اعتراض نمبر ٨٠پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:مسئله: سفر میں بھی جمع بین الصلاتین کرنا مسنون ہے
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
عن ابن عباس قال كان رسول اللہ ﷺ يجمع بين صلوة الظهر والعصر اذا كان على ظهير سير ويجمع بين المغرب والعشاء (ترجمہ) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی تیاری کے وقت ظہر اور عصر ایک وقت میں مغرب اور عشاء ایک وقت میں جمع کرتے تھے۔ (بخاری ج١ ابواب تفصير الصلاة، باب الجمع في السفر بين المغرب والعشاء صفحه۱۴۹، رقم الحدیث۱۱۰۷)
فقه حنفی
ولا يجمع فرضان في وقت بلاحج۔
(شرح الوقاية مع عمدة الرعاية كتاب الصلاة باب المواقيت جلد١ص ۱۳۲، طبع ایچ ایم سعید کمپني کراچي) (ترجمہ ) دوفرض نمازیں ایک ہی وقت میں جمع کرنا حج کے علاوہ باقی ایام میں جائز نہیں ۔
(فقہ وحدیث ۱۱۹)
جواب:
دوفرض نمازوں کو جمع کرنے کے دوطریقے ہیں پہلا طریقہ جمع حقیقی دوسراطریقہ جمع صوری
پھر جمع حقیقی کی دوقسمیں ہیں: پہلی قسم : جمع تقدیم :
ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کو اور مغرب کے وقت میں مغرب اور عشاء کواکٹھا پڑھ لیا جاۓ۔
دوسری قسم : جمع تاخیر :
عصر کے وقت میں ظہر اور عصر کو اور عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کواکٹھا پڑھ یا جائے ۔ ان دونوں صورتوں میں ایک ایک نماز ضرور بے وقت پڑھنی پڑتی ہے۔
جمع صوری:
ظہر کی نماز ظہر کے آخری وقت میں اور عصر کی نماز اس کے اول وقت میں پڑھ لی جاۓ ۔اسی طرح مغرب کی نماز آخر وقت میں غروب شفق سے پہلے اور عشاء کی نماز کو اول وقت میں غروب شفق کے فورا بعد پڑھ لیا جاۓ اس صورت میں ہر ہر نماز اپنے اپنے وقت میں پڑھی جاتی ہے کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی جاتی اس لیے اس کو جمع حقیقی نہیں جمع صوری کہتے ہیں ۔ یہ سفر میں بالا تفاق جائز ہے راشدی صاحب نے جو حدیث بخاری کے حوالے سے نقل کی ہے اس سے یہی جمع صوری مراد ہے ۔ اس مسئلہ میں فقہ منفی کا نظریہ قرآن وسنت کے مطابق ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کا مسلک یہ ہے کہ حج کے موقع پر مزدلفہ اور عرفات کے سوا ، دونمازوں کو ایک نماز کے وقت میں جمع کر کے پڑھنا درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر نماز کا ایک متعین ومحدود وقت مقرر کیا ہے اور اس کا منشا یہی ہے کہ ہر نماز کو اس کے اپنے وقت میں ادا کیا جاۓ ۔ (۱) چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
” بے شک نماز ،مومنوں پر، ایک مقرر وقت کے اندرفرض کی گئی ہے ۔‘‘
( سورہ نساء:۱۰۳)
(۲) صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کسی نماز کا وقت اس وقت تک داخل نہیں ہوتا ، جب تک کہ دوسری نماز کا وقت نکل نہ جاۓ ۔‘‘ ( ج۱ ص۵۸)
(۳) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ظہر کا وقت ، اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک کہ عصر کا وقت نہ آ جاۓ ۔‘‘
(ج۱،ص۵۸)
(۴) ابوداؤد، ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ اور طحاوی میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نیند کی حالت میں ( نماز رہ جانے میں کوتاہی نہیں ہے.... کوتاہی تو بیداری کی حالت میں ہے کہ آدمی ایک نماز کو دوسری نماز تک موخر کر دے ۔‘‘
( ابوداؤر ج ١ ص ۶۳ )
(۵) قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نیک اولاد اور پیروکاروں کے گزرجانے کے بعد ایسے لوگ آ گئے کہ جنہوں نے نمازیں ضائع کرنا شروع کر دیں ۔ (مریم :۵۹ ) اس کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نمازیں ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نمازوں کو اپنے اوقات سے موخر کر کے دوسرے اوقات میں پڑھا کرتے تھے۔
(عمدة القارى ومعالم النتريل للبغوي رحمة الله عليه)
نمازوں کے اوقات کی تعیین وتحدیدتواتر سے ثابت ہے اور مندرجہ بالاقطعی دلائل سے ثابت ہے کہ نمازوں کے اپنے اوقات کو چھوڑ کر ان کو دوسری نمازوں کے اوقات تک موخر کرنا بالکل نا جائز ہے۔ اس سے صرف ایک استثناء رسول اللہ ﷺ کی سنت متواترہ سے ثابت ہے کہ حج کے موقع پر عرفات میں عصر کی نماز کو ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب کی نماز کوعشاء کے وقت میں جمع کر کے پڑھا جاۓ ۔ اس کے علاوہ کسی موقع پر حضور ﷺ نے دونمازوں کو جمع نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جوآپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سفر و حضر کے ساتھی اور افقہ الامت کے لقب سے ملقب ہیں ،فرماتے ہیں : «حضور ﷺ نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں پڑھی ، مگر عرفہ اورمزدلفہ میں ( حج کے موقع پر )‘‘
(نسائی ج١ ص٣٦)
