نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 79: مسئله : پورے گھرانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کفایت کر جائے گی۔


 اعتراض نمبر ٧٩
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : پورے گھرانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کفایت کر جائے گی۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عطاء بن يسار قال سألت ابا ايوب الانصاري كيف كانت الضحايا فيكم على عهد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا قال كان الرجل في عهد النبي لا يضحى بشأة عنه وعن اهل بيته فيا كلون ويطعمون ثم تباهى الناس فصار کماتری 

( ترجمہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربان کرتا تھا۔

ابن ماجه ۲ ابواب الاضاحي باب من ضخي بشاة عن اهله ص ۲۲۷، رقم الحدیث ۳۱٤۷)

 فقه حنفی

ويذبح عن كل واحد منهم شاة.

(هدایه اخیر بن ج ۴ کتاب الاضحية صفحه : ۴۴۴)

( ترجمہ ) ہر ایک کی طرف سے علیحدہ ایک بکری ذبح کی جائے گی۔

(فقہ وحدیث ص ۱۱۸)

جواب:

فقہ حنفی کا یہ حکم اس وقت ہے جب کہ سب کہ سب اپنے اپنے مال کے مالک ہوں اور سارے صاحب نصاب بھی ہوں اور عموماً ایسا ہوتا ہے۔ مثلاً باپ پر قربانی واجب ہے اور اس کی بیوی کے پاس دونوں طرف کا زیور ہوتا ہے اور بعض ماں کے بچے امیر ہوتے ہیں وہ اپنی ماں کو الگ سے خرچہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ماں خود بھی صاحب نصاب ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ماں پر الگ قربانی واجب ہوگی اور بیٹوں پر الگ بعض خاندانوں میں بیٹے اپنا اپنا الگ کاروبار کرتے ہیں اور الگ کھاتے پیتے ہیں مگر رہتے ایک ہی گھر میں ہیں۔ اور خود صاحب نصاب بھی ہوتے ہیں ۔ ایسی صورت میں ان سب پر اپنی الگ الگ قربانی واجب ہوگی۔ بعض دفعہ بیٹی ماں باپ سے بھی زیادہ امیر ہوتی ہے مگر رہتی ہے باپ کے گھر میں ایسی صورت میں اس پر الگ سے قربانی واجب ہوگی ۔ ہاں اگر خاندان کا سر براہ ایک ہو۔ سب کا مال و دولت ایک ہی آدمی کے ہاتھ میں ہو اور سب کا خزانہ اکٹھا ہو۔ بیوی اور بچے صاحب نصاب نہ ہوں تو ایسی صورت میں صرف گھر کے سربراہ پر صاحب مال ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہوئی ہے وہ اپنی طرف سے ایک قربانی کرے گا۔ اور

ایسے ایک قربانی وہ تمام اہل خانہ کی طرف سے قربانی کہہ سکتے ہیں۔

عقلی دلیل :

ہر مسلمان عاقل بالغ پر اسلام کے احکام الگ الگ عائد ہوتے ہیں ۔ مثلاً

(1) نماز ۔ سب پر الگ الگ فرض ہے تمام گھر والے اپنی اپنی نماز پڑھیں گے۔

(۲) روزہ بھی سب گھر والوں پر الگ الگ فرض ہے۔

(۳) زکوۃ بھی سب گھر والے اپنی اپنی ادا کریں گے۔ اگر وہ سب مال دار ہیں اور صاحب نصاب ہیں۔ اسی طرح صدقہ فطر بھی ہر ایک پر الگ الگ واجب ہوگا۔

حج بھی ہر ایک اپنی طرف سے الگ الگ کرے گا۔

ایسے ہی قربانی بھی ہر مال دار صاحب نصاب اپنی اپنی کرے گا چاہئے وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔ بہت سے گھر اور خاندان ایسے ہیں کہ دادا پڑ دادا بھی زندہ ہوتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی اسی گھر میں رہتی ہیں تایا چاچا پھوپھی وغیرہ بھی دادا ہی کے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک ہی گھر کہلاتا ہے کیا ایسی صورت میں صرف ایک بکری قربانی کر دینے سے سب کی طرف سے ادا ہو جائی گی جبکہ اس گھر میں اکثر صاحب نصاب ہوں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

فقہ حنفی کے دلائل

حنفی مسلک کے دلائل میں ایسے تمام دلائل شامل ہیں جن میں قربانی کی اہمیت اور فضیلت کا ذکر ہے۔ اور وہ ہر صاحب نصاب کے لیے ہیں جب تک کوئی ایسی وزنی دلیل ان کو چھوڑنے پر مجبور نہ کرے راشدی صاحب نے جو حدیث بقول کی ہے وہ اس درجہ کی نہیں ہم پہلے اپنے دلائل نقل کرتےہیں بعد میں اس حدیث کا جواب عرض کریں گے۔

قرآن حکیم میں اس قربانی کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔ پارہ نمبر ۲۳ ، سورۃ الصفت آیات نمبر ۹۹ تا ۱۰۸ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر موجود ہے۔ ہم یہاں پر صرف آیات کا ترجمہ نقل کرتے ہیں۔

اور ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلا جاتا ہوں وہ مجھ کو ( اچھی جگہ ) پہونچا ہی دے گا اے میرے رب مجھ کو ایک فرزند دے سو ہم نے ان کو حلیم المزاج فرزند کی بشارت دی سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ برخوردار میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ( ب آمر الہی ) ذبح کر رہا ہوں سو تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ بولے کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ ( بلاتامل ) کیجئے ان شاء اللہ آپ مجھ کو سہار کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔

غرض دونوں نے ( خدا کے حکم کو تسلیم کر لیا۔ اور باپ نے بیٹے کو ( ذبح کرنے کے لیے ) کروٹ پر لٹایا اور ( چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں اس وقت ) ہم نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم علیہ اسلام ( شاباش ہے ) تم نے خواب کو خوب سچ کر دیکھایا ( وہ وقت بھی عجیب تھا ) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں حقیقت میں یہ تھا وہ بڑا امتحان اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دے دیا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی۔“

دوسری آیت:

ولكل امة جعلنا منسكاليذكووا اسم الله على ما رزقهم منم جهيمة الانعام ( ترجمہ ) اور ( جتنے اہل شرائع گذرے ہیں ان میں سے ) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپاؤں پر اللہ کانام لیں جو اس نے ان کو عطا فرمائے تھے۔

تیسری آیت:

(پارہ نمبر ١۷ اسورۃ الحج آیت نمبر ۳۴)

تیسری آیت:

قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العلمين لا شريك له وبذلك اموت وانا اول المسلمين.

( ترجمہ ) تو کہہ کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے کیےہے جو پالنے والا سارے جہان کا ہے۔ کوئی نہیں اس کا شریک اور یہی مجھ کو حکم ہوا ہے اور میں سب سے پہلے فرمابردار ہوں۔

(پارہ نمبر ٨ سورة انعام آیت نمبر ١٦٣)

چوتھی آیت:

انا اعطينك الكوثره فصل لربك وانحر

( ترجمہ ) بیشک ہم نے دی تجھ کو کوثر سونماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر۔ 

(پارہ نمبر ۳۰ سورۃ الکوثر آیت نمبر ۱ - ۲)

 حدیث نمبر 1

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو قربانی کرنے کی طاقت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں حاضر نہ ہو۔ (سنن ابن ماجہ ابواب الاضاحی اس حدیث پر امام ابن ماجہ نے اس طرح باب باندھا ہے۔ باب الاضاحي واجبة هي امر لا ( ترجمہ ) قربانی واجب ہونے اور نہ ہونے کا باب۔ (مسند احمد ج ۲ ص ۳۲۱، مستدرک حاکم جلد ۴ ص ۲۳۲) سنن دار قطنی باب الصيدالذبائع والاطمعة وغير ذلك )

امام حاکم نے اس حدیث کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے ملاحظہ و المستدرک ج۴ ص ۲۳۱ تلخیص مستدرک حافظ ذہبی یہ تلخیص مستدرک کے ساتھ ہی طبع شدہ ہے۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ملاحظہ فرمائیں صحیح سنن ابن ماجه ج ۲ ص ۱۹۹ مولانا شمس الحق عظیم ابادی غیر مقلد نے تعلیق المغنی شرح دار قطنی میں لکھا ہے۔ حدیث ابن ماجہ کے راوی کلھم صحیح بخاری کےراوی ہیں مگر عبداللہ بن عیاش مسلم کا راوی ہے جس کی ایک حدیث مسلم میں ہے۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے مسلمان شخص کو جو قربانی کی طاقت رکھتا ہو یہ تنبیہ فرمائی ہے۔ جو گھر کے تمام افراد مرد ہو یا عورت بیٹا ہو یا بیٹی سب کو شامل ہے آپ نے کسی کو مستثنی نہیں فرمایا اس لیے یہ حکم عام ہے۔

حدیث نمبر ۲:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عتیرہ سے منع فرمایا ؟ عتیرہ ایک ذبیبہ تھا جسے لوگ رجب میں ذبح کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس عتیرہ سے منع کیا اورانہیں قربانی کرنے کا حکم دیا۔ (مسند بزار مجمع الزوائد )

حدیث نمبر ۳:

جندب بن سفیان بجلی کہتے ہیں ہم نے ایک عید الاضحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی اس دن بعض لوگوں نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کر لی جب آپ ﷺ نماز پڑھ کر تشریف لائے تو دیکھا کہ ان لوگوں نے نماز سے پہلی ہی قربانی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہو وہ دوبارہ قربانی کرے جس نے قربانی نہ کی ہو وہ اب اللہ کا نام لے کر زبیح کرے۔ بخاری کتاب الذبائح والصيد باب قول النبى فليذبح على اسم الله مسلم کتاب الاضاحی باب وقتها نسائى كتاب الضحايا باب ذبح الضحية قبل الامام -حدیث نمبر ۴:

ام بلال اللہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بھیڑ کے چھ ماہ کے بچے کی قربانی کرنے کا

حکم دیا ۔ ( مجمع الزوائد ج ۴ ص ۱۹ )

حدیث نمبر ۵:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اس دن ( بقر عید کے دن) ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے ) سے زیادہ محبوب ہو اور (قربانی کا) وہ ذبح کیا ہوا جانور قیامت کے دن اپنے سینگھ ، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون اس سے پہلے کہ زمین پر گرے یعنی ذبح کرنے کے ارادہ کے وقت ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو جاتا ہے لہذا تم اس کی وجہ سے (یعنی قربانی کی وجہ سے ) اپنے نفس کو خوش کرو۔

( سنن ترمذی ابواب الاضاحی باب ما جاء في فضل ال النحية سنن ابن ماجہ ابواب الاضاحی باب ثواب الاضحیة سنن بیہقی ج٩ ص ۲۶۱ مستدرک حاکم جلد نمبر ۴ ص ۲۲۱ ص ۲۲۲ مشکوة ج ۱ ص ۱۲۸ مصنف عبد الرزاق ج ۲ ص ۳۸۸)

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی کوقبول کرتا ہے اور اس کے بدلے تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے۔ تو قربانی کرنے کی وجہ سےتمہارے اندر کسی قسم کی کوئی تنگی یا کراہت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس عظیم بشارت کی وجہ سے تمہارےنفس کو مطمئین اور تمہارے دل کو خوش ہونا چاہیے۔ ( مظاہر حق جدید جلد اول ص ۹۵۴، دارالاشاعت کراچی )

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف ایک گھر میں اگر دس صاحب نصاب بھی ہوں تو صرف ایک ہی بکری کافی ہے۔ تو وہ ان لوگوں کو اس عظیم ثواب سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

حدیث نمبر ۶ :

حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحاب رضی اللہ عنہما نے سوال کیا یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں (یعنی ابراہیم علیہ اسلام کا طریقہ ہے ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لیے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔ صحابہ کرام نے سوال کیا صوف ( یعنی اون والے جانور کا بھی یہ ہی حکم ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اون

کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

( مسند احمد ج ۲ ص ۳۶۸ سنن ابن ماجه ابواب الاضاحی باب ثواب الاضحیة مستدرک حاکم جلد ۲ ص ۲۸۹ سنن الکبری بیہقی جلد نمبر ۹ ص ۲۶۱ طبرانی کبیر حدیث نمبر ۴۹۳۵ الترغیب والترہیب جلد ۲ ص ۱۵۴ مشکوۃ ص (۱۲۹)

حدیث نمبر :٧

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ روپیہ جو بقرعید کے دن قربانی کے لیے خرچ کیا جائے اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔

( مجمع الزوائد ج ٤ ص ۲۰، الترغیب والترہیب ج ۲ ص ۱۵۵، دارقطنی حدیث نمبر ۴۸۱۵ سنن الکبری بیہقی جلد ۹ ج ۲۶۱.طبرانی کبیر حدیث نمبر (۱۰۷۳۵)

حدیث نمبر ۸:

حسین بن علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے خوش دلی کے ساتھ

ثواب سمجھ کر قربانی کی وہ قربانی اس کے واسطے دوزخ سے حجاب بنے گی۔

(الترغيب والترہیب مترجم جلد اول کا دوسرا حصہ ص ۹۰۱) طبرانی کبیر حدیث نمبر ۲۶۷۰)

حدیث نمبر ٩

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو قربانی کرو اور ان کے خون بہانے کو ثواب سمجھو اگرچہ خون زمین پر گرتا ہے (یعنی تمہیں زمین پر گرتا ہوا نظر آتا ہے) مگربے شک وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے۔

(مجمع الزوائد ج ٤ ص ۲۰ الترغیب والترهيب مترجم جلد اول کا دوسرا حصہ ص ۹۰۱ طبرانی اوسط حدیث نمبر ۱۵۵۴)

حدیث نمبر ۱۰ :

 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی قربانی کے پاس کھڑی ہو اس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے وقت تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور آپ ﷺ نے فرمایا اے فاطمہ یہ دعا پڑھو ان صلاتی و نسکی و محیای

و مماتي لله رب المعلمين لا شريك له وبذلك امرت وانا اول المسلمين. عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ اجر ( گناہوں کی تلافی والا) ہمیں بھی ملے گا یا صرف آپﷺ کے لیے یا آپ کی اہل بیت کے لیے خاص ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا

( یہ اہل بیت کے ساتھ خاص نہیں) بلکہ یہ اجر تمام مسلمانوں کے لیے ہوگا۔ (مستدرک حاکم جلد نمبر ۴ ص ۲۲۲ سنن الکبری بہیقی جلد ۹ ص ۲۸۳ طبرانی کبیر حدیث نمبر ۱۵۰۰۲ طبرانی اوسط حدیث نمبر ۲۶۰۹

مجمع الزوائد ج ۴ ص ۲۰ نصب الرایہ ج ۲ ص ۵۱۴)

حضرت فاطمۃ الزھر رضی اللہ عنہا کے واقعہ والی یہ حدیث حضرت عمران بن حصین کے علاوہ کچھ الفاظ کی کمی پیشی کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ دیکھیئے الترغیب والترہیب ج ۲ ص ۱۵۴، المستدرک ج ۵ ص ۱۴۷ مجمع الزاوئد ج ٤ ص ۲۰ نصب الرایه، ج ۴ ص الزاوئد ۴، ۵۱۴ - المستدرک ج ۵ ص ۱۴۷ سنن الکبری ج ۱ ص ۲۸۳ کنز العمال ج ۵ ص ۲۲۱)

حدیث نمبر 11:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی چیز میں چاندی خرچ

نہیں کی گئی جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ پیاری ہو اس قربانی سے جو عید کے دن کی جائے۔

(الترغيب والترہيب مترجم جلد دال کا دوسرا حصہ ص ۹۰۱)

ہم نے قربانی کے فضائل اور اس کی اہمیت قرآن وحدیث سے بیان کر دی ہے جو کہ ہرمسلمان کے لیے ہے جو قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ وہ ضرور کرے اور اس اجر عظیم کو حاصل کرےپیسہ آنے جانے والی چیز ہے مگر یہ وقت پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔

حضور اکرم ﷺ نے ہر سال قربانی کی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قربانیاں کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کا عمل مبارک

حدیث نمبر ۱۲:

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سات اونٹ کھڑے کر کے اپنے ہاتھ سے نحر کیئے 

( بخاری کتاب الحج باب من نحر بیده )

اس حدیث میں اکیلے صرف نبی کریم ﷺ کا سات اونٹ زبح کرنا ثابت ہوا۔

حدیث نمبر ۱۳ :

امام مسلم رحمۃاللہ علیہ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی ایک لمبی حدیث نقل کی ہے جو مسلم کے باب حجتہ النبی ﷺ میں مذکور ہے اس میں آتا ہے۔ پھر آپ منی گئے اور وہاں تریسٹھ اونٹوں کو اپنے ہاتھوں سے نحر (قربان) کیا پھر باقی اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نحر کے لیے دیئے۔ 

(سنن ابوداؤدکتاب المناسک سنن ابن ماجه کتاب المناسک ) 

اس حدیث میں آپ ﷺ کا اپنے ہاتھ سے ۶۳ تریسٹھ اونٹوں کی قربانی کرنا ثابت ہے۔

حدیث نمبر ۱۴ :

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سواونٹوں کی قربانی کی آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے گوشت کو تقسیم کروں پھر مجھے حکم دیا کہ میں ان کی جھولوں اور ان کی کھالوں کو تقسیم کروں۔

بخاری کتاب الحج باب يتصدوق بجلال البدن )

اس حدیث میں آپ ﷺ کا اکیلے سو اونٹ ذبح کرنے کا ذکر ہے۔

حدیث نمبر ۱۵ :

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قربانی کے دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سےایک گائے ذبح کی۔

( مسلم مشكوة باب الھدى )

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی بھی کرتے تھے اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی کرتے تھے۔

سارے گھر کی طرف سے ایک قربانی کرنے والی روایت اس صحیح حدیث کے خلاف ہے۔

حدیث نمبر ۱۶ :

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک گائے ذبح کی ۔ ( مسلم مشکوۃ باب لھدی ) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ اپنی ازواج کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

حدیث نمبر ۱۷ :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی۔

(بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح ضحيته )

گائے ذبح کرنے کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

(بخاري ج١ ص ۲٣۱، ۲۳۲، مسلم ج ۱ ص ۴۲۴ ، مشکوة ص ۲۳۱، بخاري ج۲ ص ۸۳۴ نصب الرايه جلد نمبر ۲ ص ۵۰۹، مسند احمد ج ۷ ص ۳۹، ابن ماجه ص ۲۳۳. ابوداؤد ج ا ص ۲۴۴، ابوداؤد ج ا ص ۳۲۴، ابن ماجه، ص ۲۳۲)

آپ ﷺ کادو مینڈھوں کی قربانی دینا

حدیث نمبر ١٨

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چت کبرے مینڈھوں کی قربانی دی میں نے دیکھاآپ اپنا پاؤں ان کے منہ کے ایک جانب رکھے ہوئے بسم اللہ اللہ اکبر کہ کر اپنے ہاتھ سے ذبح فرما رہے تھے۔

( بخاری کتاب الاضاحی باب من ذبح الاضاحی بیده ) ( مسلم کتاب الاضاحی باب استحبا الصحية وذبحها مباشرة بل توکیل )

اس حدیث سے بھی ایک سے زیادہ قربانی کرنا ثابت ہوا۔

حدیث نمبر ۱۹:

حضرت حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےدو مینڈھوں کی قربانی کی ایک مینڈھا نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی طرف سے اور فرمایا مجھےرسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں۔ لہذا میں ہمیشہ ان کی طرف سے

قربانی کرتا ہوں ۔ (مسند احمد جلد نمبر ۲ ص ۳۱۶-۳۱۷ حدیث نمبر ۱۲۷۸ - ابو داودکتاب الضحايا باب الاضحية عن الميت .

ترمذی ابواب الاضاحی باب فی الاضحیة ابکشین - مستدرک حاکم کتاب ال اضاحی )

اس حدیث سے بھی دو قربانیاں کرنا ثابت ہوتا ہے۔

رہی وہ روایت جو را شدی صاحب نے نقل کی ہے قرآن ، سنت صحابہ کرام اور سنو صالحین کے عمل کے خلاف ایک منسوخ اور وہ بھی سخت ضعیف روایت پیش کرنا کوئی دانش مندی نہیں۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...