نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر77 مسئله : دوران وضو ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا


 اعتراض نمبر٧٧
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : دوران وضو ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا

حدیث نبوی ﷺ

فمضمض واستنشق من کف واحد

( ترجمہ ) سیدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ وضوء کےبارے میں مروی ہے کہ آپ نے کلی اور ناک میں پانی ایک ہی چلو سے ڈالا۔

(مشكوة ج١كتاب الطهارة باب سنن الوضوء الفصل الاول صفحه : ۴۵)

(صحيح بخاري كتاب الوض

ريض واستنشق من غرفة واحدة ج١صفحه ٣۱ رقم الحدیث ١٩١

فقه حنفی

وكيفيتها ان يمضمض ثلاثا يأخذ لكل مرة ماء جديدة ثم يستنشق

(هدایه اولین : ج١كتاب الطهارة ص ١٨)

 ( ترجمہ ) تین بار کی کی جائے ہر بار نیا پانی لیا جائے گا پھر اسی طرح ناک میں پانی ڈالا جائے گا۔

(فقہ وحدیث ص ۱۱۶)

جواب:

اس مسئلہ میں روایات مختلف ہیں پیر بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے اپنی مرضی کی ایک روایت نقل کر دی اور حنفی مسلک کی دلیل ذکر نہیں کی اور فقہ حنفی کو حدیث کے خلاف کہہ دیا ۔ ہم یہاں پر فقہ حنفی کے دلائل نقل کرتے ہیں۔

حنفی مسلک کے دلائل

حدیث نمبر ١

عن ابي وائل شقيق بن سلمة قال شهدت علی ابن ابی طالب و عثمان بن عفان رضی الله عنهما توضأ ثلاثا ثلاثا و افرد المضمضة من الاستنشاق ثم قالا هكذا راينا رسول الله ﷺ توضا رواه ابن السكن في صحاحه. (تلخيص الحبيرس ۷۹ جلد نمبر ١)  ( ترجمہ ) ابو وائل شقیق بن سلمہ نے کہا، میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ اورحضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا دونوں نے تین تین بار وضو کیا

اور مضمضہ کو استنشاق سے علیحدہ کیا، پھر کہا ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اسطرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

اس حدیث کو ابن السکن نے اپنی صحاح میں بیان کیا ہے۔

حدیث نمبر ۲:

عن ابى حية قال رايت عليا رضی الله عنه توضا فغسل كفيه حتى انقا هما ثم مضمض ثلاثا و استنشق ثلاثا و غسل وجهه ثلاثاً وذراعيه ثلاثا ومسح براسه مرة ثم غسل قدميه الى الكعبين ثم قام فأخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم ثم قال احببت ان اريكم كيف كان ظهور رسول الله .

( ترمذی ابواب الطهارت باب في وضوء النبی ﷺ کیف کان )

 ( ترجمہ ) ابوحیہ نے کہا، میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا پس اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی اور تین بار ناک میں پانی ڈالا ، تین بار چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو بھی تین بار دھویا اور ایک بار مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ، پھر کھڑے ہو کر وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے کھڑے کھڑے ہی پی لیا، پھر کہا میں نے بہتر سمجھا کہ تمہیں دکھاؤں ۔ رسول اللہﷺ کا وضو کیسا تھا ۔

حدیث نمبر ۳:

و عن ابن ابی مليكة قال رایت عثمان بن عفان رضی الله عنه سئل عن الوضوء فدعا بماء فاتى بميضأة فأصغاها على يده اليمنى ثم ادخلها في الماء فتمضمض ثلاثا واستنثر ثلاثا وغسل وجهه ثلاثاً ثم غسل يده اليمنى ثلاثاً وغسل يده اليسرى ثلاثا ثم ادخل يده فاخذ ماء الفمسح براسه واذنيه فغسل بطونهما وظهورهما مرة واحدة ثم غسل رجليه ثم قال اين اسأئلون عن الوضوءهکذار ایت رسول الله على لم يتوضا

(ابوداود کتاب الطھارت ص ١٥ ج ١ باب صفة وضوء النبی ﷺ )

( ترجمہ ) ابن ابی ملیکہ نے کہا، میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا ان سے وضو کے بارہ میں پوچھا گیا ، انہوں نے پانی منگایا تو لوٹا پیش کیا گیا۔ انہوں نے اسے اپنے دائیں ہاتھ پر ڈالا ، پھر وہ ہاتھ پانی میں داخل کر کے تین بار کلی کی اور تین بار ناک جھاڑا اور تین بار اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنا دایاں ہاتھ تین بار اور بایاں ہاتھ تین بار دھویا ، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا پانی لے کر اپنے سر اور کانوں کا مسح کیا، دونوں کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصہ کو ایک بار دھویا ، پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے اور کہا وضو کے بارے میں پوچھنے والے کہاں گئے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا۔

 حدیث نمبر ۴:

و عن راشد بن نجيح ابي محمد الحماني قال رايت انس بن مالك بالزاوية فقلت له اخبر ني عن وضوء رسول الله علم كيف كان فأنه بلغنى انك كنت توضئه قال نعم فدعا بوضوء فأتي بطست وقدح فوضع بين يديه فأكفأ على يديه من الماء وانعم غسل كفيه ثم تمضمض ثلا ثا و استنشق ثلاثا وغسل وجهه ثلاثا ثم اخرج يده اليمنى فغسلها ثلاثا ثم غسل اليسرى ثلاثا ثم مسح براسه مرة واحدة غيرانه امرهما على اذنيه قمسح عليهما . رواهالطبراني في الاوسط و قال الهیثمی اسناده حسن 

(المعجم الاوسط ج ۳ ص ۴۲۸ مجمع الزوائدج ١س ۲۳۱)

( ترجمہ ) راشد بن نجیح ابو محمد الحمانی نے کہا، میں نے حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کو زاویہ میں دیکھا، تو ان سے کہا، مجھے رسول ﷺ کے وضو کے بارہ میں بتائیے کہ وہ کس طرح تھا؟ تحقیق مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ انہیں وضو کراتے تھے، انہوں نے کہا، ہاں تو انہوں نے پانی منگایا، ایک طشت اور پیالہ لایا گیا ( جو کہ چھیلا گیا تھا جیسا کہ چھیلا گیا تھا ایک نسخہ میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ ان کے سامنے رکھ دیا گیا تو انہوں نے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈال کر دونوں ہاتھوں کو خوب اچھی طرح دھویا، پھر تین بارکلی کی ، تین بار ناک میں پانی ڈالا ، اور تین بار چہرہ دھویا ، پھر اپنا دایاں ہاتھ ڈال کر اُسے تین بار دھویا ، پھر بایاں ہاتھ تین بار دھو یا اور اپنے سر کا ایک بار سیخ کیا ، البتہ انہوں نے ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر پھیرے

اور ان کا مسح کیا۔

اس حدیث کو طبرانی نے اوسط میں بیان کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔

حدیث نمبر ۵

طلحہ بن مصرف نے روایت کی اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا سے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا۔ آپ وضو کر رہے تھے اور آپ جدائی کرتے تھے کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں ۔ (ابو دو باب فی الفرق بین المضمضة والاستنشاق ) ان پانچ احادیث سے حنفی مسلک ثابت ہوتا ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے ہمارے نزدیک وہ بیان جواز پر محمول ہے۔ سنت نہیں سنت طریقہ فقہ حنفی والا ہی ہے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...