس حدیث میں مرتین کے الفاظ موجود ہیں جس کا ترجمہ راشدی صاحب نے یہ کیا ہے کہ جبرائیل
نے دو مرتبہ مجھے امامت کرائی۔ مگر حدیث سے صرف ایک دن کا ذکر نقل کر دیا دوسری دن کا ذکر نقل نہیں کیا دوسرے دن کا ٹائم بھی بتانا چاہئے تھا مگر وہ ان کے مسلک کے خلاف تھا اس لیے نہیں بتایا دوسرے دن جو جبرائیل نے نماز پڑھائی اس میں عصر کی نماز کے متعلق آتا ہے۔ وصلى بي العصر حين كان ظله مثلیہ اور نماز پڑھی عصر کی جب سایہ ہر چیز کا ڈبل ہوا۔
لہذا یہ روایت احناف کے خلاف نہیں اور راشدی صاحب کے بھی کام کی نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں