نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 78 مسئله : اونٹ میں ( قربانی کے ) دس حصے ہیں۔


 اعتراض نمبر ٧٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : مسئله : اونٹ میں ( قربانی کے ) دس حصے ہیں۔

وفي البعير عشرة. 

( ترجمہ ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اونٹ دس آدمیوں ) کی طرف سے قربانی کے لیے ) کافی ہے۔ (ترمذي ج١ ابواب الاضاحي باب في الاشتراك في الاضحيه صفحه : ٢٤٦، رقم الحديث (۱۵۰) (مشكوة باب

الاضحيه فصل الثاني صفه : ١۲۸ نسائي ج ٢ كتاب الضحايا باب ما تجزي عنه البدنة في الضحايا صفحه : ٢٠٢. رقم الحدیث ۴۳۹۷) (ابن ماجه ج ۲ ابواب الاضاحي باب عن كم تجزء البدنة والبقرة ص ٢٢٦ م رقم الحديث٣۱۳١)

فقه حنفی

او بدنة عن سبعة.

(هدایه اخیرین ج ۴ کتاب الاضحية صفحه : ۴۴۴)

( ترجمہ ) اونٹ کی قربانی صرف سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔

(فقہ وحدیث ص ۱۷۷)

جواب:

اس مسئلہ میں روائتیں دونوں قسم کی ہیں راشدی صاحب نے اپنے مطلب کی روایت نقل کردی اور دوسری روایات کا ذکر نہ کیا اور فقہ حنفی کے مسئلے کو حدیث کے خلاف کہہ دیا ہم یہاں پر پہلے وہ روایات نقل کرتے ہیں جن پر فقہ حنفی کا عمل ہے۔

 فقہ حنفی کے دلائل

حدیث نمبر ١ :

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ کہتے ہوئے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہو جائیں۔

(مسلم باب جواز الاشتراك في الھدی)

 اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ میں سات آدمی شریک ہونے کا حکم دیا ہے اور راشدی صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے۔ اس میں حکم موجود نہیں ہے اب یہاں پر قول اور فعل کے درمیان تعارض آگیا اور اصولیین کے نزدیک جب قولی اور فعلی حدیث کے درمیان تعارض آجائے تو ترجیح قولی کو ہوتی ہے جیسا کہ علامہ نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ تعارض القول والفعل والصحيح حنينز عند الاصوليين ترجيه القول ( نووی شرح مسلم ج ص ۴۵۳) جب قول اورفعل کا تعارض ہو تو اصولیین کے ہاں صحیح بات یہ ہے کہ ترجیح قول کو دی جاتی ہے۔

حدیث نمبر ۲:

راشدی صاحب نے ترمذی کے جس باب سے اونٹ میں دس آدمی شریک ہونے والی حدیث نقل کی ہے اُس میں اس حدیث کے فوراً بعد اونٹ میں سات آدمی شریک ہونے والی حدیث بھی موجود تھی جس کا ذکر انہوں نے نہیں کیا وہ یہ ہے۔

روایت ہے جابر سے کہا انہوں نے زبح کیا ہم نے قربانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے۔

(ترمذی مترجم علامہ بدیع الزماں ج اص ۵۶۵)

امام ترمذی کے طرز سے پتہ چلتا ہے کہ دس والی بات پہلے کی ہے اور سات والی بعد کی کیونکہ محدثین کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے زمانے کی حدیث پہلے ذکر کرتے ہیں اور ناسخ بعد میں ۔ اس اصول سےمعلوم ہوا کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔

حدیث نمبر ۳:

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ کونحر کیا اور سات آدمیوں کی طرف سے ہی گائے کی قربانی کی۔ 

(مسلم شریف باب جواز اشتراک فی الھدی)

 حدیث نمبر ۴:

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج اور عمرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سات سات آدمی ایک قربانی میں شریک ہو گئے تھے۔ ایک شخص نے حضرت جابر سے دریافت کیا کہ جس طرح قربانی کے اونٹ میں شریک ہو سکتے ہیں کیا اسی طرح بعد کے خریدے ہوئے اونٹ میں بھی شرکت جائز ہے۔ انہوں نے کہا پہلے سے اور بعد میں خریدے ہوئے دونوں اونٹوں کا حکم ایک ہے۔ حضرت جابر حدیبیہ میں موجود تھے حضرت جابر نے کہا کہ ہم نے ستر اونٹ ذبح کیے اورہر اونٹ میں سات آدمی شریک تھے۔ (مسلم شریف باب اشتراک فی الھدی) ہم نے فقہ حنفی کے مسئلہ کو چار احادیث سے ثابت کر دیا ہے احادیث اور بھی ہیں مگر ماننے والے کے لیے یہ ہی کافی ہیں۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے پہلے نمبر پر وہ منسوخ ہے اور دوسرے اس کی سند بھی ضعیف ہے چنانچہ امام ترمذی اس کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حسن ہے غریب ہے نہیں پہنچانتے ہم اس کو مگر فضل بن موسی کی روایت ہے۔

( ترمذی مترجم علامہ بدیع الزماں غیر مقلد ج ١ص (۵۶۵)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...