رہی وہ روایت جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے بظاہر یہ نمازیں اکٹھی پڑھی ہیں ہم کہتے ہیں کہ یہ جمع حقیقی نہیں تھیں بلکہ جمع صوری ہیں کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کوئی نماز اپنی وقت سے ہٹ کر نہیں پڑھی ، بلکہ آپ ﷺ نے ان نمازوں میں ’’جمع صوری‘‘ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ظہر کی نماز اس کے بالکل آخری وقت میں اور عصر کی نماز اس کے بالکل ابتدائی وقت میں ادا فرمائی ۔ یہی معاملہ مغرب اور عشاء کا ہے۔ اس طرح بظاہر دونوں نمانہ میں جمع ہوگئیں لیکن درحقیقت ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ادا کی گئی ۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱) صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ”میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کوسفر میں جلدی ہوتی تو آپ مغرب کی نماز کو موخر کر دیتے تھے، یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع کر کےپڑھتے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بیٹے سالم بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تو وہ بھی ایسے ہی کرتے تھے۔مغرب کی تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ، پھر تھوڑا سا ٹھہر کر ( تا کہ عشاء کے وقت کا دخول یقینی ہو جاۓ ) عشاء کی نماز ادا کر تے تھے۔
( ج ١ ص ١٤٩)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس طریقہ میں جمع صوری پر دلیل ملنے کا حافظ ابن حجر رحمة الله عليه نے بھی اعتراف کیا ہے ۔ ( فتح الباری ج ۲ ص ۴۶۵ )
(۲) سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ،سفر کے دوران میں ان سے کہا کہ نماز پڑھ لیجئے ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی چلتے رہو۔ پھر جب شفق غروب ہونے میں کچھ وقت رہ گیا تو انہوں نے اتر کر مغرب کی نماز پڑھی ۔ پھر شفق غروب ہونیکا انتظار کیا اور اس کے بعد عشاء کی نماز ادا کی ۔ پھر کہا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو جب کسی وجہ سے جلدی در پیش ہوتی تو اسی طرح کرتے تھے جیسے میں نے کیا۔ (ج١ ص ۱۷۱)
(۳) صحیح مسلم میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ( ظہر وعصر کی ) آٹھ رکعتیں اکٹھی اور ( مغرب وعشاء کی سات رکعتیں اکٹھی پڑھی ہیں ۔ ( راوی کہتے ہیں میں نے کہا: اے ابوالشعتاء، میں گمان کرتا ہوں کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کوموخر کر کے اور عصر کی نماز کو معجل کر کے پڑھا۔ اسی طرح مغرب کی نماز کو موخر کر کے اور عشاء کی نماز کو معجل کر کے پڑھا۔ ابوالشعثاء نے کہا، ہاں میرا بھی یہی گمان ہے۔
(ج١ ص٢٤٦)
(٤) موطا امام محمد میں روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مملکت کے مختلف علاقوں کی طرف خط لکھا اور اس میں لوگوں کو منع کیا کہ وہ دونمازوں کو جمع کریں ، اور ان کو خبر دی کہ دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (ص۱۳۰،۱۲۹ )
(۵) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کو جمع کیا کرتے تھے، اس طرح کہ مغرب کو اس کے آخری وقت میں جبکہ عشاءکواس کے اول وقت میں ادافرماتے ۔
( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۹)
(٦) ابوسعید الحذری رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا، اس طرح کہ مغرب کو موخر کیا اور عشاء کو معجل کیا اور اس طرح دونوں کو جمع کر کے پڑھا۔
( مجمع الزوائد، ايضا )
(۷) عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب تم میں کسی کو حاجت پیش آ جاۓ اور وہ چاہے کہ مغرب کو موخر اور عشاء کو معجلل کر کے دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھے تو وہ ایسے کر سکتا ہے
( اخرجہ ابن جریر، کنز العمال ج ۴ ص ۱۱۷ )
(۸) امام حسن بصری رحمة الله عليه اور امام محمد رحمة الله عليه بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں یہ معلوم نہیں کہ آپ نے سفر یا حضر میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا ہومگر ( حج کے موقع پر ) عرفہ میں، جہاں ظہر اور عصر کو جمع کیا جا تا ہے اور مزدلفہ میں، جہاں مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا جاتا ہے
( مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲، ص۴۵۹ ۔ بیہقی ج ۳ ص ۱۶۹)
یہ روایات جمع بین الصلوتین کی روایتوں کو جمع صوری پر محمول کر نے میں بالکل صریح ہیں ۔علاوہ ازیں ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس ان سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مدینہ میں کسی خوف یا بارش کی حالت کے بغیر ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا۔ ( ج ۱، ص ٢٦) اس
مضمون کی روایتیں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه(مجمع الزوائد ج ۲، ص ۱٦١) عبداللہ بن عمر رضى الله عنه( مصنف عبدالرزاق ج ۲،ص۵۵۶) اور جابر بن عبداللہ ( طحاوی ج ۱ ص ۷۹ ) سے بھی مروی ہیں ۔ ان روایات کو تمام اہل علم بالا تفاق جمع صوری پر محمول کرتے ہیں، کیونکہ جن ائمہ کے نزدیک دو نمازوں کو حقیقتاً ایک وقت میں جمع کرنا جائز ہے ، ان کے نزد یک یہ اجازت عذر ،مثلاً حالت سفر ، کے ساتھ مشروط ہے، جب کہ ان روایات میں تصریح ہے کہ مدینہ میں بغیر کسی عذر کے جمع بین الصلوتین کی گئی ۔ چنانچہ جب ان روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جا تا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ باقی روایات کو بھی ، شریعت کے اصول کلید کی روشنی میں جمع صوری ہی پر محمول کیا جاۓ؟ بالخصوص جبکہ خود روایات ہی میں اس کی صراحت بھی موجود ہے؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں